چھوٹے لوگ بڑے لوگ

یہ دنیا عجیب ہے۔ یہ تفریق کے خانوں میں بٹی ہوئی ہے۔ تفریق ایک منفی رویہ ہے


Shabnam Gul December 11, 2014
[email protected]

ISLAMABAD: یہ دنیا عجیب ہے۔ یہ تفریق کے خانوں میں بٹی ہوئی ہے۔ تفریق ایک منفی رویہ ہے۔ منفی رویے کسی بھی مذہبی کتاب میں نہیں ملتے یہ انسانی ذہن کا اختراع ہیں۔ تفریق سے بہت سے منفی لفظ جڑے ہیں جیسے نفرت، تعصب، حسد، رقابت، کینہ وغیرہ۔ یہ تمام تر لفظ انسانی خوشیوں کے دشمن ہیں۔

یہ آنکھوں کے روشن خوابوں کے رقیب بھی ہیں۔ یہ اچھے اور خوشگوار دنوں کا مستقل پیچھا کرتے ہیں۔ یہ تکلیف دہ رویے احساس کی دیمک جیسے ہیں۔ جو نشانے پر ہوتا ہے، اس کا کم نقصان ہوتا ہے۔ مگر یہ جس کے اندر پلتے ہیں، اس کے وجود کو کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ مگر یہ تفریق انسانی زندگی میں مستقل سانس لیتی ہے اور مظلوموں کو حبس میں مبتلا کر دیتی ہے۔یہ ظالم اور مظلوم کے درمیان ایک جذباتی رسہ کشی ہے۔ جس میں اکثر دونوں فریق ہار جاتے ہیں۔ برا رویہ وقتی طور پر فاتح ہو سکتا ہے۔

اچھے رویے شکست کھا کر بھی سرخرو رہتے ہیں۔ یہ سادہ سی باتیں ہیں۔ جنھیں سمجھنے کے لیے کوئی لغت نہیں کھولنی پڑتی مگر جو نہ سمجھنا چاہے وہ تخلیق کار کو برا بھلا کہتے ہوئے اپنی من پسند تحریر پڑھنے لگتا ہے۔ شیکسپیئر کہتا ہے کہ ''کوئی سوچ نہ اچھی ہوتی ہے اور نہ ہی بری، یہ سوچ کے انداز پر منحصر ہے۔'' مگر اس شہر کے رواج ہی عجیب ہیں۔ منفی رویوں کو سراہا اور اچھالا جاتا ہے اس قدر کہ ذہن میں نقش ہو جاتے ہیں۔ اچھی باتیں کم ہی یاد رہتی ہیں۔

بدسلوکی دل میں نقش ہو جاتی ہے اور رواداری کا کہیں بھولے سے بھی گزر نہیں ہوتا۔

دنیا چھوٹے اور برے لوگوں میں بٹی ہوئی ہے۔ وہ لوگ جو اچھے ہیں، انھیں برا بننے کے جواز مہیا کرتی ہے اور جو واقعتاً برے ہیں، ان کے سروں پر اچھائی کا تاج جڑ دیتی ہے۔

یہ تماشا کھلے عام ہوتا ہے اور اہل نظر تک تالیاں بجاتے ہیں۔ ہر وہ شخص اچھا لگتا ہے، جس کے پاس دانش مندانہ سوچ ہو۔ چاہے اس کے پاس کوئی بڑا عہدہ نہ ہو۔ ان لوگوں کو دنیا خبطی ہونے کا خطاب دیتی ہے اور عہدوں کے پیچھے بھاگتی ہے۔

بڑے لوگ محبت کرتے ہیں۔ اچھا احساس بانٹتے ہیں۔ چھوٹے لوگ انتشار پھیلاتے ہیں اور نفرت کرتے ہیں۔ لیکن ہم پھر بھی نہیں سمجھتے۔ اپنی ذات کو چھوڑ کر ہر دوسرے شخص کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ شکایت کرنے والا مشکوک ہوتا ہے مگر دنیا اسے مظلوم کہتی ہے۔ یہ شکایتی رویے ہماری زندگی میں گھسے چلے آتے ہیں۔ کیونکہ منطق کا دروازہ ٹوٹا ہوا ہے۔ حقیقت پسندی روٹھ کے جا چکی ہے اور اعتدال نے بھی اپنا رخ بدل لیا ہے۔ لہٰذا یہ شکایتی رویے قومی مزاج بن چکے ہیں۔

لوگ آپس میں باتیں کرتے ہیں، ان کی تیوریاں چڑھی ہوتی ہیں۔ قہر آلود نظریں مصروف ترین رابطوں میں ہیں۔ ٹی وی کے ٹاک شوز ہی کو دیکھ لیجیے۔ جہاں چھوٹے اور بڑے لوگوں کی تکراریں چل رہی ہوتی ہیں۔ ہر مہذب شخص مدمقابل کو چھوٹا بنانے پر مصر ہے۔ ''میں'' کا لفظ زیادہ استعمال ہونے لگا ہے۔''میں'' تفریق کی جڑ ہے۔ Baumeister نے 1999ء میں Self Concept (ذات کے تصور) کی تشریح کی تھی۔ یہ ذات کے انفرادی عقیدے کی پرچار کرتا ہے۔ ذات کی انفرادیت کا تعین کرتا ہے۔

ذات پرستی کے رجحان کو فروغ دیتا ہے۔ اس تصور کے منفی اور مثبت رویے ہیں۔ منفی رویہ معاشرتی صفوں میں افراتفری برپا کر دیتا ہے۔ دراصل یہ تفریق بھی احساس کمتری (ذات کی معاشرتی دھتکار) کا ردعمل ہے۔ ذات کی نفی، انتشار پیدا کرتی ہے۔ وجود کی مستقل نفی اور احساس کمتری جیسے منفی رویے جڑ پکڑ چکے ہیں۔ ان رویوں سے انا کی تکرار شروع ہوتی ہے۔ جو سماجی تفریق کا سبب بنتی ہے۔ اس کے بعد معاشرہ چھوٹے، بڑے لوگوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ یہ میں اور آپ کے درمیان کا فاصلہ بے اطمینانی کا سبب بنتا ہے۔ ذات سے محبت بڑھتی جاتی ہے۔ ذاتی خوشی اور کامیابی فقط اہمیت کے حامل ہو گئے ہیں۔ اور دور کے منظر دھندلے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ فقط انا کی بھول بھلیاں رہ گئی ہیں۔ تفریق جہالت، خوف کی پیداوار ہے۔ جس کا حل یقین کی طاقت ہے۔جب کہ کامیابی کے لیے بے یقینی کا بیج بویا جاتا ہے۔ بے یقینی کا فروغ ایک کمرشل رویہ ہے، جو منافع لے کر آتا ہے۔ متضاد باتیں پھلتی پھولتی ہیں اور جذباتی لین دین کی طاقت نمو پاتی ہے۔ متضاد رویے شہرت دلاتے ہیں لہٰذا جدید دنیا میں تضادات کو ہر طرح سے کیش کرایا جاتا ہے۔ جس کے لیے اخلاقی حدود کو پار کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں ہوتی۔

جب کہ مثبت سوچ کے آگے نو انٹری کا بورڈ لگا دکھائی دے گا۔

ذات سے محبت کا مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ نقطہ نظر سے تعریف اور توقیر ذات جسمانی، نفسیاتی اور روحانی بلندی کی طرف لے کر جاتی ہے۔ ہم اپنی ذات کی خامیوں کو برداشت کرنے کا سلیقہ سیکھ لیتے ہیں۔ یہ محبت تجزیے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔ یہ مثبت رویہ کاملیت کی طرف جانے کا پہلا زینہ ہے۔ انفرادیت پسندی، مقصد، مثبت قدروں اور جدوجہد کو جلا بخشتی ہے۔ ذات کو سوجھ بوجھ اور جینے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔

جب کہ ذات کی محبت کا منفی پہلو ایک گہرے بھنور کی طرح ہے۔ یہ بحران ہمارے معاشرے میں پیدا ہو چکا ہے اور اس فتنے نے ذہنوں کو اپنے دائروں میں قید کر لیا ہے۔ یہ متعصب سوچ ہے، جو مثبت رویوں کو پنپنے نہیں دیتی۔ Fixed Mindset (بے لچک رویے) تازہ ہوا کے جھونکوں کا راستہ روک دیتے ہیں۔ جو سوچ مزاج اور عقیدے کے خلاف ہوتی ہے، اسے مسترد کر دیا جاتا ہے۔ لفظ محدود سوچ کے پنجرے میں سر ٹکرا کے رہ جاتے ہیں۔ وسیع النظری کا کھلا آسمان دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے گھر منتشر ہیں۔ رشتے، فاصلوں میں بدل گئے ہیں۔ دوستی دکھاوا اور بے غرض محبتیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ انسانی قدریں اور انسانیت بدحال ہیں۔سوشل میڈیا بھی روایتی سوچ کی پرچار کرتا ہے۔

جہاں منفی رویے اور تضادات خوب مرچ مصالحہ لگا کر کیش کرائے جاتے ہیں۔ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے میزبان اور نیوز کاسٹر نے اپنے لہجے بدل ڈالے ہیں۔ یہ لہجے آپ کو نہ تو سی این این پر ملیں گے اور نہ ہی بی بی سی کے میزبان یا نیوزکاسٹر طنزیہ تاثرات یا ذومعنی مسکراہٹ کے تبادلے کرتے کہیں دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں نت نئے تاثرات اور لفظوں کا اتار چڑھاؤ دکھائی دیتا ہے۔ یہ نت نئی ادائیں بہت جلد لوگوں کے دلوں میں گھر کر جاتی ہی۔ جو بوسیدہ سیاسی جملوں اور دھرنوں کی تکرار سے بوکھلاہٹ کا بری طرح سے شکار ہو چکے ہیں۔

انھیں ہر تبدیلی خوشگوار لگتی ہے۔ لوگ عمران خان کی تبدیلی کا بھی اکثر تذکرہ کرتے ہیں۔ انھیں ''تبدیلی'' کا لفظ خوش آیند لگتا ہے۔ چاہے اس کے پیچھے یکسانیت ہی کیوں نہ چھپی ہوئی ہو۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان چھوٹے اور بڑے لوگوں میں تفریق ختم کر پائیں گے۔ تبدیلی اگر تفریق کے خاتمے کی ہے تو موثر سمجھی جائے گی۔ عوام ایسی تبدیلی چاہتے ہیں کہ جو صحیح معنی میں تعلیم یافتہ ملکوں میں پائی جاتی ہے۔ جہاں انسان کی فرد واحد کی حیثیت میں قدر کی جاتی ہے۔ وہ چاہے مزدور ہو یا کسی بڑی پارٹی کا سربراہ ہو۔ جہاں قانون کے زمرے میں فقط غریب لوگ نہیں آتے بلکہ بااثر لوگ بھی قانون سے بالا تر نہیں ہوتے! کیا کوئی ایسی تبدیلی لا سکتا ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں