ہر چند کہیں نہیں ہے مگر ہے
ملک بھر میں کوئی بھی دہشت گردی کے اثرات سے نہ بچ سکا تو ہر زبان پر طالبان القاعدہ تھا۔
حضرت علیؓ کا قول مبارک ہے کہ ''یہ مت دیکھو کون کہہ رہا ہے یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے'' مگر جس معاشرے میں تمام اخلاقی، تہذیبی، مذہبی اور سیاسی اقدار ناپید ہوجائیں وہاں ''کیا کہا'' کے بجائے کس نے کہا کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ ''سائیں'' نے کہا یا کسی قانون شکن خودسر لیڈر (بزعم خود) نے کہا، بیشک کتنے ہی غیر مہذب الفاظ میں کہا عوام ان کے رعب و جلال میں آکر تالیاں بجائے اور ان کے گن گانے لگیں گے، ویسے اس صورتحال کے پس منظر میں اور کئی عوامل بھی کارفرما ہیں، قارئین خود سمجھدار ہیں سمجھ لیں گے ہم کیا بتائیں۔
ہاں اس کے بجائے اگر کسی نے بڑی شائستگی، نرمی اور تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے ملک و قوم سے حقیقی دردمندی کے ساتھ اگر کچھ کہا تو کون اس کو اہمیت دے۔ کیونکہ وہی عوامل جو ہم نے قارئین کی صوابدید پر چھوڑ دیے ہیں وہ یہاں بھی کار فرما ہیں۔آج سے گیارہ بارہ یا شاید دس گیارہ برس قبل طالبان کے خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے خاص کر کراچی میں طالبان کی موجودگی کے بارے میں ذمے داران کو آگاہ کیا گیا تھا تو کہنے والے کو نہ صرف جھٹلایا گیا بلکہ اس کا تمسخر بھی اڑایا گیا (کن الفاظ کا مذاق بنانے والوں اور ذمے داروں نے استعمال کیا اس زمانے کے اخبارات میں محفوظ ہیں) مگر جب کھلے عام قتل و غارت گری، بم دھماکے، خودکش حملے روز کا معمول بن گئے۔ ملک بھر میں کوئی بھی دہشت گردی کے اثرات سے نہ بچ سکا تو ہر زبان پر طالبان القاعدہ تھا۔
بہرحال آگاہ تو اس خطرے سے کردیا گیا تھا مگر کچھ نہ کرنے کے عادی مسلسل ان کی موجودگی سے انکار کرتے رہے تو اب پوچھیے کہ یہ آپریشن کیوں اور کس کے خلاف ہو رہا ہے؟ یہ کیوں لاکھوں افراد خانماں برباد ہوئے ہیں جب وبا خوب پھیل گئی اور نقصان بھی خوب ہوگیا تو تدارک پر توجہ دینا ناگزیر ہوگیا۔
گزشتہ دنوں ایک کالم نگار نے بھی اپنے کالم میں ذکر کیا تھا کہ (افغانستان میں داعش کی موجودگی کے ثبوت ملے ہیں۔ کابل یونیورسٹی میں وال چاکنگ ہوئی اور کثیر تعداد میں طلبا گرفتار بھی ہوئے، اس کے علاوہ پاکستان میں تقریباً 21 افراد زیر نگرانی ہیں جو پاکستان میں اس تنظیم کو منظم کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ کچھ ہفتے قبل ایک اخباری اطلاع میں بتایا گیا تھا کہ ملتان میں نو افراد داعش کے پوسٹر لگانے کے الزام میں پکڑے گئے ہیں۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی بھی پاکستان میں داعش کی موجودگی کی تردید کرچکے ہیں۔
اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جب طالبان کی کراچی میں موجودگی کے خطرے سے آگاہ کیا گیا تھا تو جو مذہبی جماعت اس کے خلاف سب سے زیادہ شور مچا رہی تھی کہ یہ سب لوگوں کو خوفزدہ کرنے اور اپنا رعب جمانے کے لیے کیا جا رہا ہے ذرایع ابلاغ (خصوصاً اخبارات) اس کے گواہ ہیں کہ بعد میں ان ہی کے گھروں سے دہشت گرد برآمد ہوئے۔ ہماری تو صدق دل سے دعا ہے کہ اس بار جس خطرے سے آگاہ کیا جا رہا ہے وہ واقعی غلط ثابت ہو اور خطرے سے آگاہ کرنے والا سچ مچ جھوٹا نکلے تاکہ اس کے دشمنوں اور تنقید کرنے والوں کے دل خوش ہوجائیں۔ مگر پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی (مذہبی) اور ایسے عناصر کی کوئی کمی نہیں جو اس نام نہاد اسلامی خلافت کے قیام کے بہانے اپنی سیاست چمکانے کی ہر ممکن کوشش کرنے سے گریز نہیں کریں گے ۔
مثلاًایک صاحب نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ ''مسائل کا حل جہاد اور قتال فی سبیل اللہ میں ہے'' ہمارا موقف ہے کہ اسلام کے نام پر اسلام کی انتہا پسندانہ تشریح و تفسیر بھی اس دہشت گرد تنظیم کے فروغ (پاکستان میں اپنے پنجے گاڑنے) کا سبب بن سکتی ہے اگرچہ ہمارا علم موصوف کے علم سے زیادہ تو ہرگز نہیں مگر علم کا حصول اگر روشن خیالی اور وسعت نظر پیدا نہ کرے تو وہ جہل سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ غرض یہ کہ ایسے عناصر کی وطن عزیز میں کمی نہیں جو داعش کو یہ باور کراسکتے ہیں کہ پاکستان میں آج کل سیاسی افراتفری اور معاشی بحران ہے اور یہاں نہ حکومت کی کوئی رٹ موجود ہے اور نہ ہی کوئی ادارہ اتنا مضبوط ہے کہ اپنا فرض منصبی بخوبی ادا کر رہا ہو۔ لہٰذا راستے میں کوئی خاص رکاوٹ نہیں۔ چنانچہ سیاسی، معاشی و معاشرتی بے چینی بھی وہ اسباب ہیں جو انتہا پسند تنظیموں کو باآسانی پھلنے پھولنے کے مواقعے فراہم کرسکتے ہیں۔
دوسری جانب ہماری سرحدیں، ہوائی اڈے اور بندرگاہ بھی محفوظ نہیں ازبک لڑکیوں کا اسلام آباد ایئرپورٹ سے باآسانی ملک میں داخل ہونا اور افغان باشندوں کا جعلی دستاویز پر برطانیہ جانا اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ایسے حساس مقامات پر بھی لوگ ہاتھ دکھانے کا موقع جانے نہیں دیتے۔ ایسے میں طالبان کی پاکستان میں معاونت کرنے والے اب داعش کے لیے بھی باآسانی کام کرسکتے ہیں یعنی میر جعفر اور میر صادقوں کی کمی تو نہیں۔ لہٰذا اگر پیشگی احتیاط کرلی جائے تو کوئی حرج بھی نہیں ورنہ یہ وبا کسی صورت قابو میں آنے والی نہیں۔ مگر احتیاطی تدابیر کرے کون؟ ہے کوئی جو اپنا فرض ایمانداری سے ادا کر رہا ہو؟ جب کہ حکومتی اعلیٰ ذمے داران (وزیر اعظم اور وزیر داخلہ) تک داعش کی ملک میں موجودگی سے صاف انکار کر رہے ہیں۔ دوسری جانب ذرایع ابلاغ تواتر سے ایسی خبریں سامنے لا رہے ہیں کہ جن سے اس تنظیم کی موجودگی کا ثبوت ملتا ہے۔
ایک اطلاع کے مطابق داعش کی پاکستان میں موجودگی پر سرکاری سطح پر نہ صرف تشویش پائی جاتی ہے بلکہ اس سلسلے میں خفیہ مراسلہ نگاری کا بھی انکشاف ہوا ہے اطلاع یوں ہے کہ وزارت داخلہ کی جانب سے پنجاب سمیت دوسری صوبائی حکومتوں اور متعلقہ ایجنسیوں کو تحریری طور پر داعش کی ملک میں موجودگی کو ظاہر کیا گیا ہے یعنی عوامی سطح پر ان اطلاعات کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور دوسری جانب سرکاری سطح پر داعش کی موجودگی اور ملک میں اس کے پھیلنے کے اندیشے کے باعث ہدایات بھی جاری کی جا رہی ہیں گویا آنکھیں بند کرلینے سے خطرہ ٹل جائے گا۔ حالانکہ کچھ پیش بندی نہ کرنے سے خطرہ مزید خطرناک ہوسکتا ہے۔
اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ وفاقی دارالحکومت کے آس پاس ہی وال چاکنگ کے علاوہ داعش کے جھنڈے بھی لگائے گئے جن کو اگرچہ فوراً ہٹا دیا گیا مگر اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو یہ تنظیم ملک میں موجود ہے یا پھر دوسرے عناصر داعش کا خوف پیدا کرکے کوئی نئی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ بہرحال یہ تو طے ہے کہ کچھ عناصر اور قوتیں ملک میں موجود ہیں جو داعش کو اندر سے مدد فراہم کرسکتی ہیں یا ان کا حصہ بننے پر باآسانی تیار ہوسکتی ہیں۔
داعش کے ہمدرد اور خود حکومت ان اطلاعات کو دبانے کی کوشش میں شاید اس لیے مصروف ہیں کہ اس خطرے سے سب سے پہلے ملک و قوم کا حقیقی درد رکھنے والے نے آگاہ کیا یعنی حب علی نہیں بلکہ بغض میں ملک کو خطرات کے حوالے کیا جا رہا ہے بلاسوچے سمجھے داعش ملک میں ہے یا نہیں اگر کچھ احتیاطی تدابیر کرلی جائیں تو کوئی برائی بھی نہیں بجائے بعد میں پچھتانے کے کہ اگر یہ وبا پھیل گئی تو نتائج کیا ہوں گے؟ اگر نشاندہی کرنے والے سے اتنا ہی بیر یا اختلاف ہے تو ہم پہلے ہی لکھ چکے ہیں کہ ''یہ مت دیکھو کہ کس نے کہا یہ دیکھو کہ کیا کہا ہے؟'' اسی میں سب کی بھلائی ہے۔