یوم تاسیس کی تقریب پنجاب میں پیپلز پارٹی کے ورکر متحرک

لاول بھٹو کو سکیورٹی خدشات اور بعض دیگر وجوہات کی وجہ سے لاہور آنے سے روک دیا گیا


Khalid Qayyum December 03, 2014
لاول بھٹو کو سکیورٹی خدشات اور بعض دیگر وجوہات کی وجہ سے لاہور آنے سے روک دیا گیا۔ فوٹو: فائل

پنجاب میں پیپلزپارٹی کی سیاسی پوزیشن کئی برسوں سے تنزل کا شکار چلی آرہی ہے۔ 2013ء کے الیکشن میں یہ تنزل اپنی انتہاء تک پہنچ گیا۔

پیپلزپارٹی کی مخالف قوتیں تو اس حد تک بھی کہتی ہیں کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کا دور ہمیشہ کیلئے ختم ہو چکا لیکن پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت اس کے برعکس سوچ رکھتی ہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت یہ سوچ رکھتی ہے کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کی سیاسی تنہائی عارضی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ نہیں کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک ختم ہوگیا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ 2013ء کے الیکشن میں پارٹی نے دہشت گردی کے باعث اپنی انتخابی مہم کو لو پروفائل رکھا۔

طالبان نے الیکشن میں پیپلزپارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم کو ٹارگٹ کرنے کا اعلان کر رکھا تھا جبکہ دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کو اپنی انتخابی مہم کھل کر چلانے کی اجازت دی گئی تھی۔ جیسے جیسے یہ خطرات کم ہورہے ہیں پیپلز پارٹی پنجاب میں متحرک ہوتی نظر آرہی ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری تین دفعہ لاہور آچکے ہیں۔ بلاول بھٹو بھی سیلاب کے دوران لاہور آئے وہ سیلاب زدہ علاقوں چنیوٹ اور ملتان بھی گئے۔ اس برس پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کی مرکزی تقریب بھی لاہور میں منعقد کی گئی ہے۔ اس سے واضح ہوگیا ہے کہ پارٹی قیادت پنجاب کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔

اس تقریب میں پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے شریک ہونا تھا لیکن عین وقت پر یہ پلان تبدیل کیا گیا اور آصف زرداری تقریب میں شرکت کیلئے لاہور تشریف لائے۔ بلاول بھٹو کو سکیورٹی خدشات اور بعض دیگر وجوہات کی وجہ سے لاہور آنے سے روک دیا گیا۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے یوم تاسیس پر لاہور نہ آنے سے کارکنوں میں مایوسی تھی آصف زرداری نے اس مایوسی کو سنبھال لیا۔ بلاول ہاؤس لاہور میں منعقد ہونے والی تقریب میں چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے لوگ پہنچے۔ یوں پارٹی کے یوم تاسیس پر ساری پیپلزپارٹی لاہور میں موجود تھی۔

اس تقریب میں پارٹی کا کلچر بھرپور طریقے سے نظر آیا۔ اندرونی دھڑے بندیاں بھی ایک بار پھر کھل کر سامنے آئیں اور آصف علی زرداری کے سامنے گو نواز گو کے نعرے بھی لگے۔ اس پر آصف زرداری نے کہا کہ یہ باتیں میرے کانوں کو بھی اچھی لگتی ہیں آپ جو مرضی نعرہ لگائیں میں نے کسی کو نہیں روکا۔ پارٹی میں دھڑے بندیوں کا کلچر نیا نہیں پرانا چلا آرہا ہے لہٰذا یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اصل معاملہ پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کے خلاف سٹینڈ لینے کا ہے۔ پیپلزپارٹی کا جیالا ابھی تک مسلم لیگ(ن) کے ساتھ چلنے کیلئے آمادہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ مسلم لیگ(ن) کے ساتھ اتحاد کا حامی نظر آتا ہے۔

آصف علی زرداری نے اپنی تقریر میں عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ اگر ہم احتجاج میں شامل ہوچکے ہوتے تو میرے عزیز ہم وطنو ہوچکا ہوتا اور ہم نوازشریف کو میرے عزیز ہم وطنو سے بہتر سمجھتے ہیں۔ آصف علی زرداری کا سیاسی ویژن بڑی حد تک درست نظر آتا ہے، انہیں بہت سی اندرونی کہانیوں کا علم ہے اور بعض مصلحتوں کے تحت وہ برملا کہنا بھی نہیں چاہتے۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں پیپلزپارٹی کی سوچ میاں نواز شریف کو بچانا نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی حامی قوتوں کو شکست دینا ہے۔

آصف زرداری کو اس سوچ کو آگے بڑھانے کیلئے پارٹی کے اندر خاصے دباؤ کا سامنا ہے۔ پارٹی کا جیالا آج بھی 70ء اور 80ء کی دہائی میں رہ رہا ہے۔ اس وقت نواز شریف اور مسلم لیگ(ن) اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کی نمائندگی کرتے تھے آج صورتحال بدل گئی ہے اسٹیبلشمنٹ اور ان کے دیرینہ اتحادی نوازشریف کا اتحاد ٹوٹ چکا ہے۔

اب جہاں پیپلزپارٹی کو پنجاب میں یہ طعنہ سننا پڑرہا ہے کہ وہ مسلم لیگ(ن) کی بی ٹیم بن گئی ہے تو دوسری طرف میاں نواز شریف کو بھی سندھ میں اپنے اتحادیوں کو تنہا چھوڑ دینے کا طعنہ مل رہا ہے۔ حالات کے جبر نے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑا ہونے پر مجبور کردیا ہے ورنہ آصف زرداری کے دل میں میاں صاحبان کیلئے کوئی سیاسی ہمدردی ہے اور نہ ہی وہ چاہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کا پنجاب میں کم بیک ہو۔ اگر حالات ساز گار ہوئے تو پیپلزپارٹی لاہور میں کراچی کی طرح بڑا جلسہ بھی کرسکتی ہے۔ جس میں پورے ملک کی تنظیموں کو شرکت کیلئے متحرک کیا جاسکتا ہے۔

یہ بھی حالات کا جبر ہی ہوگا کہ اگر پیپلزپارٹی نے لاہور میں بڑا جلسہ کرنے کا فیصلہ کیا تو ن لیگ کی حکومت اسے روک نہیں سکے گی۔ موجودہ سیاسی بحران میں نوازشریف حکومت کو بچانے میں بھی پیپلزپارٹی نے اہم رول ادا کیا اور عمران خان کی تحریک کا دم خم بڑھنے کی بجائے بتدریج کم ہوتا نظر آرہا ہے۔ حالیہ دنوں سے ن لیگ کی میڈیا پالیسی کافی حد تک کامیاب رہی اور تحریک انصاف کوبیک فٹ پر کھیلنے پر مجبور کیا۔ حالات جس نہج پر جارہے ہیں اب عمران خان کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوگی کہ وہ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر واپسی کا کوئی آبرومندانہ حل تلاش کریں۔

یوم تاسیس میں اقلیتوں کی نمائندگی کو خصوصی اہمیت دی گئی۔ آل پاکستان مینارٹیز الائنس کے چیئرمین ڈاکٹر پال بھٹی کو کنونشن میں تقریر کا موقع دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو نے آل پاکستان مینارٹی الائنس کو پیپلزپارٹی کے ونگ کا درجہ دے رکھا تھا اور ان کے اس فیصلے کی یوم تاسیس پر ایک بار پھر تجدید کی گئی۔ مینارٹیز الائنس پاکستان میں اقلیتوں کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت ہے۔ پیپلزپارٹی کے یوم تاسیس میں ڈاکٹر پال بھٹی کی قیادت میں آل پاکستان مینارٹیز الائنس کے سینکڑوں کارکنوں نے شرکت کی۔

اس موقع پر ڈاکٹر پال بھٹی نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی پاکستان کی سالمیت کی ضامن ہے۔ پیپلزپارٹی نے اپنے دور میں اقلیتوں کو عزت بخشی اور انہیں حقوق دیئے۔ پیپلزپارٹی نے ایوان بالا سینیٹ میں اقلیتوں کو نمائندگی دے کر تاریخ رقم کی اور سرکاری ملازمتوں میں اقلیتوں کیلئے 5 فیصد کوٹہ مختص کیا۔ وزارت اقلیتی امور ختم ہوگئی تو سابق صدر آصف زرداری نے ہماری گزارش پر اقلیتوں کو وزارت بین المذاہب ہم آہنگی کا تحفہ دیا۔

افسوس ہے کہ موجودہ حکومت نے وزارت بین المذاہب ہم آہنگی کو وزارت مذہبی امور میں ضم کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم یقین دلاتے ہیں کہ آل پاکستان مینارٹیز الائنس پیپلزپارٹی کے ساتھ جمہوری جدوجہد میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی۔ یوم تاسیس پر پیپلزیوتھ پنجاب کے صدر رانا فرخ محمود کی قیادت میں پہلی بار یوتھ بھی متحرک نظر آئی ۔ ندیم افضل چن کو شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا ایڈوائزر برائے پولیٹیکل اور یوتھ آفیئرز بنایا گیا ہے اس فیصلے کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں