خودی مرجائے تو صرف زندہ لاش
معاشرہ انسانوں کے رویوں سے مل کر ہی بنتا ہے تو یقینا یہی رویے اور سوچ ہم تمام لوگوں کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
وقت بذات خود ہمارا بہت بڑا استاد ہے۔ اگر ہم اپنی زندگیوں کو بہتر بنانا چاہتے ہیں یا اپنے ماضی سے سیکھتے ہوئے حال اور مستقبل کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں کہ وقت کو اپنا استاد اپنا Teacher بنایا جائے۔ اپنی ذات کے لیے خود آپ کا اپنا فیصلہ ہی آپ کو سکون میں رکھ سکتا ہے۔ کم ازکم اچھا یا برا جو ہم خود اپنے فیصلے سے کرتے ہیں اپنی مرضی سے کرتے ہیں تو ایک سکون ضرور ہوتا ہے اور باقی ہم اپنی قسمت کو کہہ سکتے ہیں۔
بہرحال جناب! جیسے جیسے شعور اور آگاہی انسانوں میں آتی رہتی ہے ویسے ویسے وہ اپنی زندگیوں کو بناتے رہتے ہیں بہتر کرتے رہتے ہیں اور اس تمام طریقہ کار میں ہمارے اپنے اور ہمارے اردگرد کے لوگ بھی اپنا رول نبھاتے ہیں، زندگی سب کی اپنی اپنی سہی لیکن اس پر اثرات تمام تر ہی ہوتے ہیں ہم، ہمارا گھرانہ، ہمارا معاشرہ، ہماری روایات، ہمارا کلچر، ہمارا مذہب اور وہ تمام تر لوگ جو ہم سے وابستہ ہوتے ہیں یا جن سے ہم وابستہ ہوتے ہیں اب ظاہر ہے جب لوگ زندہ ہیں جی رہے ہیں ۔
سانسیں لے رہے ہیں تو پھر ان کو وہ تمام لوازمات بھی چاہیے ہوں گے جوکہ زندہ لوگوں کے لیے ضروری ہیں بنیادی ضرورتیں تو اپنی جگہ اٹل ہیں مگر اس کے ساتھ انسانوں کی تعلیم و تربیت اور ان کے لیے باعزت زندگی کے ہونے میں ریاست کا بھی بہت اہم رول ہوتا ہے۔ ظاہر ہے جنگلوں میں تو ہم رہتے نہیں، اگر ہم مسلمان ہیں تو پیدائشی طور پر ایک بہت ہی عالیشان دین کے ساتھ منسلک ہوتے ہوئے ایک طریقہ کار ہمارے پاس ہوتا ہے۔ جس میں شروع سے لے کر آخر تک زندگی کے تمام پہلوؤں پر ہماری رہنمائی کی گئی ہے۔
مگر ہم کیونکہ ایک معاشرے میں رہتے ہیں اور معاشرہ انسانوں کے رویوں سے مل کر ہی بنتا ہے تو یقینا یہی رویے اور سوچ ہم تمام لوگوں کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ریاست بہت اہم کردار ادا کرتی ہے اس معاشرے کو بنانے کے لیے، رویوں کو بنانے کے لیے اور اگر ہم آج کے دور میں یہ کہیں کہ دنیا سمٹ کر صرف ایک Click پر آگئی ہے، انٹرنیٹ کے ذریعے سے ہم تمام دنیا کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
ایک دوسرے کو سمجھنے کے لیے، ایک دوسرے کے قریب آنا، دوستانہ رویہ اور ایک دوسرے کی بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے اور سب سے زیادہ ضروری ہے بات کرنا۔ کسی بھی مسئلے کا حل یقینا بات کرنے میں ہی پنہاں ہے۔اگر ہم انسانی تاریخ کی شروع کی زندگی بھی دیکھیں تو کمیونیکیشن گیپ جو ہے وہ ہمیں نظر آتا ہے اور آج تک چھوٹے چھوٹے مسئلے بڑے بڑے مسائل بن جاتے ہیں اسی گیپ کی وجہ سے۔
بہرحال بات کیجیے اور مسائل حل کیجیے، لیکن اگر اس کے برعکس ہونے لگے اور بات کرنے والی آوازوں کو روکا جائے یا نہ سنا جائے تو یقینا ایک گھٹن کی فضا قائم ہوگی۔ لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت بھی اسی لیے کرتے ہیں جب ان کو لگتا ہے کہ ان کی بات نہیں سنی جا رہی یا ان کو وہ حقوق میسر نہیں جوکہ انسان ہونے کے ناتے سے ان کو ملنے چاہئیں۔ جیسے جیسے دنیا ترقی اور ماڈرن راستوں کے سفر پر گامزن ہے وہیں ترقی پذیر ممالک بھی ان ہی راستوں پر اپنے آپ کو گامزن کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
ترقی اور کامیابی کے راستے بہت زیادہ جدوجہد والے ہوتے ہیں، تھال میں یا پلیٹ میں رکھ کر ترقی نہیں ملتی، لیکن اگر ریاست میں چند لوگ ترقی یافتہ ہو جائیں اور باقی لوگ بنیادی ضرورتوں تک بھی نہ پہنچیں تو ریاست اور عوام کا بیلنس خراب ہوجاتا ہے۔ اور آہستہ آہستہ یہ توازن حاکم اور محکوم لوگوں کا گروہ پیدا کرتا ہے اور یہ گروہ جب بن جاتے ہیں اور ظالم اور مظلوم کی فضا قائم ہوجاتی ہے تو ساری ترقی اور کامیابی دھری کی دھری رہ جاتی ہے کبھی کبھی بناوٹی خوشیاں آپ کو زیادہ دیر تک خوش نہیں رکھ سکتیں وہ ایک انسان کے لیے ہو یا پھر بہت سارے انسانوں کے لیے ہو۔
فطرت کا وجود ہے اور ہم آپ اس کو کبھی بھی اپنی زندگیوں سے خارج نہیں کرسکتے۔ فطرت ہمیشہ توازن چاہتی ہے رات ہے تو دن ہوگا، دن ہے تو رات ہوگی۔ بالکل اسی طرح خوشی ہے تو غم ہوگا اور غم ہے تو خوشی بھی ہوگی۔ مگر اس فطرتی توازن کے موجود ہونے پر بھی ہم اور آپ غیر فطری انداز پر اپنی زندگیاں گزارنا چاہیں تو وہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی۔ بہت ضروری سمجھنا ہوگا کہ ہم اور آپ فطرت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کس طرح ایک ریاست میں توازن لاسکتے ہیں۔ خلفائے راشدین کی بہترین مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ان کی زندگی گزارنے کے اصول ہمارے سامنے ہیں۔ ہم ان جیسے تو نہیں بن سکتے ہیں کہ ان کی خاک کے برابر بھی طریقہ نہیں ہم میں، لیکن ان کی زندگیوں اور حکمرانی کے اصول اپنا تو سکتے ہیں۔
انسانوں میں جب فطرت مر جائے، خودی مر جائے تو وہ صرف زندہ لاشیں بن جاتی ہیں۔ دو وقت کی روٹی اور ایک سائبان ہی اگر انسانوں کی ضرورت ہوتا تو شاید دنیا جنت بنی ہوتی اور ہر انسان اپنی مستی بھری زندگی گزار رہا ہوتا مگر ایسا نہیں ہے اور کبھی آگے بھی ایسا نہیں ہوسکتا۔ ہم سب لوگوں کو اپنے اپنے مدار میں چلتے ہوئے اپنی فطرت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان اصولوں پر زندگی ڈیزائن کرنی ہوگی جس میں تمام لوگوں کو سر اٹھا کر چلنے کی اجازت ہو، نہ صرف اجازت ہو بلکہ ان کو وہ تمام حقوق بھی حاصل ہوں جوکسی بھی جمہوریت میں ایک معزز انسان کو حاصل ہوتے ہیں۔ جھوٹ وفریب کی زندگی زیادہ دیر تک کامیاب نہیں ہوتی ہے، یہ وہ ہانڈی بن جاتی ہے جو بیچ چوراہے میں جاکر پھوٹتی ہے ہاں ان ہانڈیوں پر نام الگ الگ لگے ہوتے ہیں اور پھر انجام ساری دنیا کے سامنے ہوتا ہے۔
جو سر جھکے ہوتے ہیں وہ اکثر غلامانہ ذہنیت کے ہوتے ہیں، کہیں نہ کہیں صرف ''ہاں'' کہنا ان کی فطرت کا حصہ بنایا جاتا ہے اور پھر ساری عمر ان کے سروں کو اٹھنے نہیں دیا جاتا۔ آہستہ آہستہ ایسا معاشرہ مختلف گمراہ راستوں پر چلنے لگتا ہے جو ان کی فطرت کو تسکین دیتے ہیں اور جو حقوق اور فرائض پوری زندگی پورے کرنے والے ہوتے ہیں یا جن پر زندگی کے کچھ اصول بندھے ہوتے ہیں وہ آہستہ آہستہ چکنا چور ہوتے چلے جاتے ہیں۔
بڑا ہی خوف ناک معاشرہ وجود میں آتا چلا جاتا ہے جس میں ذلت اور خواری اور رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ بے ہنگم، جذبات سے عاری انسانوں کا معاشرہ جس میں ہر طرف انارکی ہو، تکلیفیں ہوں، بے عزتی اور ذلت ہو، چوری، ڈاکہ، فریب، لوٹ مار، حرام کاری اور وہ سب بدمعاشیاں اس معاشرے میں داخل ہوتی چلی جاتی ہیں جو اس معاشرے کی جڑوں تک کو ہلا دیتی ہیں۔
غلامانہ ذہنیت اور فرعونیت بھرے رویے ہمارے معاشرے میں گھن کی طرح پنپ رہے ہیں، نفرتیں، حقارتیں اور اسی طرح کے رویے سادہ اور غریب عوام سے ان کے جینے کا حق چھیننے کے در پر ہیں۔ ہم ایک بہادر قوم ہیں اور اس رسول پاک کے امتی ہیں جنھوں نے ایک مکمل ضابطہ حیات ہمیں دیا نہ صرف دیا بلکہ پریکٹیکل کرکے بھی دکھایا اور ان کے بعد خلفا راشدین کا کردار بھی ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ کتنی شاندار بات ہے یہ کہ ہم اپنا ضابطہ حیات لے کر اس دنیا میں آتے ہیں صرف اس پر عمل کرنا اور یہی رہنمائی ہماری ضرورت ہے اور اسی معصومیت کا فائدہ اٹھاکر ہمارے حکمران اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں۔