اقتصادی آسمانوں کا تحفظ
پی آئی اے مسلسل مسائل کا شکار رہی ہے حالانکہ اس کو غیر معمولی کامیابی سے ہمکنار ہونا چاہیے تھا۔
نواز شریف حکومت نے 1993ء میں آزادانہ اقتصادی پالیسی اختیار کرنے کے ضمن میں ہوا بازی کی صنعت کے قواعد و ضوابط میں نمایاں تبدیلی کا فیصلہ کیا۔ شہری ہوا بازی اتھارٹی (سی اے اے) کے بیورو کریٹس نے نجی سیکٹر کے اپنے شراکت داروں سے مل کر نواز شریف حکومت کی غلط رہنمائی کی اور معیشت کو آزاد کرنے کی پالسی کو مفاد پرستوں کے حوالے کر دیا۔ انھوں نے جو open ended پالیسی اختیار کی اس کا قومی مفادات کو بہت نقصان پہنچا۔ پی آئی اے پر اس کے سب سے زیادہ منفی اثرات مرتب ہوئے۔ نجی فضائی کمپنیوں کے لیے اندرونی پروازوں کو کھولنے سے انھوں نے رات کی پروازوں پر ہی نہیں بلکہ کراچی دبئی روٹ پر بھی بے حد کم کرایے لینا شروع کر دیے جس سے قومی ائر لائن (پی آئی اے) کے لیے ان سے مسابقہ ممکن ہی نہ رہا۔
قومی مفادات اور قومی ائر لائن کے مفادات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے غیر ملکی فضائی کمپنیوں کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں کو نافذ کرنے پر کوئی توجہ ہی نہ دی گئی جن کے تحت پاکستانی پروازیں بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر جاتی تھیں اس طرح یو اے ای' قطر اور بحرین کی فضائی کمپنیوں کے لیے پاکستان کا روٹ بے حد منفعت بخش بنا دیا گیا جس کے نتیجے میں پی آئی اے تباہی کا شکار ہوگئی۔ جنوری 1994ء میں بینظیر حکومت نے بیرونی ہوا بازی کے شعبے پر جو پابندی عائد کی تھی کہ پاکستان سے باہر جانے والی پروازوں کے بدلے میں پاکستان کو بھی اتنی ہی پروازیں دی جائیں وہ پاکستان کے لیے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوئی۔ یہ پالیسی خود مختار ائر لائنز تک محدود رکھی گئی۔
کسی بھی ائر لائن کا مشن یہ ہوتا ہے کہ مسافروں اور کارگو (سامان) کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک بحفاظت اور سہولت کے ساتھ بروقت پہنچایا جائے جس سے فضائی کمپنی کو منافع ہو۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے شہری ہوا بازی اتھارٹی (سی اے اے) جدید ترین ائر پورٹ تیار کرنے کی ذمے دار ہوتی ہے ۔
جس کے پاس گراؤنڈ سپورٹ الیکٹرانک آلات موجود ہوں اور اسے سلامتی کے لیے ائر پورٹ سیکیورٹی فورس (اے ایس ایف) جیسی تنظیموں کی مدد حاصل ہو۔ شہری ہوا بازی کے لیے وزیر اعظم کے قابل مشیر کیپٹن شجاعت عظیم کی ولولہ انگیز قیادت میں اب حکومت ایک نئی قومی ہوا بازی پالیسی (این اے پی) نافذ کر رہی ہے جو ''اوپن سکائز یا کھلی فضائی حدود کی ضمانت فراہم کرے جو کہ کسی بھی ائر لائنز کے لیے ترقی کرنے کا بنیادی اصول ہے۔ غیر ملکی اور مقامی فضائی کمپنیوں کو اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دی جانی چاہیے کہ وہ قومی فضائی کمپنی کے لیے خسارے کا باعث بنیں اور جو کمپنیاں اس اصول کی پابندی نہ کریں ان کے خلاف یکطرفہ طور پر پابندیاں عائد کر دی جائیں۔ اور اس صورت میں اس بات کا خیال نہ رکھا جائے کہ اسے ہماری آزادانہ پالیسی کے منافی اقدام سمجھا جائے گا۔
پی آئی اے مسلسل مسائل کا شکار رہی ہے حالانکہ اس کو غیر معمولی کامیابی سے ہمکنار ہونا چاہیے تھا۔ اس کی پیشہ وارانہ انتظامیہ جو تکنیکی اور تزویراتی منصوبہ بندی کی ماہر تھی اسے فارغ کر دیا گیا۔ اس قسم کے فیصلوں کے پیچھے مفادات کے سوا اور کوئی چیز نہیں تھی اور نہ ہی ایسا کرتے وقت اقتصادی فیزیبلٹی کے لیے اعدادوشمار اکٹھے کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اخراجات انتظامیہ کے قابو سے باہر ہو گئے۔ اس کی ایک وجہ انتظامیہ کے اراکین کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ بھی تھا۔
بجائے اس کے کہ پی آئی اے اپنے ''ٹیم ورک'' کے اعتبار سے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتی یہ الٹا پریشانیوں میں گِھر گئی۔ اس کے کرتا دھرتا گروپ اقلیت میں ہیں جب کہ اکثریت ان کی ہے جو اس فضائی کمپنی کو چلانے کے لیے محنت کرتے ہیں تاہم ان کی آواز کوئی نہیں سنتا۔ جن افسروں کو تعینات کیا گیا یا ترقی دی گئی ان میں ان کی اہلیت کے بجائے اقربا پروری اور ناجائز حمایت کا عمل دخل تھا اور ایسے لوگ ہمیشہ احساس کمتری میں مبتلا رہتے ہیں بالخصوص ان کے سامنے جو میرٹ پر آگے آتے ہیں۔ بے بس اکثریت کا خوف بجا ہے کیونکہ اگر آپ ذہین اور باصلاحیت ہیں تو آپ کی یہی خوبیاں آپ کی خامیاں سمجھی جا سکتی ہیں۔ دیانتدار اور پیشہ وارانہ مہارت رکھنے والے مینجرز کو تعینات کرنے کے بجائے جو بروقت درست فیصلے کر سکیں ایسے لوگوں کو ان اہم مناصب پر فائز کیا گیا ہے جنھیں صرف اپنی نوکری کی بقاء عزیز ہوتی ہے۔
فضائی کمپنیوں کو ہر دس سال کے بعد نئے طیارے حاصل کرنا لازم ہوتا ہے جب کہ پی آئی اے کے فضائی بیڑے کی تبدیلی کو غیر ضروری طور پر موخر کر دیا گیا۔ اس کے 42 طیاروں کے لیے صرف 400 افسر تھے اس حوالے سے پی آئی اے کا اسٹاف ضرورت سے زیادہ تھا اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب کمپنی کے صرف 21 طیارے قابل پرواز تھے جب کہ اس کے اسٹاف کی تعداد دگنا ہو کر 800 ہو گئی تھی۔
اس کا انکشاف پی آئی اے کے ملازمین کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی (جے اے سی پی آئی اے ای) نے کیا ہے۔ اسٹاف کی تعداد میں کمی کی ضرورت ہے لیکن یہ اشد ضروری بھی نہیں۔ چیلنج یہ ہے کہ نئی بھرتی منافع میں اضافے کے لیے کی جائے۔ بلا سوچے سمجھے ملازمین پر بے روز گاری کی تلوار نہ چلائی جائے۔ بصورت دیگر ان کا ردعمل فضائی کمپنی کے لیے انتہائی تباہ کن ہو سکتا ہے اور اس طرح ان ملازمین کو بھی فارغ کیا جا سکتا ہے جو کہ نہایت محنت سے کام کر کے اپنا رزق حاصل کرتے ہیں اور کمپنی کے مفاد کو بھی مدنظر رکھتے ہیں۔
پاکستان کے مختلف مقامات کے لیے ہفتے کی تقریباً 200 پروازیں چلتی ہیں اور پی آئی اے اپنے بوئنگ 737 طیارے کے ذریعے کچھ پروازیں چلاتی ہے۔ اگر یو اے ای قطر اور بحرین کے لیے پروازوں میں اضافہ کر دیا جائے تو پی آئی اے کی آمدنی میں مناسب اضافہ ہو سکتا ہے۔ ''جے اے سی پی آئی اے ای'' کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کو روزانہ 160 پروازیں چلانے کے لیے 50 سے 70 طیاروں کی ضرورت ہے جب کہ ایک طیارے کے لیے اسٹاف کی اوسط شرح کم کر کے 257 کر دی جائے۔ اب ایسے طیاروں کو تبدیل کیا جا رہا ہے جو زیادہ پٹرول کھاتے تھے اور کیپٹن شجاعت عظیم کی ہدایات کے مطابق کم پٹرول استعمال کرنے والے طیارے حاصل کیے جا رہے ہیں۔ سن 2012ء کے دوران پی آئی اے کو 32 ارب روپے کا نقصان ہوا (جب کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران پی آئی اے کو ہونے والے نقصان کا حجم 100 ارب روپے کے لگ بھگ تھا) نیز اس کمپنی پر 2 ارب امریکی ڈالر کا گردشی قرضہ بھی چڑھ چکا تھا جس نے نواز شریف حکومت کو مشکل میں ڈال دیا۔
ہوا بازی کے محکمے کو وزارت دفاع سے علیحدہ کرنے کے لیے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ایک چار رکنی کمیٹی قائم کی ہے جو مختلف ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی فضائی کمپنیوں کا جائزہ لے کر سفارشات تیار کر رہی (ویسے تو یہ بات بھی ناقابل فہم ہے کہ آخر شہری ہوا بازی ڈویژن کو وزارت دفاع کے تحت رکھا ہی کیوں گیا تھا)۔
کیپٹن شجاعت عظیم کو قومی ہوا بازی پالیسی 2014ء کی تشکیل پر سراہا جانا چاہیے اور توقع رکھنی چاہیے کہ یہ قومی فضائی کمپنی ایک بار پھر عروج کا سفر طے کرے گی اور طاقت ور مافیا کے مقابلے میں کامیاب حاصل کرے گی۔