اونچی دکان پھیکے پکوان

کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے ایک بڑے تعلیمی ادارے کے تحت چلنے والے ایک بڑے اسکول میں وقت گزارنے کا موقع ملا


Shehla Aijaz December 01, 2014
[email protected]

یہ دنیا ایک عجیب داستان سمیٹے رہتی ہے جس کی پرتیں وقت کے ساتھ ساتھ کھلتی جاتی ہیں 9/11 کے واقعے نے مسلم دنیا کو اس حد تک شرمندہ کیا کہ بس یہی دیر تھی کہ ایک کم ہمت مسلمان کو اپنے مسلمان ہونے پر دکھ ہوتا لیکن چاہے کوئی توڑنے کی سازشیں کرے، کان بھرے، لیکن ہوتا وہی ہے جو ذات باری چاہتی ہے۔

لہٰذا وقت کے ساتھ ساتھ پرتیں اترتی گئیں اور شعور والوں نے واضح کردیا کہ کہانی داستان گوئی اور منظر کشی کیا کیا حقیقتیں لیے پھرتی ہے۔ اب بھی اس کی حقیقت سے ایک دنیا ناواقف ہے کہ اس کی تہہ میں جانے کے لیے بڑے بڑے کرداروں کے ادھر ادھر کون نئی کتب کھنگالے اور حقائق جاننے کی تشہیر کی بھی اپنی اپنی اہمیت ہے بہرحال اس پوری کہانی نے ہمارے تعلیمی نظام کو بہت متاثر کیا ہے۔

تعلیم اور تحقیق کی اسلام میں کس قدر اہمیت ہے کہ قرآن خود اس بات کا ثبوت ہے کہ جس میں اہل زمین کے لیے تحقیقات کی ہدایت ہے ۔زمین سے لے کر آسمان، سمندر اور جنگلات، بارش اور چاند ستارے کیا کچھ اس تحقیق کے معاملے میں نہیں ہے، یہ تحقیق ہی تو ہے جو جستجو کے مراحل سے گزر کر ایسے اسرار و رموز کو عیاں کرتی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

ایک انسانی دل کو پہنچنے والی خون کی رگوں کے جال کو دیکھ کر سمجھ نہیں آتا کہ اتنی نازک مہین بال جیسی نسوں سے بڑی اور پھر پورے جسم میں اس گوشت کے چھوٹے سے لوتھڑے جسے دل کہتے ہیں کیسے خون ایک بہترین پمپ کا کام انجام دیتا ہے یہی تو ہے جو ہماری مرضی سے نہیں بلکہ ایک ایسی ذات کی مرضی سے دھڑکتا ہے جس کی ذات باری کا شعور اس کے فضل سے ہمیں تو ہے لیکن بہت سے انسان مانتے نہیں یہ خودبخود ہوجانے والے ہمارے اردگرد کیسے کارخانہ کائنات ہیں آخر کہ جن کی مشنری انسان کے لاکھ چاہے جانے کے باوجود بھی نہیں رکتی، بات کہاں سے کہاں جا نکلی۔ ہم بات کر رہے تھے اپنے تعلیمی نظام کی کہ جس کی ایک بار پھر کل کو درست کیا جانے پر جتا گیا ہے، پر یہ تو اونٹ کی کل کی طرح ہوگئی ہے نجانے کون سی سیدھی ہے، پہلے یا ابھی۔

کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے ایک بڑے تعلیمی ادارے کے تحت چلنے والے ایک بڑے اسکول میں وقت گزارنے کا موقع ملا، سوچا تھا کہ رزق حلال کے لیے بہتر مواقعے میسر ملیں گے، لیکن سوچ اور فکر کے برعکس پایا۔ کئی عام تعلیمی ادارے جہاں اساتذہ کی محنت سخت اور تنخواہ کم کے مقابلے میں یہاں محنت تو تھی لیکن تنخواہ پھر بھی خاصی بہتر تھی دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں بھی سندھ اور پنجاب کے درمیان واضح فرق نظر آیا۔ یعنی پنجاب میں تنخواہوں کا بلند اسکیل جب کہ سندھ میں اسی اسکیل پر کم تنخواہیں ہیں۔ سرکاری حوالے تک تو چلیے سرکار کی مرضی لیکن نجی اداروں میں بھی یہ واضح فرق نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ خدا جانے۔

تعلیمی ادارے ہماری قوم کے بچوں کے اخلاق کی تربیت کا اہم ادارے ہوتے ہیں کسی بھی اسکول کے بچوں کو دیکھ کر آپ ان کے اساتذہ کا اندازہ لگا سکتے ہیں بالکل ایسے ''جیسی ماں ویسی بیٹی'' لیکن افسوس کے ساتھ ہمارے یہاں اخلاق کو کسی کونے میں رکھ کر بچوں کو انگریزی سکھانے پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے یہ درست ہے کہ اس دور میں جب کہ انگریزی زبان میں تحقیق کے بہت سے کام بھی ہو رہے ہیں اس زبان کو سیکھنا اور عبور حاصل کرنا بھی ضروری ہے لیکن اگر ہم اپنے بچوں کے ذہنوں پر کچھ اس انداز سے اثر ڈالیں کہ اردو میں بات کرنا اچھی بات نہیں احساس کمتری کے جذبے کو اجاگر کرکے انگریزی زبان کے بوجھ تلے دبا دیا جائے کچھ مناسب نہیں۔

مجھے اس بدلتے رخ کی سرد آگ کی شدت کا احساس اس وقت ہوا جب ایک معصوم سات آٹھ سالہ بچے نے مجھ سے اپنے دوسرے ساتھی کی شکایت کچھ اس انداز سے انگریزی زبان میں کی ''مس! یہ اردو میں بات کرتا ہے۔'' اس کے چہرے پر اتنی ناگواری اور حقارت تھی کہ میں دنگ رہ گئی۔ میں نے ذرا پیار سے سمجھایا تو ایک بار پھر اس نے اسی انداز میں الٹا مجھے باور کرانے کی کوششیں کیں ''نو مس! اردو اچھی نہیں ہے۔'' میں نے اپنے تئیں ایک بار پھر اسے احساس دلانا چاہا کہ انگریزی بولنا اچھی بات ہے لیکن اردو بولنا بھی اچھا ہے۔ جواباً اس کا وہی تحقیر آمیز انداز۔ حالانکہ وہ بچہ بہت پیارا خاصا مہذب تھا لیکن اس پورے دن اس کا یہ انداز صرف اردو زبان کے لیے ہی نظر آیا۔

صرف یہی نہیں ہمیں کہا گیا تھا کہ بچے بہت نازک اور حساس ہوتے ہیں لہٰذا انھیں ڈانٹا اور مارا نہیں جاتا بلکہ پیار سے سمجھایا جاتا ہے لیکن اس خاص لیکن بے مہمل اصول کے پیچھے بے ربطگی، بداخلاقی اور بد زبانی نظر آئی۔ اشفاق احمد کی باتیں اس اسکول کو دیکھنے کے بعد بار بار ذہن میں گردش کرتی رہیں کہ پیار کے ساتھ ذرا سرزنش بھی ضروری ہوتی ہے کہ انسان انسان ہے۔ موم کی ناک نہیں کہ پیار سے کسی نے جہاں موڑا مڑ گئے۔ دو بچیاں آپس میں لڑنے لگیں اخلاقاً ہم نے انھیں چھڑوانے کی کوشش کی لیکن توبہ جناب! سات آٹھ سال کی وہ بچیاں اتنی خود سر کہ ہاتھ چھڑا کر الگ کرنے کے باوجود فوری طور پر پھر سے جنگ کی خواہش میں ایک دوسرے سے دو دو ہاتھ کرنے آگے بڑھیں۔

یہ تربیت کا نیا رخ مجھ کم فہم کی سمجھ میں تو نہ آیا، محسوس یہ ہوا کہ مہنگی مہنگی کتابوں اور ورک بکس کا پیٹ بھرنے کے لیے والدین کو متاثر کرنا بھی ضروری ہے۔ آخر ان مہنگی کتابوں کا مصرف بھی تو نظر آئے، دن بھر میوزک کی یلغار سنائی دیتی رہی کہ راقم کو ہوائی آلودگی کی شدت کا بھی احساس ہوا، مستقل یا وقفے وقفے سے بجتا میوزک بچوں کے نازک ذہنوں میں شدت پسندی، جھنجھلاہٹ، ہلچل، اضطرابی کیفیات تو پیدا کرسکتا ہے پر سکون، امن، دوستانہ انداز و جذبات نہیں۔

نئی سائنسی تحقیقات اس بات کا مظہر ہے کہ شورکی بلند فریکوئنسی ایک انسانی دماغ پر کتنے بدترین اثرات مرتب کرتی ہے، مجھے یاد ہے کہ میں نے کچھ سال پیشتر ڈاکٹر کیپٹن محمد صعید کا انٹرویو کیا تھا جنھوں نے تقسیم ہند سے پہلے انگریزی دور اعلیٰ انگریزی تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کی تھی وہ اپنے تعلیمی دور کی باتیں اتنی دلچسپی سے کر رہے تھے کہ جیسے آج بھی وہ اسے بہت مس کر رہے ہوں، لیکن میں نے ان سے اس قسم کی کوئی بھی بات نہ سنی تھی۔ ترقی کرنا بہت اچھا ہے۔

ضروری ہے کہ ترقی کے لیے ہم دنیا کے ساتھ قدم ملاکر چلیں، اگر اسی طرح کے تعلیمی ادارے جو بچوں کے اخلاق اور کردار کے بجائے ان کے والدین کو محض انگریزی سناکر متاثر کرے ترقی نہیں۔ کم علمی ہے ۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ ہم اپنے بزرگوں سے ان کے دور کے انگریزی تعلیمی اداروں کے بارے میں معلومات اکٹھا کرکے اسی خطوط پر کام کرنا شروع کریں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم شدت پسند، بداخلاق قوم کی فصل اگانے کی تیاری کر رہے ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں