پاکستان ایک نظر میں یہ شفاخانہ سرکار ہے صحت کے بہانے یہاں موت ملتی ہے

بلڈ ٹیسٹنگ کے نام پر بلڈ بینک ہزاروں روپے بٹور لیتے ہیں مگر ان کا معیار سب کے سامنے ہے۔


اویس حفیظ December 06, 2014
خدا جانے محافظان صحت ، صحت کے نام پر کون کون سا گھناؤنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ لیکن حکومت کے پاس کان دھرنے کی بھی فرصت نہیں ہے اور حکومت کو فرصت میسر آئے بھی تو کیسے کیونکہ بقول مریم نواز صاحبہ ’’کاش ابو اور چاچو پاکستان میں ہوتے‘‘۔ فوٹو: فائل

ریاست کا تصور ذہن میں آتے ہی جناب اعتزاز احسن صاحب کی مشہور زمانہ نظم کانوں میں رس گھولنے لگتی ہے کہ ؂
ریاست ہو گی ماں کے جیسی
ہر شہری سے پیار کر ے گی

لیکن یہ کسی نے نہیں بتایا تھا کہ ریاست اگر مملکت خدادادہوئی تو پھر سمجھ لیجئے گا کہ یہ سوتیلی ماں کے جیسی ہو گی۔ اگر ریاست کے فرائض اور اس کی انجام دہی کا جائزہ لیا جائے تو اس نوحے کو پڑھنے کیلئے کئی صدیاں درکار ہوں گی مگر اس کے باوجود کچھ مقام ایسے آتے ہیں جو ہم سیماب صفتوں کے دل ایسے چھلنی کر جاتے ہیں کہ قلم اٹھانا مجبوری بن جاتی ہے۔

یوں تو سب سے زیادہ ترقی کے دعویدار صوبہ پنجاب میں صحت کے سیکنڈل کوئی نئی بات نہیں ہیں۔کیونکہ صحت کے سیکنڈلز اور پنجاب کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔خواہ معاملہ دل کے ہسپتالوں میں مریضوں کی دی جانے والی ادویات کا ہویا کھانسی کے سیرپ کا۔ ہر چند روز بعد صحت کا کوئی نیا سیکنڈل پھن پھیلائے عوام کا منتظر ہوتا ہے۔

گزشتہ دنوں سرگودھا کے ڈسٹرکٹ ہسپتال سے بھی بچوں کے مرنے کی مسلسل خبریں آتی رہیں، مگر 15تھیلیسیما بچوں میں ایڈز کے انکشاف نے ہر ذی شعور کو شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے کیونکہ خون لگنا تو ہسپتالوں میں روز مرہ کا معمول ہے اور جن بچوں میں ایچ آئی وی پازیٹو پایا گیا ہے ان کا تعلق بھی بڑے شہروں یعنی لاہور اورراولپنڈی سے ہے۔جو محکمہ صحت کیلئے ایک کھلا چیلنج ہے۔

تھیلیسیما کے بارے میں تقریباً سبھی جانتے ہیں کہ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں جسم خون نہیں بنا پاتا اس وجہ سے تھیلیسیما میں مبتلا لوگوں کومستقلاً بنیادوں پر خون لگوانے کی ضرورت رہتی ہے۔ یہ خون کسی ہسپتال یا مسند لیب سے ٹیسٹ کے بعد ہی لگایا جاتا ہے۔ آج بھی آپ کسی ہسپتال میں اپنا خون عطیہ کرنے کیلئے چلے جائیں آپ کو کئی گھنٹوں کیلئے بلڈ ٹیسٹ کے نام پر انتظار کی سولی پر لٹکا دیا جائے گا مگراس ٹیسٹنگ کا نتیجہ آخر کیا نکلا کیونکہ ابتدائی خبروں کے مطابق تھیلیسمیا میں مبتلا بچوں کو انفیکشن زدہ خون لگایا گیا جس کا نتیجہ ایڈز جیسی ناقابل علاج بیماری کی صورت میں نکلا۔خون عطیہ کرنے سے انتقال خون تک تمام قسم کے ٹیسٹ اور جراثیم سے پاک خون کی منتقلی کو یقینی بنانا محکمہ صحت کی ذمہ داری ہے ۔ مگر سوال یہ ہے کہ محکمہ نے اپنی ذمہ داریوں اور اس قدر اہم پہلو سے پہلو تہی کی بھی تو کیونکر؟

ذرا سی لا پرواہی نے ان معصوم پھولوں میں رہی سہی جینے کی آس بھی ختم کر دی کہ وہ بچے جو نہایت بہادری سے تھیلیسیما جیسی بیماری کا مقابلہ کر رہے تھے ، اب وہ کیونکر زندہ رہنے کی امید کریں گے کہ جب انہیں معلوم ہے کہ پاکستان میں غریبوں کیلئے معجزے نہیں ہوا کرتے۔اب اس خبر نے ان تمام لوگوں کی نیندیں بھی اڑا دی ہیں کہ جنہیں خون کی مسلسل ضرورت رہتی ہے یا جنہوں نے گزشتہ چند سالوں میں خون لگوایا کیونکہ ان میں بھی ایچ آئی وی پازیٹو ہونے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔ایک سروے کے مطابق جن لوگوں کو خون کی ضرورت ہوتی ہے وہ 90فیصد خون عزیز و اقارب و دوست احباب کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں، 3فیصد رضاکارانہ طور پرخون عطیہ کرنے والوں سے حاصل کیا جاتا ہے جبکہ باقی بلڈ بینکس اور خون فروشوں سے لیا جاتا ہے اور پاکستان جیسے ممالک میں 65فیصد خون 5سال سے کم عمر بچوں کو لگایا جاتاہے۔

لیکن اب اس خبر نے جہاں ملک کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دئیے ہیں وہیں پر محکمہ صحت اور بلڈ بینکوں کی کاکردگی کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔اس سے پہلے رواں سال جون میں محترمہ بینظیر بھٹو کے یوم ولادت پر اکھٹا کیا جانے والا خون ضائع کرنے کی خبریں بھی آئیں تھیں جس پر بعد میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ یہ خون جراثیم آلود تھا۔

پھر رواں سال اپریل میں بھی بلڈ بینکس کا ایک سیکنڈل سامنے آیا تھا جس میں لاہور کے تمام بڑے سرکاری ہسپتالوں سے خون کی بیشمار بوتلیں برآمد ہوئی تھیں جنہیں غیر قانونی طور پر فروخت کیا جا رہا تھا۔جس پر مشیر صحت سلمان رفیق صاحب نے یہ فرمایا کہ خون کی فروخت کا دھندہ سرکاری سطح پر ہو یا پرائیوٹ سطح پر، یہ ایک مکروہ دھندہ ہے۔اس کو قطعاً برداشت نہیں کیا جائے گا اور سب کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

اسی کارروائی کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ لیکن محکمہ صحت اور ذمہ داران بیان داغ کر اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو چکے ہیں۔بچوں میں ایڈز کی تشخیص کے بعد ایک بار پھر نیشنل ہیلتھ سروسز کی وزیر سائرہ افضل تارڑ اور مشیر صحت پنجاب خواجہ سلمان رفیق نے 24گھنٹے میں رپورٹ طلب کرنے اور غیر رجسٹرڈ بلڈ بینکوں کے خلاف کارروائی کرنے کا بیان دے کر اپنا فرض نبھا دیا ہے۔بلڈ ٹیسٹنگ کے نام پر بلڈ بینک ہزاروں روپے بٹور لیتے ہیں مگر ان کا معیار سب کے سامنے ہے ۔ اب حکومت کو بھی خیال آ رہا ہے کہ غیر معیاری بلڈ بینکوں کا لائسنس معطل کر دیا جائے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ انہیں لائسنس دیا کس نے اور کیوں تھا کہ جب ان کا معیار ہی بلند نہ تھا ۔

بلڈ بینکوں کے مکرو ہ دھندے کے بارے میں ایک طویل عرصے سے میڈیا میں مسلسل خبریں آ رہی ہیں کہ کس طرح ڈونرز سے حاصل کیا جانے والا خون کارو باری مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔بہت سے لوگوں نے بلڈ بینکوں کے پاس امانتاً جو خون رکھوایا ہوتا ہے ،اسے بھی فروخت کر دیا جاتا ہے،جس کے بعد نشہ کرنے والوں اور بیمار لوگوں سے لے کر کمی پوری کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے تویہاں تک کہا جاتا ہے کہ انسانی خون میں پانی ملا کر بھی زیادہ کیا جا تا ہے ۔ خدا جانے محافظان صحت ، صحت کے نام پر کون کون سا گھناؤنا کھیل کھیل رہے ہیں۔خون کی فروخت کے مکروہ دھندے میں بلڈ بینکوں کا عملہ پوری طرح ملوث ہے۔ یہ بلڈ بینک ایک مافیا کی شکل اختیار کر چکا ہے مگر اس سب کو کنٹرول کرنے والی بلڈ اتھارٹی کہیں نظر نہیں آتی۔صرف شہر لاہور میں ایک ہی بلڈ بینک میں عرصے سے تعینات کئی افراد کروڑوں کی جائیدادیں بنا چکے ہیں لیکن حکومت کے پاس کان دھرنے کی بھی فرصت نہیں ہے اور حکومت کو فرصت میسر آئے بھی تو کیسے کیونکہ بقول مریم نواز صاحبہ
''کاش ابو اور چاچو پاکستان میں ہوتے''۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں