برداشت کا طرز عمل
عمران خان اپنےبلند وبانگ دعوؤں کےمطابق30 نومبرکو اسلام آباد میں 10 لاکھ لوگ جمع کرکےحکومت پردباؤ ڈالنے میں ناکا م رہے۔
ایک مرتبہ پھر پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اپنے بلند وبانگ دعوؤں کے مطابق 30 نومبر کو اسلام آباد میں 10 لاکھ لوگ جمع کرکے حکومت پر دباؤ ڈالنے میں ناکام رہے وہ دو ڈھائی ماہ تک ملک کے طول و ارض میں بڑے بڑے جلسے کرکے لوگوں کے اندر جوش و ولولہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ وہ 30 نومبر کو اسلام آباد پہنچ کر حکومت کے خاتمے پر مہر تصدیق ثبت کردیں۔
خان صاحب کو قوی تر امید تھی کہ کم ازکم دس لاکھ افراد لازمی اسلام آباد پہنچیں گے اور پھر وہ اپنے ''سونامی'' کی لہروں کو (ن)لیگ کے مرکز اقتدار سے ٹکرا کر اسے گرا دیں گے لیکن افسوس کہ 30 نومبر کو اسلام آباد میں ایک لاکھ افراد بھی جمع نہ ہوسکے اور پی ٹی آئی کا یہ ''پلان'' بھی ناکام رہا، اب خان صاحب نے اپنے ''پلان'' سی کا اعلان کیا ہے جس کے مطابق 8 دسمبر کو فیصل آباد، 12 کو کراچی،15 کو لاہور اور 18 دسمبر کو پورا پاکستان بند کرنے کا اعلان کیا ہے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ میاں صاحب میرا پلان ڈی برداشت نہیں کرسکیں گے۔ (اے، بی اور سی پلان کے بارے میں بھی ان کے ایسے ہی دعوے تھے کہ اب حکومت نہیں چل سکے گی) اور حکومت کو تو پتا ہی نہیں کہ میرے پاس کتنے پلان ہیں۔ حکومت کو پتا ہو یا نہ ہو خان صاحب کو بخوبی علم ہے کہ ان کا ہر پلان اب تک ناکام ہی ہوتا چلا آرہا ہے۔
پلان اے، بی کسی طرح سی اور ڈی پلان بھی منہ کے بل گرتے نظر آرہے ہیں۔ تاہم یہ امر خوش آیند ہے کہ پی ٹی آئی دھرنا احتجاج کے پہلو بہ پہلو حکومت سے مذاکرات پر بھی آمادہ ہے اور اس نے یہ اشارہ دیا ہے کہ مذاکرات کے آغاز کی صورت میں احتجاج یعنی پلان سی منسوخ کیا جاسکتا ہے۔ جو یقینا ایک مثبت طرز عمل ہے۔ سیاسی مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے میں ہی سب کا بھلا ہے فریقین کے درمیان کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملات طے کیے جاسکتے ہیں۔ حکومت پی ٹی آئی مذاکرات پر ملک کے محب وطن و جمہوریت پسند حلقوں کی جانب سے اظہار اطمینان کیا جا رہا ہے۔تاہم خان صاحب کے مخصوص رویوں کے باعث بعض حلقے تحفظات و خدشات کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ صورتحال میں کسی جوہری تبدیلی کے امکانات معدوم ہیں۔
حکومت پی ٹی آئی مذاکرات کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے سینیٹر جناب سعید غنی نے ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کا یہ موقف رہا ہے کہ دھرنوں کی وجہ سے ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ اگر حکومت ملکی معیشت کے بارے میں واقعی فکرمند ہے تو پی ٹی آئی سے اسے مذاکرات کرلینے چاہئیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے یہ طے کر رکھا ہے کہ تحریک انصاف اپنی ساری توانائیاں جلسوں اور دھرنوں میں لگا دے اور جب اس کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی تب ہم ان سے مذاکرات کریں گے۔
سینیٹر سعید غنی نے مزید کہا کہ عمران خان نے پہلے مذاکرات کو ناکام بناکر جو نقصان اٹھایا ہے تو ان کے اندر اتنی سمجھ بوجھ ہے کہ اس سے وہ بہت کچھ سیکھیں گے انھوں نے یہ بھی واضح کردیا کہ جلسوں کے آخر تک کچھ نہیں ہوگا بلکہ مسائل کا حل ٹیبل پر بیٹھ کر ہی نکلے گا اور پی ٹی آئی کو بھی وہی مطالبات کرنے ہوں گے جو قابل عمل ہوں گے۔
میرے گزشتہ کالم ''الزامات در الزامات'' کے حوالے سے جو ردعمل موصول ہوا ہے اس میں یہ کہا گیا ہے کہ سوئٹزرلینڈ میں ایس جی ایس کیس کے حوالے سے سابق صدرآصف علی زرداری پر لگائے گئے الزامات کے حوالے سے بھی معروضات پیش کروں۔ اس ضمن میں عرض یہ کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے گزشتہ دنوں بعض اخبارات میں شایع ہونے والی اس خبر کی پرزور تردید کی ہے جس میں سوئٹزرلینڈ میں ایس جی ایس کیس کے حوالے سے سوئس ٹریبونل کی زیر تحویل زیورات کو سابق صدر آصف علی زرداری یا محترمہ بے نظیر بھٹو کے قانونی وارثوں کی ملکیت قرار دیا گیا ہے سابق صدر آصف علی زرداری کے ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر نے جو محترمہ بے نظیر بھٹو کے بھی ان کی شہادت تک ترجمان رہ چکے ہیں۔
واضح طور پر کہا ہے کہ یہ خیال قطعی طور پر خلاف حقیقت اور سراسر جھوٹ پر مبنی و بے بنیاد ہے کہ یہ زیورات بے نظیر بھٹو کے قانونی وارثوں یا آصف علی زرداری کی ملکیت ہیں۔سینیٹر فرحت اللہ بابر صاحب نے یاد دلایا ہے کہ 19 ستمبر 2005 کو محترمہ بے نظیر بھٹو جنیوا میں سوئس تحقیقاتی مجسٹریٹ کے سامنے ذاتی طور پر پیش ہوئی تھیں اور انھوں نے واضح طور پر ان زیورات کی خریداری یا ملکیت سے انکار کیا تھا۔ محترمہ نے اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا تھا کہ مذکورہ زیورات جس کمپنی کی ملکیت ہیں اس کمپنی سے بھی ان کا کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی وہ منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں۔
محترمہ نے اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے زیورات کی ملکیت سے انکار کیا تھا اور واضح طور پر کہا تھا کہ پاکستانی عوام کے جمہوری اور بنیادی حقوق کی بحالی کی جدوجہد کرنے کی بنا پر ان کو انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے یہ بھی یاد دلایا کہ مذکورہ زیورات جس دکان سے خریدے گئے تھے اس کے مالک نے بھی سوئس مجسٹریٹ کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو ہرگز نہیں جانتا اور نہ ہی اس نے یہ زیورات محترمہ بے نظیر بھٹو کو فروخت کیے تھے۔ فرحت اللہ بابر کے بقول یہ تمام باتیں ریکارڈ پر موجود ہیں اور اخبارات میں شایع ہوچکی ہیں۔
انھوں نے پاکستانی میڈیا کو یاد دلایا ہے کہ یہ وہی کیس ہے کہ جس میں ٹرائل کورٹ کی طرف سے دی گئی سزا کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا تھا اور کہا تھا کہ ٹرائل کورٹ کا فیصلہ تعصب اور جانبداری پر مبنی تھا۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق ماضی میں ادارے NABنے دعویٰ کیا تھا کہ مذکورہ زیورات محترمہ بے نظیر بھٹو کے ''بینک لاکر'' سے قبضے میں لیے گئے تھے جب کہ مجسٹریٹ کے سامنے یہ بات ثابت ہوگئی تھی کہ جنیوا میں محترمہ کا کوئی ''بینک لاکر'' موجود ہی نہیں تھا۔ NAB نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ جینز شلیگل میلچ محترمہ بے نظیر بھٹو کا ایجنٹ تھا لیکن جینز شلیگل نے تحقیقاتی مجسٹریٹ کے سامنے اپنے بیان میں یہ بات تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔
مذکورہ چشم کشا حقائق کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ محترمہ بے نظیربھٹو اور آصف علی زرداری کو پاکستان، عوام اور جمہوریت کے لیے خدمات انجام دینے سے روکنے کی خاطر مخالف قوتیں ان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کرکے ان کی کردار کشی کی مہم چلاتی رہی ہیں اور دونوں شخصیات کے خلاف جھوٹے و من گھڑت مقدمات قائم کرکے انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
سابق صدر نے پی پی پی کے 47 ویں یوم تاسیس پر بلاول ہاؤس لاہور میں کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے منقسم مزاج مخالف قوتوں کے عزائم کو بھانپتے ہوئے انھیں بھیڑیے قرار دیا اور واضح طور پر کہا کہ پارٹی کے اندر اور باہر ان کی ہر بھیڑیے پر نظر ہے۔ کاش یہ بھیڑیائی قوتیں پاکستان اور کروڑوں غریب عوام کے تکلیف دہ مسائل کو سمجھ سکیں ملک میں جمہوریت کا استحکام انتقام لینے میں نہیں بلکہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا طرز عمل اختیار کرنے میں پوشیدہ ہے۔