نفرتوں کی دیواریں

بھارتی میڈیا میں آنے والی خبروں کےمطابق مقبوضہ کشمیر کی سرحد پرتعمیر کی جانے والی دیواروادی کو پاکستان سےالگ کردےگی۔


قادر خان December 10, 2014
[email protected]

دیوار برلن (جرمن زبان میں Berliner Mauer) ایک رکاؤٹی دیوار تھی جو عوامی جمہوریہ جرمنی (مشرقی جرمنی) نے مغربی برلن کے گرد تعمیر کی تھی تا کہ اسے مشرقی جرمنی بشمول مشرقی برلن سے جدا کیا جا سکے، مشرقی و مغربی جرمنی کے درمیان حد بندی بھی مقرر کرتی تھی۔ اس دیوار کو مغربی یورپ اور مشرقی اتحاد کے درمیان 'آہنی پردہ' کی علامت بھی قرار دی جاتی رہی تھی۔ دیوار کی تعمیر سے قبل پینتس لاکھ مشرقی جرمن باشندے مشرقی اتحاد کی ہجرت پر پابندیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مغربی جرمنی ہجرت کر گئے جن کی بڑی اکثریت نے مشرقی سے مغربی برلن کی راہ اختیار کی ۔

1961ء سے1989ء تک اپنے وجو دکے دوران دیوار نے اس طرح کی ہجرتوں کو روکے رکھا اور ربع صدی سے زائد عرصے تک مشرقی جرمنی کو مغربی جرمنی سے جدا کیے رکھا۔ دیوار کو عبور کرنے کے لیے کئی رکاؤٹیں بھی لگائیں جس کے نتیجے میں دیوار عبور کرنے کی کوشش میں سیکڑوں افراد اپنی جاں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مشرقی اتحاد میں انقلابی لہر کے دوران چند ہفتوں کی بد امنی کے بعد مشرقی جرمنی کی حکومت نے 9 نو مبر 1989ء کو اعلان کیا کہ مشرقی جرمنی کے تمام شہری مغربی جرمنی اور مغربی برلن جا سکتے ہیں۔

اس اعلان کے ساتھ ہی مشرقی جرمنی کی بڑی تعداد دیوار پھلانگ کر مغربی جرمنی جا پہنچی جہاں مغربی جرمنی کے باشندوں نے ان کا بھرپور خیر مقدم کیا، اگلے چند ہفتوں میں پرجوش عوا م نے دیوار پر دھاوا بول دیا اور اس کے مختلف حصوں کو توڑ ڈالا بعد ازاں بھاری مشینوں کے ذریعے دیوار کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا دیوار برلن کے خاتمے نے جرمن اتحاد کی راہ ہموار کی جو بالآخر 3ا اکتوبر 1990ء کو باضابطہ طور پر مکمل ہوا۔ 9 نومبر کو دیوار برلن کے گرائے جانے کی 25 ویں سالگرہ کی متاثر کن تقریب منائی گئی۔ متحدہ جرمنی کے عوام میں جذبہ وطینت و نسل پرستی کی وجہ سے یہ ایک تاریخی واقعہ رونما ہوا ۔

دیوار چین: حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش سے تقریبا دو سو سال پہلے چین کے بادشاہ شی ہیوانگ ٹی نے اپنے ملک کو دشمنوں کے حملوں سے محفوظ کرنے کے لیے شمالی سرحد پر ایک دیوار بنانے کی خواہش کی۔ اس دیوار کی ابتدا چین اور منچوکوکی سرحد کے پاس سے کی گئی، چین کے دشمن اس زمانے میں ہن اور تاتار تھے جو وسط ایشا میں کافی طاقتور سمجھے جاتے تھے یہ دیوار خلیج لیاؤتنگ سے منگولیا اور تبت کے سرحدی علاقے تک پھیلی ہوئی ہے اس کی لمبائی پندرہ سو میل ہے اور یہ بیس سے تیس فٹ تک اونچی ہے، چوڑائی نیچے سے پچیس فٹ اور اوپر سے بارہ فٹ کے قریب ہے، ہر دو سو گز کے فاصلے پر پہریداروں کے لیے مضبوط پناہ گاہیں بنی ہوئی ہیں۔ اب یہ دیوار دنیا کا عجوبہ اور سیاحت کا مقام بنی ہوئی ہے۔

ہڑپہ تہذیب کی دریافت کے دوران دوہری دیوار سے تعمیر شدہ بھٹیاں ملی ہیں یہ بھٹیاں سیاہ رنگ کی چوڑیاں اور مٹی کے چھوٹے ظروف پکانے کے لیے استعمال کی جاتی تھیں۔انھی بھٹیوں کے قریب رہائشی مکانات، غلہ جمع کرنے کے لیے قد آور مٹی کے بنے ہوئے مٹکے، موتی بنانے کے کارخانے، تانبہ کانسی اور سیپی کی چوڑیاں، زرد عقیق، سنگ سلیمانی سے بنے بارک ٹو کے، خوشنما مہریں، کچی اینٹوں سے بنی فصیل نما دیوار جو 27 فٹ اور بعض جگہ 39 فٹ چوڑی ہے اور پختہ اینٹوں سے بنا ہوا دروازہ بھی دریافت ہوا اس قلعہ نما دیوار کے اندر گشت کرنے کے لیے سڑک، نکاسی آب کے پل، سیکیورٹی چیک پوسٹ اور پہرے داروں کے لیے واچ ٹاور بھی ملے ماہرین کے مطابق یہ دیوار ہڑپہ شہر کو دشمن فوجوں کے حملے اور سیلاب سے محفوظ رکھنے کے لیے بنائی گئی تھی، یوں اس دیوار کو دیوار چین کی طرح قدیم ترین فصیلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

نومبر2013ء کو ایک خبر منظر عام پر آئی کہ بھارت سرکار لائن آف کنٹرول پر دیوار برلن کی طرز پر اس سے بڑی سیکیورٹی دیوار کی تعمیر کے منصوبے پر کام شروع کرنا چاہتی ہے جس سے بھارت کے اس عزائم کی نمود ہوئی کہ بھارت مقبوضہ کشمیر پر مستقل قبضے کی سازش کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے۔ بھارتی میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی سرحد پر تعمیر کی جانے والی دیوار وادی کو پاکستان سے الگ کر دے گی۔

مغربی کنارے اور برلن دیوار سے بڑی اس دیوار کی چوڑائی 135 فٹ ہو گی جو جموں، کٹھوا اور سامبا کے118 دیہات کے درمیان سے گزرے گی، اس دیوار کے لیے فنڈ بھارتی وزارت خارجہ سے جاری ہو گا، نقل و حرکت کو ناکام بنانے کے لیے سیکیورٹی وال کے گرد خندق بھی کھودنا منصوبے کا حصہ تھا، بھارتی میڈیا کے مطابق اس دیوار کی تعمیر کی منظوری لے لی گئی ہے۔ بھارت نے کنٹرول لائن پر179 کلومیٹر طویل دیوار تعمیر کرنے کی منظوری دی اس منصوبے کا اعلان بھارتی وزیر داخلہ سُشیل کمار شندے نے لوک سبھا کے اجلاس سے قبل کیا تھا جس میں انھوں نے بتایا کہ تین فٹ چوڑی، دس میٹر اونچی اور 179 کلو میٹر لمبی دیوار پر کام جلد شروع کر دیا جائے گا۔ قابل ذکر بات یہی ہے کہ نفرت کی دیوار قائم کرنے کا مقصد لاکھوں کشمیریوں کی قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے غاصبانہ قبضے کو اپنی سات لاکھ فوج کے جبر سے مستقل بنانے کی سات دہائیوں کی عملی سازش کا حصہ ہے۔ اس دیوار کے منصوبے کو 'دیوار برہمن' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

اسی طرح ایران کی جانب سے تفتان بارڈر پر ربات سے گوادر تک 700 کلومیٹر طویل، تین فٹ چوڑی اور دس فٹ اونچی دیوار کی تعمیر کا کام 2007ء سے شروع کیا گیا اور عالمی بارڈر اصولوں کو نظر انداز کیا گیا۔ جب کہ پاکستان کی جانب سے فرنٹیئر کور بلوچستان کی زیر نگرانی پاک افغان بارڈر کے ساتھ 480 کلومیٹر پر مشتمل طویل خندق کھو دی جا رہی ہے خندق کی گہرائی آٹھ فٹ جب کہ چوڑائی دس فٹ ہے، واضح رہے کہ پاک، افغان سرحد کی مجموعی طوالت دو ہزار کلو میٹر کے لگ بھگ ہے دونوں ممالک کے درمیان 111 کلومیٹر خندق پہلے سے ہی موجود ہے۔ یہاں پاکستان نے دیگر ممالک کی طرح نفرت کی دیوار قائم کرنے بجائے پڑوسی ملک کی مشاورت سے بین الاقوامی بارڈر قوانین پر عمل درآمد اس لیے کیا تا کہ در اندازوں کی آمد کو روکا جا سکے۔

لیکن تاریخ میں جب دیوار چین ہو یا دیوار ہڑپہ یا دیوار برلن جیسی دیواریں نفرت اور جنگی جنون کے تحت قائم کیں گئیں، جس طرح بھارت انتہا پسند عزائم رکھتا ہے س کا برہمن دیوار قائم کا منصوبہ اس کے اکھنڈ بھارت کے منصوبے کی طرح ہے۔ اقوام کے درمیان نفرت کی دیوار عصبیت، نسل پرستی اور فرقہ واریت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ اقوام کے درمیان نفرتوں کو ختم کر کے محبتوں اور بھائی چارے کو فروغ دیا جاتا لیکن جس طرح اسرائیل اور اسرائیل نواز ممالک کی روش ہے اس سے دنیا مذہبی تقسیم کا شکار ہو گئی ہے۔ اجمالی جائزہ بھی لیں تو صاف نظر آ جاتا ہے کہ دنیا میں تمام جنگیں مسلم ممالک میں لڑی جا رہی ہیں، زمین پر قبضے کے لیے یا اپنے صہیونی منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے یا پھر صلیبی جنگوں کا انتقام لینے کے لیے امت مسلمہ پر جنگ مسلط کر دی گئی ہے اور بد قسمتی سے امت مسلمہ میں فرقہ واریت، مسالک اور عقائد کی ایسی دیوار کھڑی کر دی گئی جسے گرانے کے لیے ہمیں قرآن کریم کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا ہو گا۔ اگر ہم اپنے باہمی اختلافات کو قرآن کریم کی روشنی میں حل کریں تو کوئی وجہ نہیں مسلم دشمن قوتیں ریت کی دیوار ثابت ہوں اور ایک ہی جھٹکے میں ڈھے جائیں۔

لیکن اس کے لیے ہمیں فروعی مفادات سے بالاتر ہو سوچنا ہو گا، مسالک، فرقہ واریت، نسل پرستی، صوبائیت، لسانیت اور عصبیت کی سیاست اور منفی سوچوں کو خیر باد کہنا ہو گا۔ قرآن کریم اور سنت رسول ﷺ سے دوری کی بنا پر ہی ہم دنیا بھر میں ٹڈی دل مکار مسلم دشمنوں کی سازشوں کا شکار ہیں، اس جنگوں کا مقابلہ ہمیں باہمی اتفاق، راوداری، برداشت اور اسلامی تعلیمات کو اپنانے سے کرنا ہو گا۔ دنیا میں مسلمانوں کی تعداد مسلم دشمن عناصر کے تمام تر پروپیگنڈوں کے باوجود بڑھتی جا رہی ہے۔ اس لیے ہمیں نبی اکرم ﷺ کی سیرت کو قرآن کریم کی روشنی میں اپنا کر اسلام دشمنوں کی قائم نفرتوں کی دیوار گرانا ہو گی۔ دیواروں کا انہدام نا ممکن نہیں ہے بس اخلاص درکار ہے۔ امن و سلامتی کا ایجنڈا اپنانے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔