سوچ لیجیے یہ دسمبر ہے
مخالفین کے پیدا کردہ ہیجان کے باوجود کپتان نے تیس نومبر کا جلسہ کامیابی سے انجام دیا ہے
مخالفین کے پیدا کردہ ہیجان کے باوجود کپتان نے تیس نومبر کا جلسہ کامیابی سے انجام دیا ہے۔ وفاقی دارالحکومت کے عین قلب میں ہونے والا یہ جلسہ اپنی مثال آپ تھا۔ اس حوالے سے عمران خان خصوصی طور پر شاباش کے مستحق ہیں کہ انھیں چار اطراف سے گھیرنے اور ناکام بنانے کی کوششیں کی گئیں لیکن اس کے باوصف وہ سرخرو بھی ہوئے اور اپنے حریفوں کے سینے پر مونگ بھی دَل دی۔ جس روز اسلام آباد میں خان صاحب نے اکٹھ کرنا تھا، اس سے ایک ہفتہ قبل علامہ طاہر القادری صاحب پہلے علیل ہوئے اور پھر دل تھام کر باقاعدہ صاحبِ فراش ہوگئے۔
جب جنوبی پنجاب کے جلسے میں اچانک حضرت علامہ نے سینے پر ہاتھ رکھا تو اسی سے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ تیس نومبر کو خان کے جلسے میں شرکت نہیں فرماسکیں گے۔ پھر ہوا بھی ایسا ہی۔ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ تیس نومبر کے جلسے میں حضرت صاحب شریک ہوئے نہ گجرات کے چوہدری برادران۔ نہ وحدت المسلمین والے آئے نہ سنی اتحاد کونسل نظر آئی۔ یہ بہت اچھا ہوا۔ واضح ہوگیا کہ ان چاروں کے بغیر بھی کپتان آگے بڑھ سکتا ہے۔ مزید اچھا یہ ہوا کہ کپتان نے اپنے عظیم الشان جلسے میں ان چاروں ''احباب'' کا ذکر تک نہ کیا۔
عمران خان کے جلسے کو ناکام بنانے اور انھیں نفسیاتی طور پر دباؤ میں لانے کے لیے جے یو آئی نے بھی اپنا مقدور بھرکردار ادا کرنے کے لیے کوششیں تو کیں لیکن یہ اقدام سعی ٔ لاحاصل ہی ثابت ہوا۔ تیس نومبر کے جلسے کو ناکام و نامراد بنانے کے لیے جے یو آئی (ف) کے کارکنوں نے موٹروے پر پتھروں کے ڈھیر لگا دیے تاکہ پشاور سے براستہ موٹروے آنے والے پی ٹی آئی کے کارکنان اسلام آباد نہ پہنچ سکیں لیکن اس کے باوجود کارکن اسلام آباد جلسے میں پہنچ گئے۔
جے یو آئی کا کہنا تھا کہ ہم عمران خان کی مخالفت میں موٹروے پر رکاوٹیں نہیں کھڑی کررہے بلکہ اپنے ایک مقتول لیڈر (مولانا خالد سومرو) کے حوالے سے احتجاج کر رہے ہیں۔ ایک ہی دن قبل سندھ میں جے یو آئی (ف) کے سیکریٹری جنرل مولانا خالد محمود سومرو کو سکھر کے نزدیک کھوسہ گوٹھ کے علاقے میں نہ معلوم افراد نے قتل کردیا تھا۔ قتل کی یہ واردات قابلِ مذمت ہے۔ اس کے خلاف مولانا فضل الرحمن صاحب اور ان کے ہم نواؤں نے احتجاج کرنے کا اعلان کیا تو بجا کیا لیکن حیرت کی بات ہے کہ تیس نومبر کو سکھر اور سندھ کے دیگر علاقوں کے بجائے پنڈی آنے والی موٹر وے پر زیادہ نکلا۔ خدا کا شکر ہے کہ اس ''بامعنی'' احتجاج کے باوجود عمران کا جلسہ کسی گزند اور نقصان سے محفوظ رہا۔ کے پی کے میں پی ٹی آئی کے کارکن موٹروے کے بجائے جی ٹی روڈ کے ذریعے اسلام آباد پہنچے۔
اسلام آباد میں ہونے والے کپتان کے جلسے کو خراب کرنے اور اسے نفسیاتی طور پر کچلنے کے لیے جناب زرداری خود بھی بروئے کار آئے۔ وہ اُسی روز لاہور میں بنفسِ نفیس موجود تھے کہ انھیں پیپلز پارٹی، جس کے بکھرے ہوئے تنکے وہ اکٹھے کرنے کی کوشش کررہے ہیں، کے 47ویں یومِ تاسیس کے حوالے سے اپنے کارکنوں سے خطاب بھی کرنا تھا۔ آصف زرداری صاحب، جن کے بارے میں تازہ کتاب (''سچ کا سفر'') میں بعض حیرت انگیز باتیں لکھی گئی ہیں، کو ہم مفاہمت کار اور صلح جُو خیال کرتے ہیں۔ (مفاہمت کاری میں تو انھیں بجا طور پر چیمپئن کہا جاسکتا ہے) یہی وہ دو عناصر ہیں جن کے بَل پر وہ پانچ سال صدر بھی رہے اور اپنی پارٹی کو پورے پانچ برس حکمرانی کرانے میں کامیاب بھی ہوئے۔
بی بی صاحبہ کی شہادت کے حوالے سے ان کا معروف بیان، جس نے جلتے اور ڈانوا ڈول پاکستان کو ٹھنڈا بھی کیا اور سہارا بھی دیا تھا، تو ہم کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔ حیرت مگر یہ ہے کہ وہ تیس نومبر کے اپنے جلسے میں عمران کے خلاف غیر محتاط بیان دینے سے خود پر قابو نہ پاسکے۔ خان کے خلاف ان کا بیان ان کے مزاج سے ہر گز مطابقت نہیں رکھتا۔ اس سے یقینا ان کے حلیف کو مسرت ہوئی ہوگی کہ دونوں قائدین اتحاد و یگانگت کی سنہری زنجیر سے بندھے ہیں لیکن جب عمران خان پلٹ کر، اِسی لہجے میں، جواب دیتے ہیں تو شکوہ کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے۔ ان حربوں اور ہتھکنڈوں کے باوجود خان کا جلسہ بھرپور انداز میں کامیابی سے ہمکنار ہوا۔
اس نے ایک بار پھر سیاسی حریفوں کو حیران بھی کیا ہے اور پریشان بھی کہ خان نے 4دسمبر سے 16دسمبر تک احتجاج کرنے کے لیے اپنے جس نئے لائحہ عمل کا اعلان کیا ہے، اس سے ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے۔ حکمرانوں کو اس بارے میں مشوش ہونا چاہیے کہ حالات کے بگڑنے اور تصادم کے بہت سے امکانات و احتمالات ہیں۔ حکومت اور ان کے ترجمان مگر پُرسکون ہیں۔ کپتان کے نئے اعلان کے مقابل صاحبانِ اقتدار اور ان کے ترجمانوں کی جانب سے جس طرح کے جواب آئے ہیں، انھیں سیاسی مخاصمت نہیں بلکہ ہزل گوئی کہا جائے گا۔
ملک بھر میں عمران خان واحد شخصیت ہیں جو تنہا اپوزیشن کا کردار ادا کررہی ہے، چنانچہ مقتدرین کا احتساب کرنے اور انھیں دباؤ میں لانے کے لیے کپتان اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ اس سے کوئی تعرض نہیں کرسکتا۔ دانشمندی کی بات مگر یہ ہے کہ حکمران اور مشیرانِ حکومت کو اپوزیشن لیڈر کے مطالبات اور شکایات کو تحمل اور بردباری سے دیکھنا چاہیے۔ اس وقت عمران اور ان کے حریفان قطبین پر بیٹھے نظر آرہے ہیں۔ مکالمے اور مخاطبے کی راہیں مسدود بنا دی گئی ہیں۔ اس کی بنیادی ذمے داری حکومتِ وقت پر عائد ہوتی ہے۔
کبر و نخوت کے بجائے صلح اور کسی درمیانی راستے کی تلاش میں ہاتھ اور قدم آگے بڑھانا ہوں گے۔ عمران خان نے جس مہینے میں شہر بند اور ملک کو منجمد کرنے کا اعلان کیا ہے، یہ وہی مہینہ ہے جب 42/43سال قبل پاکستان دو لخت ہوگیا تھا۔ اس وقت بھی دو سیاسی حریفوں نے ضِد اور اکڑ کا مظاہرہ کیا تھا۔ نتیجے میں ہم حضرت قائداعظم علیہ رحمہ کا عنایت کردہ پاکستان کھو بیٹھے۔ چار عشرے سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود یہ زخم ابھی تک مندمل نہیں ہوسکے۔
اب پھر وہی دسمبر سر پر کھڑا ہے اور پھر وہی دو ضدیں بالمقابل ہیں۔ دونوں تصادم و تلخی کی راہ پر گامزن ہیں۔ غیر ملکی حریف اور حریص طاقتیں ہم پر نظریں جمائے بیٹھی ہیں اور ہمارے بارے میں دل آزار پیشگوئیاں کر رہی ہیں۔ ایسے میں خان اور میاں صاحب کو آگے بڑھ کر، اپنی اپنی مونچھ نیچی کرتے ہوئے، پاکستان کے وسیع تر مفاد میں مصافحہ و معانقہ کرنا ہوگا تاکہ سُولی پر ٹنگے پاکستان کے بیس کروڑ عوام سُکھ اور سکون کا سانس لے سکیں۔
اگر پیپلز پارٹی اور چوہدری برادران ایک دوسرے سے مصافحہ کرسکتے تھے اور اگر ماضی میں ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کی درپے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی بوجوہ یک جان و دو قالب ہوسکتی ہیں تو آج مسلم لیگ نون اور تحریکِ انصاف امن کے راستے پر گامزن کیوں نہیں ہوسکتیں؟ اس کے لیے مگر انصاف کے ساتھ کچھ لینا اور کچھ دینا پڑے گا۔ کیا نواز شریف اور عمران خان وطن کے تحفظ اور بہتری کی خاطر یہ ''سودا'' کرنے کے لیے تیار ہیں؟ سوچ لیجیے، یہ دسمبر کا مہینہ ہے۔ ایسا نہ ہو کہ خدانخواستہ، خاکم بدہن، پھر کسی شکستہ دل شاعر کو یہ نہ لکھنا پڑے:
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی مداراتوں کے بعد