بہت جھوٹ بولا جا رہا ہے

ہمارے ملک میں ’’پیری مریدی‘‘ بہت ہے اور یہ سلسلہ اب نہیں بہت عرصے سے ’’سیاسی پیری مریدی‘‘ پر چل رہا ہے۔



WATULIMO: ایوان سیاست کی راہداریوں کے پیچ و خم بہت عجیب اور پراسرار ہوتے ہیں۔ تاریخ نے ایسے ایسے لوگوں کو ان میں منہ کے بل گرتے ہوئے دیکھا ہے کہ یقین نہیں ہوتا کہ ایسا ہوسکتا ہے مگر ہوا ہے اور تاریخ خود اس کی شاہد ہے چلیے کچھ اپنا ہی احوال لکھتے ہیں دوسروں کو ہدف تنقید بنانے سے بھلا کیا حاصل۔

پاکستان کی نمبر ایک پارٹی جس کو سقوط ڈھاکا سے پہلے میدان میں لایا گیا اور جس کے مقاصد بین الاقوامی طور پر کیا تھے اس سے قطع نظر چاہے لوگ اختلاف کریں ان کا حق ہے کہ پاکستان کو دولخت کرنے کی بنیاد اقوام متحدہ کے اس اجلاس میں رکھ دی گئی تھی جو بھارت اور پاکستان کے درمیان مشرقی پاکستان میں جنگ رکوانے کے لیے بلوایا گیا تھا۔

اندرا گاندھی نے اپنی زندگی کے پرمسرت ترین لمحے کا ذکر اس وقت کو یاد کرکے کیا ہے جب انھوں نے بقول ان کے پاکستان میں مداخلت کرکے اس کے دو ٹکڑوں کو ہمیشہ کے لیے ''دو ٹکڑے'' کردیا۔ اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو پورا یقین تھا کہ ایسا ہوگا اور پاکستان کے اندر اور باہر ایسے عوامل موجود تھے جو اس مقصد کو حاصل کرنے میں ان کی مدد کر رہے تھے۔

یہ تو ہوا ملک دولخت ہوگیا، مگر اس کے فوائد کو وہ پارٹی شاید آج تک حاصل کر رہی ہے یا نہیں اس پر دو رائے ضرور ہوسکتی ہیں۔ اور ہم ہر رائے کا احترام کرنے کے پابند ہیں کیونکہ اس کے سوائے کوئی چارہ نہیں ہے۔

بھارت اور بنگلہ دیش کے رہنماؤں کو تو قدرت نے اس ''جرم'' کی سزا فوری ہی دے دی۔ یہاں اسے قدرت کا فیصلہ نہیں بلکہ ضیا الحق کا ظلم کہا گیا اور کہا جاتا رہے گا۔ ہم ایسی ہی تاریخ کے وارث ہیں جہاں حکمران جو چاہے لکھوا دیں وہی تاریخ ہے اور آنے والی تمام نسلیں بجائے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے تاریخ کو ان ہی آنکھوں سے دیکھتی رہتی ہیں۔ فرقہ وارانہ فسادات یا ظلم اس کی ایک مثال ہیں۔

جب وہ نمبر ایک پارٹی برسر اقتدار آئی تو اس کے سربراہ کے "Talented Cousin" کو سندھ کا وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا جیسے پنجاب میں آج کل ہے اور ہوتا رہا ہے اس کا آغاز یہاں سے ہوا تھا جب سربراہ جماعت سے اس پر اعتراض کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ اگر کسی کا کوئی ''ٹیلنٹڈ کزن'' ہے تو وہ وزیر اعلیٰ کیوں نہیں ہوسکتا۔

عجیب بات ہے کہ جب ان کے سربراہ جماعت کو پھانسی دی جارہی تھی تو وہ ''ٹیلنٹڈ کزن'' کہیں موجود نہیں تھے دو وجہ! ایک تو وڈیروں کا مزاج کچھ ایسا ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے پھر ''پگ'' جس کے سر پر ہو اس سے مخاصمت کا، ایک قدرتی سلسلہ بھی نسلاً در نسلاً چلا آرہا ہے،یہاں اب ایک اور ''سیاسی پگ'' پیدا ہوگئی تھی۔ لہٰذا اس کی جانب نظریں رکھنا کوئی غیر قدرتی عمل تو نہیں ہے اور اس کی کوئی بھی قیمت دی جاسکتی ہے۔

مگر یہ بھی عجیب بات ہے کہ پاکستان کے عوام کو کیا ملا یا کیا نہیں ملا اس سے قطع نظر، ایک عمل جس کو ماننے یا نہ ماننے والے دونوں اس ملک میں ہیں، اتفاق کرنے والے بھی ہیں اور عدم اتفاق والے بھی۔ ادھر ہندوستان یا بھارت میں بات اندرا گاندھی پر نہیں رکی اور دونوں بیٹے اس کا شکار ہوئے۔ وہ پارٹی بار بار بھارت میں حکمراں رہی ہے مگر اصل اندرا کے وارثوں کی سربراہی میں۔ دنیا بھر میں اور خصوصاً ایشیا کے اس علاقے میں بڑی دلچسپ کہانیاں ہیں اقتدار کی جو ہمیشہ موت پر ختم ہوتی ہیں۔

ہم دراصل جذباتی بہت ہیں اور حقائق کو جذبات میں خلط ملط کردیتے ہیں۔ کسی بھی لیڈر سے عقیدت اور محبت کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ اس کی ہر بات کو ''آمنا و صدقنا'' مان لیا جائے یہ کسی گھر کا معاملہ تو ہے نہیں یہ پورے ملک اور اس کے مستقبل اور ماضی کا معاملہ ہے لہٰذا اس پر سنجیدگی سے سوچنا اور غور کرنا چاہیے کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے۔

ہمارے ملک میں ''پیری مریدی'' بہت ہے اور یہ سلسلہ اب نہیں بہت عرصے سے ''سیاسی پیری مریدی'' پر چل رہا ہے اور لوگ جذباتی ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ یہ ملک ہے تو ساری لیڈری اور باقی سب کچھ ہے ملک خدانخواستہ نہ رہے تو شہری کو کون پوچھتا ہے دیکھ لیں مشرق وسطیٰ کا کیا حال ہے۔ شام، عراق کا کیا ہو رہا ہے؟ یمن کہاں ہے؟ الجزائر کہاں ہے؟ مصر کا کیا ہوا؟ بہت اور علاقے ہیں سبق حاصل کرنے کو، لیبیا کو دیکھ لیں! کہاں ہے قذافی؟

ہمارے یہاں ضیا الحق سے پہلے تک تو مسلم لیگ کے کپڑے بدلتے رہے اور کونسل، کنونشن، قیوم اور نہ جانے کون کون سی مسلم لیگیں بنیں یعنی ایک مسلم لیگ نے پاکستان حاصل کیا اور پاکستان میں گروہی سیاست کو ہوا دینے کے لیے اتنی ڈھیر ساری ''مسلم لیگوں'' نے جنم لیا۔ اب تو ''ایک آدمی کی مسلم لیگ'' کا بھی رواج ہے۔

ضیا الحق کے ذہن نے جو مسلم لیگ پیدا کی وہ جناح کیپ پہنے کی صورت میں تھی اور ضیا الحق کا بھی وہی خیال تھا جو اب پرویز مشرف صاحب کا تھا کہ بعد میں ریٹائر ہوکر سیاسی جماعت کو سنبھال لیں گے۔ مگر ایسا ہوا نہیں کیونکہ پاکستان میں صرف پاکستان کی نہیں چلتی یہ بین الاقوامی ''سیاسی کشتی'' کا میدان ہے جس کے کھلاڑی بدلتے رہتے ہیں۔ ریفری کا فیصلہ آخری ہوتا ہے ۔ مسلم لیگ ن نے جناح کے کیپ کے ساتھ پنجاب کی وزارت اعلیٰ سنبھال لی اور بظاہر تو یہی نظر آرہا تھا کہ وہ بہت کامیاب ہے مگر ڈور چاروں کی ایوان صدر کے پاس تھی لہٰذا جیسے ہی ضیا الحق ''محو پرواز ہوئے'' یہ سارا تانا بانا ٹوٹ کر بکھر گیا۔

داراشکوہ، اورنگ زیب کی کہانی ہماری اسی سرزمین کی کہانی ہے۔ یہ ایک خیال رہے ہمارا کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے مگر تاریخ کے رنگ الگ الگ ہیں ہم تو آپ کو قوس و قزح سے متعارف کروا رہے ہیں۔

مسلم ٹاؤن کا سانحہ، اسلام آباد میں حکومت کی جابرانہ کاوشیں جس میں قیمتی جانیں ضایع ہوئیں، ایک ذہنی سوچ اور اس کا اظہار جو اعلیٰ ترین شخصیات کرتی ہیں پاکستان کے کسی اچھے مستقبل کی نوید نہیں ہیں۔ بلاول کو بھی زرداری سے بھٹو کا سفر درپیش ہے بہت مشکل سفر ہے۔

وقت یہ بھی بتا دے گا کہ فرقہ واریت کس طرح کہاں اور کیوں شروع ہوئی اور اب اس کے ثمرات شاید وہ لوگ خود بھی بھگتیں گے جنھوں نے اسے پروان چڑھایا۔ جھوٹ کے ساتھ کھڑے رہنے والے ''مٹی کے لوگ'' ہوتے ہیں، سچ کا ایک جھونکا انھیں اڑا کر لے جاتا ہے۔

بہت جھوٹ بولا جاچکا ہے، بہت جھوٹ بولا جا رہا ہے، جھوٹ کی عمارتیں تعمیر کرنے والے یہ لوگ وہ ہیں جن کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اور جن کی بنیاد نہ ہو وہ مٹنے کے لیے ہوتے ہیں۔ ملک کہہ رہا ہے ہم سے سچ دیکھو، سچ بولو، سچ سنو، سچ کرو۔

وہ سارے ادارے، وہ سارے لوگ، جو سچ سے گریزاں ہیں، جو سچ کو عمل میں نہیں لانا چاہتے وہ ذمے دار ہوں گے پاکستان کے نقصان کے، وہ کون ہیں، ان کے نام کیا ہیں، شناخت کیا ہے، کس پارٹی کے لوگ ہیں یہ وہ سوال ہیں جو آپ مجھ سے کرنا چاہتے ہیں۔ مگر کیوں؟ یہ سوال مجھ سے کیوں؟ یہ سوال آپ اپنے آپ سے کیوں نہیں کرتے؟ آپ بھی تو ذمے دار ہیں اس کے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔