نئی سنگباری
بھارت کی طرف سے اکثر یہ شکایت سننے میں آتی ہے کہ پاکستانی اخبارات،خصوصاً اردو اخبارات بھارت کےخلاف مواد شایع کرتےہیں۔
متحدہ ہندوستان میں ریاست حیدر آباد (دکن) وہ علاقہ ہے جسے کبھی اسلامی تہذیب و ثقافت کا گہوارا کہا جاتا تھا۔ حیدر آباد کے حکمرانوں (نظام) کی سرپرستی میں اردو زبان نے یہاں ترقی کے کئی مدارج طے کیے۔ یہیں عثمانیہ یونیورسٹی قائم کی گئی جہاں کے ''دارالترجمہ'' میں ریاضی، فزکس اور کیمسٹری کی اعلیٰ تعلیم بھی اردو زبان میں دی جاتی تھی۔ پاکستان میں ہمارے جن ریاضی دانوں اور ماہرین کیمیا نے عالمی شہرت حاصل کی، وہ عثمانیہ یونیورسٹی ہی کے فارغ التحصیل تھے۔
مثلا ڈاکٹر رضی الدین صدیقی اور ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی۔ 47ء میں حیدر آباد کے نظام نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ پاکستان سے الحاق کریں گے لیکن بھارت نے راتوں رات یہاں فوجیں اتاریں اور اس مسلم اکثریتی ریاست پر قبضہ کر کے اسے بھارت میں ضم کر دیا۔ یہی ظلم کشمیر کے ساتھ بھی کیا گیا۔ اس ریاست (جہاں کے مسلمانوں کی تعداد مزید کم کرنے کے لیے بھارت نے اسی ریاست کے اندر سے تلنگانہ نام کا 29 واں صوبہ بنایا ہے) کے مرکز سے ایک انگریزی اخبار ''دکن کرونیکل''شایع ہوتا ہے جو روزانہ تیرہ لاکھ کی تعداد میں قارئین تک پہنتا ہے۔
بڑا اخبار ہونے کے ناتے امید کی جا سکتی ہے کہ اس میں مستند اور ثقہ خبریں ہی شایع ہوتی ہوں گی لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ یہ اخبار بھی بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں، پاکستان کی دشمنی میں، کھلونا بن کر رہ گیا ہے۔ وہ آئے روز پاکستان کے خفیہ اداروں کے خلاف بے بنیاد زہر افشانی کرتا رہتا ہے۔ یکم دسمبر 2014ء کو بھارتی سرکاری ٹی وی نے یہ پھلکاری چھوڑ دی کہ پاکستانی پنجاب سے کئی دہشت گرد بھارتی پنجاب میں داخل ہو گئے ہیں۔ نان سینس!
بھارت کی طرف سے اکثر یہ شکایت سننے میں آتی ہے کہ پاکستانی اخبارات، خصوصاً اردو اخبارات بھارت کے خلاف مواد شایع کرتے ہیں جس سے دونوں ہمسایہ ممالک کے باہمی تعلقات کو نقصان پہنچتا ہے اور (دوستی کی خاطر) آگے بڑھے ہوئے ہاتھ اور قدم رک جاتے ہیں۔ یہ شکوہ کرنے والی بھارتی حکومت اپنے گریباں میں جھانکنے کا تکلّف کبھی گوارا نہیں کرتی۔ بھارتی اخبارات و جرائد میں پاکستان اور پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کے حامل نام نہاد تجزئیے اور آرٹیکلز شایع ہونے کا سلسلہ کبھی نہیں رکا۔ مثلاً: بھارت کے ایک تحقیقی جریدے، انڈین ڈیفنس ریویو، کی تازہ اشاعت۔ اس میں ڈاکٹر امرجیت سنگھ کا ایک طویل مضمون شایع ہوا ہے۔
جس کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ پاکستان کو مٹا ڈالنا ہی بھارت کا اولین فریضہ ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر امرجیت سنگھ کا یہ نفرت انگیز مضمون Why the existence of Pakistan is not in India's interest (یعنی پاکستان کا وجود بھارت کے مفاد میں کیوں نہیں ہے) کے عنوان سے شایع ہوا ہے۔ اس آرٹیکل میں پاکستان کا ایک ایسا نقشہ بھی چھاپا گیا ہے جس میں آزاد پنجاب، آزاد سندھ اور آزاد بلوچستان کا منظر کھینچا گیا ہے۔ اسی نقشے میں ڈاکٹر امرجیت سنگھ ''صاحب''نے فاٹا کی ساتوں ایجنسیوں کو افغانستان میں شامل ہوتے ہوئے دکھایا ہے۔
مضمون نگار نے اپنی مسخ شدہ ذہنیت سے پاکستان کے ٹکڑے کرنے کی تجویز دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر بھارت، پاکستان کا وجود ختم کر ڈالے تو نہ صرف ہندوستان کی سرحدیں بھی محفوظ ہو جائیں گی بلکہ افغانستان اور ایران بھی شرارتوں سے محفوظ ہو جائیں گے۔ اس نام نہاد دفاعی تجزیہ نگار نے بھارتی فوج کو مشورہ دیا ہے: ''اب جب کہ بھارت نے افغانستان سے گہرے عسکری تعلقات بھی استوار کر لیے ہیں اور بھارت چند سال قبل ایران کے ساتھ بھی دفاعی معاہدے کے بندھن میں بندھ چکا ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایران اور افغانستان سے مزید اتحاد کر کے آگے بڑھے اور پاکستان کا وجود مٹا ڈالے۔''
ڈاکٹر امرجیت سنگھ کے منہ میں خاک۔ پاکستان کے خلاف ''دکن کرونیکل'' اور ''انڈین ڈیفنس ریویو'' میں شایع ہونے والے ان تازہ مضامین کی موجودگی میں بھارت یہ دعوے کیسے کر سکتا ہے کہ پاکستانی اخبارات بھارت کے خلاف ہمیشہ صف آرا رہتے ہیں؟ ''انڈین ڈیفنس ریویو'' ایسے بھارتی جرائد تو ویسے بھی بھارت سرکار اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی زیرِ نگرانی بروئے کار رہتے ہیں؛ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ ان میں شایع ہونے والا تمام مواد انھی خفیہ اداروں اور بھارت اسٹیبلشمنٹ کے اشارے اور اشیرواد سے چھپتا ہے۔
ان کی موجودگی میں بھارتی دعووں کو کیسے تسلیم کر لیا جائے کہ وہ پاکستان کے ساتھ ایک اچھے ہمسائے کی مانند رہنا چاہتا ہے؟ ابھی چند روز قبل نیپال کے دارالحکومت میں ہونے والی سارک کانفرنس میں بھارتی وزیر اعظم نے چین کو سارک ممالک میں شامل کرنے کی وزیر اعظم پاکستان کی تجویز کو جس حدت سے مسترد کیا ہے، یہ بھی دراصل ایک پیغام ہے کہ بھارت جنوبی ایشیا میں امن کا خواہاں ہے نہ وہ دوستی و تعاون کے دائرے کے پھیلاؤ کا حامی۔
سوال مگر یہ ہے کہ تازہ بھارتی الزامات کے مقاصد کیا ہیں؟ پاکستانی پنجاب کے حوالے سے بھارتی الزام اس لیے بھی ناقابلِ قبول ہے کہ اس طویل سرحد پر بھارت نے بلند اور دوہری خاردار تار بچھا رکھی ہے اور قدم قدم پر مورچے بنائے ہوئے ہیں۔ رات کو اس سرحد پر بھارت کی طرف سے اتنی روشنی کر دی جاتی ہے کہ کسی انسان کا پاکستان کی طرف سے بھارت میں داخلہ یا دراندازی قطعی ممکن نہیں۔ (یہی حال راجھستان بارڈر کا ہے جس کے ساتھ ساتھ بھارت نے لاتعداد زمین دوز بموں کا جال پھیلا رکھا ہے۔)
اس کے باوجود اگر ''دراندازی'' ہوتی ہے تو اس نالائقی اور نااہلی پر بھارتی عسکری اور خفیہ اداروں کو اپنے سر پر دوہتڑ مارنے چاہئیں، نہ کہ پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے۔ پاکستان کا ضربِ عضب آپریشن جس تیزی اور کامیابی کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف آگے بڑھ رہا ہے، بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو زیادہ پریشانیاں لاحق ہو رہی ہیں۔ اگلے ماہ کے آخری ہفتے، 26 جنوری 2015ء، کو امریکی صدر بھارت کے یومِ جمہوریہ میں شریک ہونے کے لیے نئی دہلی آ رہے ہیں۔ اس وقت بھارت میں بہت سی علیحدگی پسند تحریکیں بروئے کار ہیں اور نئی دہلی کے خلاف برسرِپیکار بھی۔
ممکن ہے وہ امریکی صدر کے دورے میں کوئی شرانگیزی کے مرتکب ہو جائیں چنانچہ حفظِ ماتقدم کے طور پر بھارت نے سات ہفتے قبل ہی پاکستان اور پاکستان کے خفیہ اداروں کے خلاف زبان درازی میں دانستہ اضافہ کر دیا ہے۔ چند سال قبل جب امریکی صدر بِل کلنٹن نے بھارت کا دورہ کیا تھا تو انھی دنوں بھارتی علاقے ''چٹی سنگھ پورہ'' میں بھارتی خفیہ اداروں نے سکھوں کا قتلِ عام کر دیا تھا، تب بھی بھارت نے الزامات کی بارش پاکستان کے خلاف برسائی تھی۔ جب اس سلسلے میں حقائق سامنے آئے تو ڈھٹائی سے چپ سادھ لی۔