سروربارہ بنکوی‘ حمایت علی شاعر یادیں ملاقاتیں
پاکستان کی فلم انڈسٹری میں نگار پبلک فلم ایوارڈ کی بڑی دھوم مچی رہتی تھی۔
جس طرح بمبئی کی فلم انڈسٹری میں فلم فیئر ایوارڈز کا چرچا رہتا تھا اسی طرح پاکستان کی فلم انڈسٹری میں نگار پبلک فلم ایوارڈ کی بڑی دھوم مچی رہتی تھی اور ساری فلم انڈسٹری ہر سال بڑی بے چینی سے نگار ایوارڈز کی تقریب کا انتظار کرتی تھی۔ اس تقریب میں ہر سال ڈھاکہ کی فلم انڈسٹری کی نامور شخصیات بھی بطور خاص شرکت کرتی تھیں یہ ان دنوں کی بات ہے جب ڈھاکہ کی فلم ''کاجل'' میں فردوس بیگم کی آواز اور سجل داس کی موسیقی میں مشہور شاعر سرور بارہ بنکوی کے لکھے ہوئے گیت جس کے بول تھے:
یہ آرزو جواں جواں
یہ چاندنی دھواں دھواں
کو نگار پبلک فلم ایوارڈ کا حق دار قرار دیا گیا اور نگار ایوارڈ کی تقریب میں جہاں لاہور کی فلم انڈسٹری کے فنکاروں کا ہجوم تھا وہاں ڈھاکہ فلم انڈسٹری کے چند نامور فنکار شبنم، روبن گھوش، سلطانہ زماں، خلیل، سبھاش دتہ وغیرہ کے ساتھ مشہور شاعر سرور بارہ بنکوی کو بھی ایوارڈ کی تقریب میں بطور خاص مدعو کیا تھا اور جس طرح دوسرے فنکاروں کو ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا اسی طرح شاعر سرور بارہ بنکوی بھی ہوٹل جبیسں میں ٹھہرے ہوئے تھے اور نگار ویکلی کی وساطت سے میری سرور بارہ بنکوی سے پہلی ملاقات اسی ہوٹل میں ہوئی تھی جب میں فون کر کے مقررہ وقت پر ہوٹل پہنچا تو وہاں پہلے سے نامور نغمہ نگار و شاعر حمایت علی شاعر موجود تھے۔
ان سے تو میری پرانی واقفیت تھی اور حمایت علی شاعر میرے پسندیدہ شاعروں میں شمار ہوتے تھے البتہ سروربارہ بنکوی سے میں پہلی بار مل رہا تھا سرور صاحب بہت ہی خوش لباس اور خوش گفتار شخص تھے کچھ دیر کے بعد مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے میری سرور سے بہت پرانی شناسائی ہے انھوں نے ایک پل بھی مجھے یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ میں ان کے لیے یا وہ میرے لیے اجنبی ہیں اور حمایت علی شاعرکی موجودگی نے اس ملاقات کو مزید خوش کن بنادیا تھا ۔
اس دوران سرور بارہ بنکوی اور حمایت علی شاعر کی بے تکلفی سے مجھے یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ ان دونوں شاعروں کی بڑی پرانی اور قابل قدر دوستی ہے اور دونوں ایک دوسرے کو دل سے عزیز ہیں باتوں ہی باتوں میں یہ بھی پتا چلا کہ حمایت علی شاعر جب بھی ڈھاکہ کسی مشاعرے کے سلسلے میں جاتے تھے تو وہ وہاں سرور ہی کے گھر ٹھہرتے تھے اور وہاں ان دونوں کی آپس کی محفلیں بھی خوب جمتی تھیں، اس دوران شعر و ادب کی باتیں بھی ہوئیں اور ایک دوسرے کی فلمی مصروفیات کا بھی تذکرہ رہا۔
حمایت صاحب نے سرور صاحب سے میرا تفصیلی تعارف کراتے ہوئے کہ ہمدم نگار اخبار میں تو لکھتے ہی ہیں مگر یہ ایک اچھے شاعر بھی ہیں اور ریڈیو کے لیے نغمات بھی لکھتے رہتے ہیں۔ سرور نے یہ سن کر کہا بھی کہ ہمدم صاحب پھر تو آپ کچھ سنائیں میں نے پہلے تو انکارکیا پھر ہمت کرکے ان دو جید شاعروں کے سامنے اپنی ایک غزل کے چند اشعار سنائے دو اشعار قارئین کی بھی نذر ہیں:
کوئی تو پیار کی محفل سجائے میرے لیے
کوئی تو راہ میں آنکھیں بچھائے میرے لیے
نہ لوں وہ دیپ جو احساس کو جلا ڈالے
ہزار بار اگر جگمگائے میرے لیے
پھر میں نے فوراً ہی سرور صاحب سے کچھ سنانے کی فرمائش کردی، سرور صاحب نے بڑی محبت سے اپنے چند اشعار سنائے۔ ایک غزل کا مطلع تو ایسا تھا کہ دل میں اترتا چلا گیا تھا:
ہمیں کھو کر بہت پچھتاؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے
بھری دنیا کو ویراں پاؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے
میری درخواست پر حمایت علی شاعر نے بھی اپنے چند تازہ اشعار سنانے کا مجھے اعزاز بخشا۔ ہوٹل کے اس کمرے میں کچھ دیر کے لیے ایک مشاعرہ کا گماں ہو رہا تھا جہاں انڈو پاک کے دو نامور اور معتبر شاعر اور ان کے درمیان ایک ابھرتا ہوا نوجوان شاعر جسے بہت کچھ سیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔
میں ایک بات اور بتاتا چلوں کہ کچھ عرصے بعد سرور صاحب کی غزل ''ہمیں کھو کر بہت پچھتاؤ گے'' فلم ''احساس'' میں رونا لیلیٰ کی آواز میں ریکارڈ کی گئی تھی ہوٹل جبیسں کی وہ شام میری زندگی کی ایک ناقابل فراموش اور یادگار شام تھی دونوں نامور شاعروں کی قابل قدر باتوں نے محفل کے لطف کو دو آتشہ کردیا تھا اس دوران اتنی ساری دلچسپ باتیں ہوچکی تھیں کہ میرے لیے نگار اخبار کے واسطے ایک اچھا خاصا مضمون لکھا جاسکتا تھا میری بڑی خواہش تھی کہ اس ملاقات کے بعد کوئی اور ملاقات بھی سرور صاحب سے ہوتی مگر ایوارڈ کی تقریب کے جھمیلے اور چند مخصوص دعوتوں میں شرکت کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہوسکا پھر سرور بارہ بنکوی صاحب اپنی فلمی مصروفیات کی وجہ سے واپس ڈھاکہ چلے گئے اور میں بھی نگار ویکلی کی مصروفیات میں گم ہو گیا یہاں میں اس بات کی بھی وضاحت کردوں کہ نگار ویکلی ویسے تو ایک مشہور فلمی ہفت روزہ تھا مگر اس کے لکھنے والوں میں نامور قلم کار ابراہیم جلیس، علی سفیان آفاقی، انور عنایت اللہ ، دکھی پریم نگری، بشیر نیاز، دانش دیروی، انور فرہاد، نادرشاہ عادل ، رضوان احمد برنی ، اور حمید کاشمیری جیسے معتبر ادیب بھی شامل تھے۔ کچھ عرصہ بعد بشیر نیاز ''نگار'' چھوڑ کر لاہور چلے گئے وہاں انھیں ہدایت کار نذرالاسلام کی ایک فلم لکھنے کے لیے مل گئی تھی پھر وہ مصروف ہوتے چلے گئے۔
کچھ ہی دنوں کے بعد میں بھی ''نگار'' کا نمایندہ بن کر لاہور چلا گیا۔ اس طرح مجھے بھی لاہور کی فلمی انڈسٹری میں بحیثیت فلم رائٹر اور نغمہ نگار کی حیثیت سے اپنے قدم جمانے کے مواقعے حاصل ہو گئے، لاہور میں حمایت علی شاعر ان دنوں بحیثیت فلم ساز و ہدایت کار اپنی فلم ''لوری'' بنا رہے تھے جس میں محمد علی اور زیبا مرکزی کردار ادا کر رہے تھے مذکورہ فلم تکمیل کے آخری مراحل میں تھی۔ ایڈیٹنگ بھی جاری تھی ابھی اس فلم کی نمائش کے انتظامات ہو رہے تھے مگر اس کے گیتوں کی دھوم مچی ہوئی تھی خاص طور پر مہدی حسن کی گائی ہوئی ایک غزل جس کی موسیقی خلیل احمد نے مرتب کی تھی جس کا مطلع تھا:
خدا وند یہ کیسی آگ سی جلتی ہے سینے میں
تمنا جو نہ پوری ہو وہ کیوں پلتی ہے سینے میں
یہ غزل ان دنوں ریڈیو کے ہر اسٹیشن سے کثرت کے ساتھ نشر ہوئی تھی اور عوامی حلقوں میں بہت مقبول ہوچکی تھی۔ میری ان دنوں حمایت علی شاعر سے اکثر ملاقات رہتی تھی۔ فلم جب نمائش کے لیے پیش ہوئی تو اسے بہت اچھا رسپانس ملا اور فلم ''لوری'' کو اتنی کامیابی مل گئی کہ حمایت علی شاعر نے اپنی دوسری فلم ''گڑیا'' کا بھی آغاز کردیا۔ اس فلم کے مرکزی کردار بھی محمد علی اور زیبا تھے۔ محمد علی، حمایت صاحب کے ان دنوں کے دوست تھے جب یہ دونوں حیدر آباد ریڈیو اسٹیشن اور حیدر آباد اسٹیج پرکام کیا کرتے تھے اور محمد علی، حمایت علی شاعر صاحب کو ایک استاد کا درجہ دیتے تھے پھر یہ ہوا کہ محمد علی اور زیبا کی بے تحاشا فلمی مصروفیتوں کی وجہ سے فلم ''گڑیا'' کو ان دونوں فنکاروں کی طرف سے خاطر خواہ وقت نہ مل سکا اور فلم ''گڑیا'' آہستہ آہستہ تعطل کا شکار ہوتی چلی گئی فلم آگے نہیں بڑھ رہی تھی مگر پروڈکشن کے اخراجات بڑھتے جا رہے تھے جو حمایت صاحب کی پریشانی کا باعث بن رہے تھے خاص طور پر اداکارہ زیبا کی مصروفیتیں آڑے آرہی تھیں اور حمایت صاحب کی مجبوری دیدنی تھی آخر کار حمایت صاحب ایک دن بالکل ہی دلبرداشتہ ہوگئے کیونکہ فلم ''گڑیا'' کسی صورت میں بھی مکمل ہونے میں نہیں آرہی تھی اور سچ بات تو یہ ہے بڑے آرٹسٹوں کے عدم تعاون ہی کی وجہ سے حمایت صاحب کی انا مجروح ہو رہی تھی۔
خوشامد ان کی سرشت میں شامل نہیں تھی پھر وہ اپنی نامکمل گڑیا کے ساتھ لاہور چھوڑ کر واپس کراچی چلے آئے۔ ایک حد تک انھیں کچھ اطمینان حاصل ہوا مگر فلمی ماحول جہاں قدم قدم پر دکھاوا زیادہ ہوتا ہے اس نے ان کا دل فلمی دنیا سے کھٹا کر دیا تھا پھر انھوں نے دوبارہ فلمی دنیا کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا۔ کچھ عرصے کے بعد حمایت علی شاعر کے دیرینہ دوست اور نامور شاعر سرور بارہ بنکوی کے بارے میں ایک بری خبر ملی کہ انھیں جان لیوا دل کا دورہ پڑا ہے پھر اخبارات ہی کے ذریعے پتا چلا کہ سرور بارہ بنکوی اپنی دو فلموں ''آخری اسٹیشن'' اور ''تم میرے ہو'' میں اپنا تمام سرمایا لگا چکے تھے۔
فلم آخری اسٹیشن بھی خاطر خواہ کامیاب نہ ہوسکی جب کہ ''تم میرے ہو'' بری طرح فلاپ ہوگئی تھی اور مالی پریشانیوں نے سرور صاحب کو گھیر لیا تھا ان کے حالات بہت زیادہ بگڑ گئے تھے وہ روز و شب انتہائی پریشان رہنے لگے تھے سرور صاحب ایک حساس اور خوددار انسان تھے ان کے دل پر جو بوجھ تھا اس کا تذکرہ انھوں نے کسی سے بھی نہیں کیا اور ایک دن وہ اپنے سارے دکھ اپنے دل ہی میں چھپائے اس دنیائے فانی سے چلے گئے آج برسوں بعد ان ہی کی غزل کا مطلع میرے خیالوں میں گونج رہا ہے
ہمیں کھو کر بہت پچھتاؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے
بھری دنیا کو ویراں پاؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے
سرور بارہ بنکوی ایک عظیم شاعر اور غزل کی آبرو تھے۔