الزامات در الزامات
وطن عزیز میں ایسے شفاف و منصفانہ انتخابات کا خواب آج تک شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا کہ جس پر دھاندلی کا کوئی داغ نہ لگا ہو۔
لاہور:
کہا جا رہا تھا کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اپنی 28 نومبر کی پریس کانفرنس میں دھماکا خیز انکشافات کریں گے لیکن ان کی پریس کانفرنس میں 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے مبینہ الزامات کی وہی روداد بیان کی گئی جو وہ گزشتہ تین ماہ سے جلسوں اور دھرنوں میں کی جانے والی اپنی تقریروں میں بار بار دہرا رہے ہیں۔
عمران خان نے ڈی چوک کے دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو جتوانے کے لیے نجی پرنٹنگ پریس میں 55 لاکھ اضافی بیلٹ پیپر چھپوائے گئے، سابق چیف جسٹس آف پاکستان، نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن پر الزام عائد کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ تینوں نے مل کر دھاندلی کرائی۔ خان صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ دھاندلی پولنگ والے دن نہیں بلکہ پولنگ سے پہلے ہوئی جس کے ثبوت وہ جوڈیشل کمیشن میں پیش کریں گے لہٰذا دھاندلی کی شفاف تحقیقات ہونی چاہیے اور عوام کا مینڈیٹ چوری کرنے والوں پر آرٹیکل چھ لگایا جانا چاہیے۔
جوابی پریس کانفرنس میں حکومتی وزرا نے خان صاحب کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پریس کانفرنس کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مترادف تھی، اضافی بیلٹ پیپر تو ہر الیکشن میں چھپتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے ترجمان نے بھی عمران خان کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2013ء کے عام انتخابات میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لیے کل17 کروڑ 30 لاکھ بیلٹ پیپر چھاپے گئے جب کہ ووٹرز کی تعداد 8 کروڑ 61 لاکھ تھی اور ہنگامی صورت حال کے لیے صرف 8 لاکھ اضافی بیلٹ پیپر چھاپے گئے جو ملک کی تمام صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلیوں کے لیے تھے۔ ترجمان الیکشن کمیشن کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی مخصوص حلقے کے لیے اضافی بیلٹ پیپر نہیں چھاپے گئے اور نہ ہی نجی پرنٹنگ پریس سے کوئی پیپر چھپوائے گئے بلکہ تمام بیلٹ پیپر سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن سے فوج کی نگرانی میں چھپوائے گئے تھے۔
قوم کی یہ بد نصیبی ہے کہ چھ دہائیاں گزرنے کے بعد بھی وطن عزیز میں ایسے شفاف و منصفانہ انتخابات کا خواب آج تک شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا کہ جس پر دھاندلی کا کوئی داغ نہ لگا ہو اور الیکشن میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں نے نتائج کو ''کلین چٹ'' دے دی ہو۔ 2013ء کے انتخابات میں بھی دھاندلی کی اسی روایت کو آگے بڑھایا گیا اور غیر مرئی قوتوں نے حسب منشا اپنا اپنا ''قومی فرض'' پوری دیانت داری سے نبھایا۔
آپ ذرا اندازہ کیجیے کہ ملک کے چاروں صوبوں میں اپنا ووٹ بینک رکھنے والی مقبول سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کو 2013ء کے عام انتخابات میں کس انجینئرڈ طریقے سے اس کے سر پر طالبان کا بھوت بٹھا کر پنجاب جیسے بڑے صوبے سے ''آؤٹ کلاس'' کر دیا گیا۔ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کا ملک گیر احتجاجی ہنگامہ پیپلز پارٹی بھی پی ٹی آئی کے مقابلے میں زیادہ زور و شور سے برپا کر سکتی ہے لیکن پارٹی کے سربراہ سابق صدر آصف علی زرداری نے ملک میں جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچانے کی خاطر دھاندلی اور شکست کا کڑوا گھونٹ صبر کے ساتھ پی لیا۔
عمران خان اس بات سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ 2013ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے حوالے سے نہ صرف پی ٹی آئی بلکہ پی پی پی، اے این پی، (ق) لیگ اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی ان کی ہم آواز ہیں اور ان کے شفاف تحقیقات کرانے کے مطالبے کی حمایت کرتی ہیں اور پوری قوم کی بھی خواہش ہے کہ 2018ء کے انتخابات منصفانہ، شفاف، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ طریقے سے منعقد کیے جائیں لیکن عمران خان 2018ء تک انتظار کے موڈ میں نہیں اور ان کے سونامی کی لہریں تمام بندھنوں کو توڑتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے مرکز اقتدار کی طرف طوفان بن کر بڑھنے کی سرتوڑ کوششیں کر رہی ہیں اور نواز حکومت خاصے دباؤ میں نظر آتی ہے۔ اور حکومت اپنے قدم جمانے کے لیے کوشاں ہے لیکن مناسب ہو گا نواز حکومت جوڈیشل کمیشن کے ذریعے 2013ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی منصفانہ و شفاف تحقیقات کو یقینی بنانے کے لیے جلد ازجلد اقدامات اٹھائے تا کہ دودھ اور پانی کا فرق سب کو پتہ چل جائے۔
انتخابات 2013ء میں مبینہ دھاندلی کے حوالے سے عمران خان کے موقف کی صداقت سے انکار ممکن نہیں لیکن عمران خان دیگر سیاستدانوں بالخصوص میاں نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری پر جس لب و لہجے میں سنگین الزامات عائد کر رہے ہیں اس پر سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ الزامات لگانا نہایت آسان کام ہے لیکن انھیں ثابت کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ آصف علی زرداری ملک کے باوقار منصب صدارت پر فائز رہ چکے ہیں انھوں نے آمریت کا راستہ روکنے اور جمہوریت کے استحکام و تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ان ہی کی سربراہی و رہنمائی میں پیپلز پارٹی کو پانچ سال حکومت کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔
صدر زرداری نے اپنے اختیارات وزیر اعظم کو منتقل کر کے جمہوریت کو استحکام بخشا۔ یہ صدر زرداری ہی تھے جن کی موجودگی میں ملک میں پہلی مرتبہ مقررہ وقت پر انتخابات کا انعقاد اور انتقال اقتدار کے مراحل پرامن طریقے سے طے ہوئے اور وہ خود بھی اپنی پانچ سالہ صدارتی مدت پوری ہونے پر باوقار طریقے سے ایوان صدر سے رخصت ہوئے۔ صدر زرداری کی مذکورہ خدمات کا ملک کی تمام سیاسی قوتیں اعتراف کرتی ہیں اور قومی و عالمی ذرایع ابلاغ میں ان کی خدمات کو آج بھی سراہا جاتا ہے لیکن عمران خان صدر زرداری کی خدمات کو نظرانداز کرتے ہوئے ان کی شخصیت کو داغ دار کرکے اپنا سیاسی قد بڑھانے کی ناکام کوششیں کر رہے ہیں۔
دراصل بعض لوگ ذاتی رنجش و عناد اور دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے بغیر کسی ٹھوس ثبوت، تخلیق اور تصدیق کے محض مفروضوں کو بنیاد بنا کر دوسروں پر کیچڑ اچھالنا اپنی شان سمجھتے ہیں۔ آپ ہاشو گروپ کے چیئرمین صدر الدین ہاشوانی کی حال ہی میں شایع ہونے والی کتاب ''سچ کا سفر'' پڑھ لیجیے جس میں وزیر اعظم نواز شریف اور صدر زرداری کو ہدف تنقید بنایا گیا ہے۔ صدر زرداری کے ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کتاب کے مصنف اور پبلشر کو قانونی نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔
جس میں ان سے کہا گیا ہے کہ وہ 14 دن کے اندر اس کتاب کو دکانوں سے واپس اٹھائیں بصورت دیگر ایک ارب روپیہ ادا کیا جائے اگر ایسا نہ کیا گیا تو عدالت سے رجوع کیا جائے گا سابق صدر نے نوٹس کی تمام رقم کسی خیراتی ادارے کو دینے کا فیصلہ کیا۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ یہ کتاب مصنف کی ذہنی اختراع اور سابق صدر کے خلاف کئی دہائیوں سے جاری کردار کشی کی مہم کا حصہ ہے۔ نوٹس کے مطابق مذکورہ کتاب آصف علی زرداری، پیپلز پارٹی اور کارکنوں کی ساکھ متاثر کرنے کی سازش ہے، آصف علی زرداری آزادی، تحریر و تقریر پر یقین رکھتے ہیں اس کتاب میں بغیر تحقیق اور تصدیق کے بیانات غیر ذمے داری اور درپردہ مقاصد کی نشاندہی کرتے ہیں۔
ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر نے یاد دلایا ہے کہ آصف علی زرداری، پیپلز پارٹی اور اس کے لیڈروں و کارکنوں کو 5 جولائی 1977ء سے انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ آصف علی زرداری پر جھوٹے مقدمات قائم کر کے انھیں غیر انسانی صورت حال میں جیل میں رکھا گیا ان پر تشدد کیا گیا جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں ان کی زبان کاٹنے اور سر پر کاری ضرب لگانے کی کوششیں کی گئیں اور ناکردہ جرائم کا اعتراف کرانے اور پیپلز پارٹی چھوڑنے وجلاوطنی اختیار کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا لیکن وہ ثابت قدم رہے۔ قصہ کوتاہ یہ کہ عمران خان ہوں یا ہاشوانی یا کوئی اور بغیر تحقیق و تصدیق اور ٹھوس ثبوت کے کسی بھی شخص بالخصوص اہم قومی شخصیات کی کردار کشی کرنا الزامات در الزامات لگانا ذہنی پسماندگی کی علامت قرار دیا جا سکتا ہے۔