امریکی پھندے سے نجات
برطانوی فوج میں گزرے وقت کے بارے میں وہ بہت دلچسپ واقعات سنایا کرتے تھے۔
ڈاکٹر محمد اشرف رضا گوجرانوالہ میں ہمارے فیملی ڈاکٹر تھے جب ہم کالج میں پہنچے تو انھوں نے شفقت کے ساتھ ساتھ کچھ اہمیت بھی دینا شروع کر دی۔ بڑھاپے اور پارکنسن کی بیماری نے ان کو گھر تک محدود کر دیا تھا۔ ان دنوں ان کے ساتھ بڑی طویل نشستیں رہیں۔ ڈاکٹر صاحب دوسری جنگ عظیم میں برما کے محاذ پر برطانوی فوج کی مسلسل پسپائی کے چشم دید گواہ تھے۔ دریائے اراودی اور دریائے سیٹانگ کے پار پسپائی کی ہولناک مہموں میں ایک فوجی ڈاکٹر کی حیثیت سے برطانوی فوج کا حصہ تھے۔
برطانوی فوج میں گزرے وقت کے بارے میں وہ بہت دلچسپ واقعات سنایا کرتے تھے۔ وہ بتاتے تھے کہ امن کے زمانے میں چھاؤنیوں میں تقرری کے دوران اتوار کی شام میس یا پھر آفیسرز کلب میں ڈانس کی مخلوط محافل ہوا کرتیں۔ انگریز افسر جمع ہوتے، ان محافل کے آداب میں ایک بات یہ بھی شامل تھی کہ ہر افسر اپنی خاتون ساتھی بھی ساتھ لایا کرتا۔ اگر کسی انگریز افسر کو واقعی جائز مجبوری ہو تو اسے تنہا بھی قبول کر لیا جاتا تھا لیکن ان محافل کے ضمن میں دیسی افسروں کی حالت قابل رحم تھی جس کے ذمے دار وہ خود ہی تھے۔
دیسی کلچر کے تقاضے مختلف تھے اور فوجی ماحول مختلف۔ مسلمان افسر پارٹی میں شریک ہونے کے لیے سفارشیں کروایا کرتے، منت سماجت کرتے۔ بقول ڈاکٹر صاحب، ان افسروں میں آگے چل کر کچھ پاک فوج میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے تک پہنچے۔ انگریز افسروں میں مشاہدہ، کھوج لگانے اور انسانوں کو پرکھنے کی وہ تمام صلاحیتیں وافر تھیں جو کامیاب حکمرانی کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہفتے کو جب میں چھٹی کر کے دفتر سے نکل رہا تھا تو میرے کمانڈنگ آفیسر نے مجھے روک لیا، ان محافل میں میری عدم دلچسپی اس سے ہضم نہیں ہو پا رہی تھی، کہنے لگا ''ڈاکٹر رضا! تم نے کبھی پارٹی میں شامل ہونے کے لیے درخواست نہیں کی، اگر تم چاہو تو میں کل کی پارٹی کے لیے تمہیں لکھ دوں۔''
ڈاکٹر صاحب نے اس پیش کش کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا، سر! میں اپنی خواتین کو اس پارٹی میں نہیں لا سکتا۔'' اور وہاں سے روانہ ہو گئے۔ یقینا اس جواب سے افسروں کی نظر میں ان کی عزت و توقیر میں اضافہ ہی ہوا ہو گا۔ برطانوی سرکاری مشینری کا حصہ رہنے والے طبقے کی اکثریت 'جس نے آگے چل کر ملک کی باگ ڈور سنبھالی' مغربی کلچر اور تہذیب سے ربط اور مرعوبیت کی بنا پر اُسی جانب جھکاو اختیار کیا جس طرف اس کو رغبت تھی۔
دنیا کی برادری میں اقوام کے رویئے ان کی قدر و قیمت طے کرتے ہیں اور ان رویوں کا اظہار بین الاقوامی معاملات میں حکومتی پالیسیوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اس بات پر شرمندگی ہوتی ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کہیں غیر ضروری منت سماجت اور کہیں غیر ضروری اکڑ اور محاذ آرائی جیسے غیر متوازن رویوں سے عبارت ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی کی سب سے منفی صفت یہ رہی کہ اس کی صورت گری ہمیشہ عالمی حالات و واقعات کے ردعمل میں ہوتی رہی۔
ہمیں آج تک یہ توفیق نصیب نہیں ہوئی کہ خالصتاً اپنے مفادات کی روشنی میں اپنی پالیسی تشکیل دے سکیں۔ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو دنیا کے اندر دو قطبی عالمی منظر نامہ اُبھر رہا تھا۔ پاکستان نے مغربی سرمایہ داری نظام کے نئے کرتا دھرتا امریکا کا انتخاب کیا جب کہ پاکستان کے ساتھ شدید تنازعات میں اُلجھے ہوئے بھارت نے بظاہر روس (سوویت یونین) کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ لیکن اپنا توازن نہیں کھویا۔ آنے والی دہائیوں میں ہم اپنے نام نہاد اتحادیوں کی حمایت میں اس حد تک آگے چلے گئے کہ دنیا کی دوسری بڑی طاقت کو اپنا دشمن بنا لیا جب کہ بھارت نے روس سے ہر قسم کا سیاسی، سفارتی اور تکنیکی مفاد حاصل کرنے کے باوجود امریکا کے خلاف روس کا سپاہی بننے کا خطرہ کبھی مول نہیں لیا۔
پاکستان نے مئی 1954ء میں امریکا کے ساتھ باہمی تعاون کا معاہدہ کر لیا۔ ستمبر 1954ء میں تنظیم (SEATO) اور فروری 1955ء میں بغداد پیکٹ یعنی (CENTO) کارکن بن گیا۔ امریکا کو روس کی جاسوسی کے لیے پاکستان کی سر زمیں استعمال کرنے کی اجازت دی۔ اگر روس میں امریکی جاسوس طیارہ نہ گرایا جاتا تو بات بہت آگے تک جاتی کیونکہ امریکی زمینی فوج کے لیے ایک الگ چھاؤنی تعمیر کی جا رہی تھی جو بعد ازاں پاک فوج کے کام آئی۔ اس وقت کے پاکستانی صدر جنرل ایوب خان نے امریکی نائب وزیر خارجہ ہنری بیروڈ کو یہ تک کہہ دیا ''اگر آپ کو ہماری ضرورت ہے تو ہماری فوج آپ کی فوج بن سکتی ہے'' تب سے امریکا نے یہ طے کر لیا تھا کہ پاکستان کے معاملات میں دخیل ہونے کے لیے پاک فوج سے بہتر ذریعہ اور کوئی نہیں۔ انھی جنرل ایوب نے بھارتی وزیر اعظم کو مشترکہ دفاع کی پیشکش بھی کر دی تھی ۔
جس پر نہرو نے سوال کیا کہ پاک بھارت مشترکہ دفاع کس کے خلاف ہو گا؟ جس پر پاکستانی صدر کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ دوسری جانب بھارت نے کسی مہم جوئی کے بغیر روس کی زبردست مدد اور حمایت سے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کا کارنامہ انجام دیا۔
ہماری دوستیوں اور دشمنیوں میں ہمارے ہاتھ خسارہ ہی آیا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تشکیل اس لیے حقیقت پسندی سے کوسوں دور رہی کہ ہم نے دوسرے ممالک خصوصاً روس کو امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کی نظر سے دیکھا۔ ہماری تاریخ کی یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ روس کی کمیونسٹ پارٹی نے برصغیر کے اندر موجود کمیونسٹ سیاسی قوتوں کو قیام پاکستان کی مخالفت سے منع کیا تھا کیونکہ روس یہ چاہتا تھا کہ برصغیر میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کے لیے ایک سے زیادہ آپشنز موجود ہونے چاہئیں۔ انھیں معلوم تھا کہ طویل نوآبادیاتی دور کے باعث برصغیر کے زیادہ تر سیاست دانوں کا فطری جھکاؤ مغرب کی جانب ہی ہو گا۔
اس وقت ہمارے خطے کے حالات انتہائی تیزی سے بدل رہے ہیں۔ جس افغانستان نے روس اور پاکستان کو دشمنی کی حد تک ایک دوسرے کا مخالف بنا دیا تھا آج وہی افغانستان انھیں قریب لانے کا باعث بن رہا ہے۔ روس کا وہ کردار جو عوام کے مذہبی جذبات کو اُبھار کر حکومتی پالیسی پر اثر انداز ہونے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا آج مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ حسن قرأت کا عالمی مقابلہ جیتنے والے روسی بچے کی سرکاری سطح پر پذیرائی ہوتی ہے۔
روس گو کہ جغرافیائی اعتبار سے یورپ کا حصہ ہے لیکن اس کا معاشی اور اقتصادی مستقبل ایشیاء کے ساتھ منسلک ہے اور اس مستقبل کی چابی پاکستان کے پاس ہے۔ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان اور روس کے درمیان ایسی موافقت پہلے کبھی نہ تھی جیسی اب وجود میں آ چکی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان عملی اقدامات کا آغاز بھی ہو چکا ہے جس میں پاک فوج نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ داخلی سطح پر بھی محسوس ہو رہا ہے کہ موجودہ حکومت نے خارجہ پالیسی میں فوج کو مکمل طور پر نظر انداز کرنے کی ضد چھوڑ دی ہے۔
اگر پاکستان دہشت گردی کے جن پر قابو پانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو ہمارے لیے ایک بہترین عالمی توازن حاصل کرنے کا موقع پیدا ہو گیا ہے۔ لیکن یہاں پر سب سے اہم بات یہ ہے کہ روس کے ساتھ تعلقات کی بہتری کو ہرگز کسی دوسرے ملک سے محاذ آرائی کا وسیلہ نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ یہ خیال بھی درست نہیں کہ ہم یہ سمجھنے لگیں کہ روس کو عملی سطح پر بھارت کے خلاف استعمال کرنے کی سبیل پیدا ہو جائے گی۔
ہمارے لیے یہی بڑی کامیابی ہو گی اگر ہم روس کو کشمیر اور دوسرے تنازعات پر حقیقت پسندانہ مؤقف اختیار کرنے پر قائل کر لیں۔ چین، روس اور وسط ایشیا کی پاکستان کے راستے تجارت اسی صورت میں پاکستان کو فائدہ پہنچا سکتی ہے جب اس مغربی اثر و رسوخ کو محدود کر دیا جائے جس نے ہمیں داخلی سطح پر تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ ایک خود مختار ملک کی حیثیت سے ہمارا یہ حق ہے کہ ہم اپنی ترجیحات کو تبدیل کر لیں لیکن ان کا محرک خالصتاً ہماری اقتصادی اور معاشی ترقی ہونا چاہیے۔ نئی سرد جنگ میں ایجنٹ کا کردار ہمیں کسی صورت قبول نہیں کرنا چاہیے۔