بلوچستان کے تعلیمی ادارے اور بھگوڑے دہشت گرد
پورے بلوچستان میں، دہشت گردوں کے خوف اور دباؤ کے تحت، تیرہ لاکھ بچے اسکول جانے سے قاصر ہیں۔
ضربِ عضب آپریشن کی سخت اور ناقابلِ برداشت تپش سے مجبور ہوکر شمالی وزیرستان کے کئی دہشت گرد بھگوڑوں نے بلوچستان کا رخ کر لیا ہے اور وہاں بھی وہی ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دیے ہیں جو فاٹا خصوصاً شمالی وزیرستان میں ان کا وتیرہ بن چکا تھا۔
مثال کے طور پر بچوں اور بچیوں کے اسکولوں کو بموں سے اڑانا، اساتذہ خصوصاً خواتین اساتذہ کرام کو قدم قدم پر ہراساں کرنا ۔ ان بھگوڑوں نے بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں، جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ہاتھ کم کم پہنچتا ہے، تعلیمی اداروں میں خوف کی فضا قائم کر دی ہے۔ رواں برس بلوچستان میں نئے اور پرانے دہشت گرد عناصر کی خونریز کارروائیوں کی بدولت تقریباً ایک لاکھ بچے اور بچیاں اسکول نہیں جا سکے ہیں۔
یہ قومی المیہ ہے۔ باخبر اور معتمد ذرایع کا کہنا ہے کہ پورے بلوچستان میں، دہشت گردوں کے خوف اور دباؤ کے تحت، تیرہ لاکھ بچے اسکول جانے سے قاصر ہیں۔ یہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے کہ بلوچ بچوں کو تعلیم سے محروم رکھنا دراصل غیر ملکی فنڈز پر پلنے والے دہشت گردوں کی ایک نئی چال بھی ہو سکتی ہے۔ طلباء اور طالبات کو دہشت گردوں کے خوف سے فوری طور پر نجات دلانا وفاقی اور صوبائی حکومت، دونوں کی ذمے داری ہے۔ افسوس یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے جس انداز میں بلوچستان کے مسائل و مصائب سے اغماض برتا، اسی طرح موجودہ حکومت بھی اس کے نقشِ پا پر چل رہی ہے۔ یہ رویہ ناقابلِ رشک ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان میں بھارت اپنا گھناؤنا کھیل کھیل رہا ہے۔ پاکستان کے سیکیورٹی ادارے بلوچستان میں بھارتی ہتھکنڈوں کو نتھ ڈالنے کی مقدور بھر کوشش تو کر رہے ہیں لیکن بعض غلطیاں ہمارے سیاسی حکمرانوں سے بھی سر زد ہو رہی ہیں۔ یعنی بلوچ عوام کے جینوئن مسائل کو مسلسل نظر انداز کرنا۔ مثال کے طور پر بلوچستان میں ''ایچ ای سی'' کا نہ ہونا۔ ایچ ای سی یعنی ہائر ایجوکیشن کمیشن، جسے برسہا برس تک ''یونیورسٹی گرانٹس کمیشن'' کہا جاتا رہا ہے، 2002ء سے پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی خدمات کے فرائض انجام دے رہا ہے۔
ہزاروں طلباء و طالبات ہر سال بلوچستان کے کالجوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ ہو رہے ہیں۔ اگر کسی طالب علم کو ملازمت کے لیے اپلائی کرنا ہو یا اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونِ ملک جانا ہوتو ایچ ای سی ہی وہ ادارہ ہے جو ڈگریوں کی تصدیق کر سکتا ہے۔ لیکن اس حوالے سے بلوچستان کو مکمل طور پر گزشتہ بارہ برس سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ فارغ التحصیل طلباء میں حکمرانوں کے خلاف اشتعال پھیلنا اور ان کا مرکز سے ناراض ہونا فطری عمل ہے کیونکہ سارے بلوچستان میں ایچ ای سی کا کوئی وجود ہی نہیں۔ اسلام آباد ہی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
یہ عمل بیوروکریسی اور مقتدر سیاستدانوں کا ملک کی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کے مترادف کہا جائے گا۔ اپنی نااہلیوں اور غفلتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے کیا اسے بھی بلوچستان کے خلاف بھارت کی سازش قرار دے دیا جائے گا؟ اگر کسی بلوچ طالب علم کو اپنی ڈگری کی تصدیق کروانی ہے تو سڑک کے راستے اسلام آباد پہنچنے کے لیے اسے تیس یا چالیس گھنٹے لگتے ہیں۔ اسلام آباد میں نجانے اسے کتنے دن لگیں گے کہ ڈگری کی تصدیق کرنے کے لیے بیوروکریسی کے اپنے نخرے ہیں۔
چنانچہ بلوچ طالب علم، جن کی اکثریت نہایت غریب ہے، کو محض اس معمولی کام کے لیے ہزاروں روپے خرچ کرنا پڑ رہے ہیں: آنے جانے کا مہنگا کرایہ+ اسلام آباد میں رہائشگاہ کے اخراجات+ روٹی پانی، چنانچہ لازم ہے کہ بلوچ طلباء و طالبات کو اس عذاب سے نجات دلانے کے لیے فوری طور پر کوئٹہ یا بلوچستان میں کسی دوسرے مقام پر ایچ ای سی کے دفاتر کھولے جائیں، بصورتِ دیگر مایوسی اور ڈپریشن کا شکار بلوچ طلباء و طالبات کا انتہا پسندوں کے ہاتھوں چلے جانا کوئی ناممکن عمل نہیں ہے۔ جن لوگوں کو یقین نہیں، وہ ذرا ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی کہانی پڑھ لیں۔
لیکن اس وقت بڑا سوال یہ درپیش ہے کہ شمالی وزیرستان میں ضربِ عضب آپریشن سے شکست کھا کر دہشت گردوں کے جو گروہ بلوچستان کے پہاڑوں میں پناہ لے رہے ہیں، انھیں ریاست اور عوام مخالف وارداتوں سے کیسے روکا جائے؟ اس سوال کا جواب عوام کو فوری بھی چاہیے اور یہ جو اب اطمینان بخش بھی ہونا چاہیے۔ اس میں بلوچستان کی حکومت کو بنیادی اور مرکزی کردار ادا کرنا ہوگا لیکن حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے اقدامات اور فیصلے خاصے سست روی اور کاہلی کا شکار ہیں۔
اگر یہ سلسلہ اور وتیرہ یونہی جاری رہا توخدانخواستہ بلوچستان کے بعض علاقے ''دوسرا شمالی وزیرستان'' بن سکتے ہیں۔ (اس حقیقت سے مگر انکار ممکن نہیں کہ بلوچستان کے وزیر داخلہ جناب سرفراز بگٹی نے کئی دہشت گردوں کو گرفتار بھی کیا ہے اور ملک دشمن عناصر سے کئی بار بھاری مقدار میں اسلحہ بھی پکڑا ہے۔) ہماری سیکیورٹی فورسز تو پہلے بھی دہشت گردوں کا ٹیٹوا دبانے کے لیے اپنے فرائض ادا کر رہی ہیں اور اپنا خون وطن کی حفاظت کے لیے بے دریغ بہا رہی ہیں لیکن اب انھیں مزید احتیاط بھی کرنا ہو گی اور الرٹ بھی رہنا ہو گا کہ شمالی وزیرستان کے دہشت گرد بھگوڑے زخمی سانپ کی طرح ہیں۔ وہ اپنا بدلہ لینے کے لیے بے قرار ہیں، اگرچہ ابھی ان کا بس چل رہا ہے نہ ان کی توانائیاں پھر سے بحال ہو رہی ہیں۔
قوت پکڑنے سے قبل ہی ان کا کام تمام کرنا ہو گا۔ انھیں ڈھیل دے کر ہم پہلے ہی بہت نقصان اٹھا چکے ہیں۔ جانی بھی، مالی بھی اور قومی بھی۔ ستمبر 2014ء کے دوران شمالی وزیرستان میں ملٹری آپریشن کے حوالے سے پشاور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل خالد ربانی نے کہا تھا کہ ان دہشت گردوں کا جنوبی پنجاب اور بلوچستان تک تعاقب کیا جائے گا۔ جنوبی پنجاب میں بعض دہشت گرد گروہوں نے مبینہ طور پر اپنی خفیہ پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں لیکن کچھ سیاسی فیصلے اس علاقے میں آپریشن کرنے میں تاخیر کا سبب بن رہے ہیں (چند ہفتے قبل جاتی عمرہ، جہاں وزیر اعظم اور ان کے خاندان کی ذاتی رہائش گاہیں موجود ہیں، کے آس پاس بسنے والی ایک بستی میں گرفتار ہونے والے زیادہ تر دہشت گردوں کا تعلق جنوبی پنجاب کے بعض علاقوں سے تھا۔)
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے بعض سابقہ حکمرانوں نے ''مجاہدین'' کی سرگرمیوں اور ٹھکانوں پر کڑی نظریں نہ رکھیں۔ انھیں ڈھیل پر ڈھیل دی جاتی رہی اور ان گروہوں کے حوصلے اور ملک دشمن کارروائیوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ پھر اس کے بھیانک نتائج نکلے اور اب تک نکل رہے ہیں۔ یہ ایک انتہائی تلخ تجربہ ہے۔ اسے دہرایا نہیں جانا چاہیے۔ فتنے کو سر اٹھانے سے قبل ہی کچل دینا ہو گا، وگرنہ ہم کچلے جائیں گے کہ دہشت گردی کے اس فتنے کے ہاتھوں پہلے ہی ساٹھ ہزار کی تعداد میں ہمارے معصوم اور بے گناہ شہری موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں۔ مکرر عرض ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو بلوچستان کے متنوع اور متعدد گھمبیر مسائل کے حل کے لیے پوری توجہ کے ساتھ جلد ہی مثبت قدم اٹھانے ہوں گے۔