ایکسپو سینٹر سے آرٹ گیلری تک
ایکسپو سینٹر کےآیندہ پروگراموں میں ملک بھر کے مصوروں، فوٹو گرافروں اور خطاطوں کو نمائش میں شمولیت کی دعوت دی جائے گی۔
دنیا کا کوئی ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ملک ایسا نہیں جہاں مقامی صنعت و تجارت کو بیرون ملک متعارف کرانے اور فروغ دینے کی غرض سے نمائشوں کا اہتمام نہ کیا جاتا ہو۔ یورپ اور امریکا کو چھوڑیئے افریقی ممالک بھی اس دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں اور سال کے 365 دنوں میں کوئی دن ایسا نہ ہو گا جب کہیں نہ کہیں نمائش کا انعقاد نہ ہو رہا ہو۔ کراچی اور لاہور کے ایکسپو سینٹرز میں بھی شاید ہی کوئی مہینہ خالی جاتا ہو گا۔ ابھی چند روز قبل لاہور ایکسپو سینٹر میں پرنٹنگ و گرافک آرٹ انڈسٹری کی نمائش ہوئی جس میں پیکیجنگ کے شعبے کا بھی اہتمام تھا یہاں کاروباری حضرات اور شائقین کا ہجوم تھا۔
نمائش کے آخری روز میرے علاوہ پروفیسر سعید اختر (پرائیڈ آف پرفارمنس) قائد اعظم پورٹریٹ فیم، عادل صلاح الدین (پرائیڈ آف پرفارمنس) جنہوں نے ملک کے بیشتر ڈاک کے ٹکٹ ڈیزائن کیے، جاوید اقبال (پرائڈ آف پرفارمنس) بین الاقوامی شہرت یافتہ کارٹونسٹ، دبیر میاں سیرامکس ایکسپرٹ، اور مسٹر عرفان معروف آرکیٹکٹ بھی شائقین کی کیٹگری میں موجود تھے اور مختلف اسٹالز پر جا کر اپنی رائے کا اظہار کر رہے تھے۔ وہاں نیشنل کالج آف آرٹس کا اسٹال بھی تھا جس کے ایک بروشر میں پروفیسر بشیر کے شاگردوں کی تصاویر کے ساتھ ان کی MINIATURE PAINTINGS دکھائی گئی تھیں انھی میں مہر النساء احمد کی تصویر اور تھیسس کی پینٹنگ بھی تھی۔
جوہر ٹاؤن میں واقع ایکسپو سینٹر لاہور دو نمائش ہالز، کنونشن ہال دو آڈیٹوریم، Foyer Area، سمٹ روم، میٹنگ رومز، دو جنرل ہالز اور اوپن ایونٹ ایریا اور وسیع پارکنگ ایریا پر مشتمل ہے۔ یہ حکومت پاکستان اور پنجاب گورنمنٹ کی مشترکہ ملکیت ہے۔ اس سینٹر اور کراچی کے ایکسپو سینٹر کی موجودگی نے سرکاری محکموں اور پرائیویٹ اداروں کے ایونٹس منعقد کرنے کے لیے ایک مشکل مسئلے کا بہترین حل دے دیا ہے۔
ایکسپو سینٹر لاہور میں رواں سال کے دوران متعدد مختلف قسم کے ایونٹس کا انعقاد ہوا۔ ان میں پرنٹنگ و پیکیجنگ، پراپرٹی ایکسپو، انرجی گیس و آئل، سیفٹی و سیکیورٹی، کارپوریٹ پاکستان، انٹرنیشنل پولٹری، مصالحہ فیملی، لاہور چیمبر آف کامرس و انڈسٹری، پاک چائنا ایگرو کیمیکل، انسٹیٹیوٹ آف کاسٹ و مینجمنٹ اکاؤنٹس پاکستان کی کانووکیشن، یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب کی کانووکیشن، ایکسپریس فیملی فیسٹیول، بک فیئر، فرنیچر شو، میڈیکل شو، کوٹنگ شو، لائیواسٹاک و پولٹری، ٹیکسٹائل ایشیا، میوزیکل فیسٹیول، ایمبرائڈری، فوڈ و مہمان نوازی، گارمنٹس ٹیکسٹائل مشینری اور کیمیکل ڈائز وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کئی موضوعات پر کانفرنسز منعقد ہوئیں۔
مذکورہ بالا آرٹ سے متعلقہ Celebrities کے ہمراہ گزشتہ ہفتہ ہمارا ایکسپو سینٹر جانا ہوا تو مختلف قسم کے اسٹالز جو پرنٹنگ و گرافک آرٹ انڈسٹری سے متعلق تھے وزیٹرز سے بھرے ہوئے تھے اور کسی جگہ گروپس کی بریفنگ ہو رہی تھی تو کسی پر تعارفی و معلوماتی بروشرز تقسیم ہو رہے تھے۔
کھلی اور پر فضا جگہ پر ایکسپو سینٹر کی عمارت کے اندر رونق تھی جو معلوماتی اور قابل تعریف تھی۔ شہر کے پر ہجوم ماحول سے ذرا فاصلے پر یہ ایکسپو سینٹر نہ صرف مینو فیکچرز اور تاجروں کے لیے کاروباری معلومات اور ذرایع کھولنے کے لیے مفید اور اہم ہے بلکہ عام شہریوں کے لیے بھی دلچسپ اور متنوع معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔
اگرچہ گرد، دھند اور دھوئیں نے آسمان کو گدلا کر کے بدشکل کر دیا اور لوگوں کو ناک کان آنکھوں اور گلے کی بیماریوں کے تحفے دے رکھے ہیں لیکن اسی لاہور شہر کو دل و نگاہ کی ضیافت کے لیے آرٹ گیلریز کے رنگا رنگ تحائف سے بھی نوازا ہوا ہے۔ ایک درجن سے زیادہ آرٹ گیلریز میں سے ایک ہفتے کے بعد کہیں نہ کہیں سے بلاوا آ جانا ایک نعمت سے کم نہیں۔ اس ہفتے جمیل احمد اور گلزار بھٹی صاحب نے حمائل آرٹ گیلری میں ایک خوش رنگ جنگل کو 37 پینٹگز کے روپ میں مقید کر رکھا تھا۔
شام 5 بجے لاہور کالج فار ویمین یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر صبیحہ منصور نے حمائل آرٹ گیلری میں ڈاکٹر سعدیہ مرتضیٰ کی پینٹنگز کی نمائش کا افتتاح کیا۔
یہ پل بھر میں کیا ماجرا ہو گیا
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا
ڈاکٹر سعدیہ کی اس نمائش میں نوجوان خواتین مصوروں کی کافی بڑی تعداد تھی۔ ان کی تصویروں میں رنگ شوخ اور دل میں اتر جانے والے تھے۔ زیادہ تر تصویروں میں سرخ رنگ اور بوگن ویلیا کا کلر غالب تھا۔ سفید فریموں میں گیلری کے سفید فرش اور سفید ہی دیواروں پر تمام پینٹنگز اپنی شناخت کروا رہی تھیں۔ پینٹنگز میں Three Dimensions کا ہونا دیکھنے والے کو درختوں کے درمیان جنگل میں لیے پھرتا تھا۔ جس تصویر کو دیکھو کہیں کشادگی کہیں اکیلے پن اور کہیں خوشی کا احساس ہوتا۔ اکثر پینٹنگز پر کونے میں سرخ ٹکہ لگا ملتا یعنی مناسب قیمت کی وجہ سے اکثر SOLD تھیں۔ سعدیہ مرتضیٰ کا کام لاہوریوں اور نیچر پسندوں کے لیے نیا نہیں ہے۔ پچیس تیس سال قبل لوگوں میں اصل پینٹنگ خرید کر گھر کی دیوار پر سجانے کا رجحان بہت کم تھا اور لوگ پینٹنگ کی فوٹو فریم کروا کے شوق پورا کر لیا کرتے تھے۔
اب کسی مشہور اور مستند آرٹسٹ کی مہنگی تصویر دوسرے مہنگے شوق کو دبا کر بڑی محبت اور خواہش سے نمائش میں خریدی جاتی اور سنجیدگی سے سنبھالی جاتی ہے پھر مکان کی پرائم جگہ پر لٹکائی جاتی ہے تا کہ مہمان اسے دیکھ کر اس کی تعریف کرنے کے علاوہ اس کی قیمت بھی دریافت کریں اور میزبان کے ذوق کی داد بھی دیں۔ ایکسپو سینٹر کے آیندہ پروگراموں میں ملک بھر کے مصوروں، فوٹو گرافروں اور خطاطوں کو نمائش میں شمولیت کی دعوت دی جائے گی۔
کافی عرصہ سے خطاطی کی پذیرائی اور سرپرستی نہیں ہو رہی تھی کہ کمپیوٹر اور جدید مشینوں کی وجہ سے قلم کاروں کی آہستہ روی کمرشل ضروریات پوری نہیں کر پا رہی تھی۔ خطاطوں نے وقت کی ضرورت کو پرکھا اور اس قریب المرگ آرٹ نے انگڑائی لی اور قلم کاروں نے خطاطی میں مصوری شامل کر کے اس میں زندگی کی نئی روح پھونک دی۔ کچھ ہی عرصہ قبل الحمرا ہال میں خطاطوں نے مصور خطاطی کی شکل میں ایک خوبصورت نمائش کا انعقاد کر ڈالا۔ اب قرآنی آیات اور شعروں میں خطاطی اور مصوری یک جا کرنے سے خطاطی کو نئی زندگی مل گئی ہے۔ مصور خطاطی کی مذکورہ نمائش نے اس فن میں تادیر زندہ سلامت رہنے والی امید بیدار کر دی ہے جس سے اب نت نئے تجربات ہوتے رہیں گے۔