منظر نامہ
اخلاقی، معاشی اور معاشرتی زوال کے علاوہ سیاست جس کے معنی ہی تربیت دینا باشعور بنانا ہیں۔
لاہور:
ملک کی صورتحال جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے رو بہ زوال ہی رہی ہے۔ نظام حکومت جمہوری ہو یا آمرانہ، مگر ماضی میں زوال پذیری کا عمل کچھ سست روی سے چل رہا تھا یا پھر ہم ہی محسوس نہیں کر پاتے تھے مگر گزشتہ دس بارہ سال سے تو اس رفتار بے ڈھنگی میں اس قدر تیزی آ گئی ہے کہ لگتا ہے کہ ہم سنبھل کر آگے بڑھنے کی بجائے زوال و پستی کے سرپٹ دوڑتے گھوڑے پر سوار ہیں اور حالت یہ ہے کہ ''نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں''۔
اخلاقی، معاشی اور معاشرتی زوال کے علاوہ سیاست جس کے معنی ہی تربیت دینا باشعور بنانا ہیں (مروجہ معنی البتہ کچھ اور ہیں) اس نے گزشتہ چند ماہ میں وہ پاؤں نکالے ہیں کہ وہ عوام جو رفتہ رفتہ ہر طرح کے زوال پر خاموشی سے مائل ہونے کے تقریباً عادی ہو چلے تھے وہ بھی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس سیاسی دنگل کے ممکنہ نتائج سے فکرمند نظر آنے لگے ہیں، پڑھے لکھے جو ہیں ہی آٹے میں نمک کے برابر وہ تو خیر پہلے ہی اس صورتحال پر پہلو بدل بدل کر اپنے اضطراب کا اظہار کر ہی رہے ہیں، اللہ تعالیٰ نے جن کو کچھ کہنے یا لکھنے کی صلاحیت سے نوازا ہے وہ جہاد باللسان اور جہاد بالقلم میں حتی المقدور مصروف ہیں۔
ہر سیاسی جماعت اور ہر لیڈر نے اپنی اپنی استطاعت اور انداز فکر کے مطابق اپنے طریقہ کار کے دائرے مقرر کر رکھے ہیں ان ہی دائروں میں کولہو کے بیل کی طرح گھوم رہے ہیں سفر بہت مگر فاصلہ اتنا ہی جتنا ان کا دائرہ، البتہ حد سے گزر جانے میں ذرا تامل نہیں، ہر کوئی آپے سے باہر ہر کوئی اپنے گریباں میں جھانکنے کے بجائے دوسروں کی فکر میں مبتلا، اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہ آئے دوسروں کی آنکھ کا تنکا نکالنے کے لیے بے چین۔ ہمارے اس طرز عمل سے دوسرے ہمارے ساتھ کیا رویہ اختیار کر رہے ہیں اس کی فکر کون کرے؟ عالمی سطح پر دو بڑے ممالک کے سفیر ایک سیاسی پارٹی کے لیڈر سے بلا جھجھک ملاقات کرکے اپنے تحفظات دور کرچکے ہیں۔
اس کے باوجود ہم بزعم خود آزاد اور خودمختار ریاست ہیں، اگر یہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں تو پھر مداخلت کیا ہوتی ہے؟ اس سیاسی صورتحال کے باعث پورا معاشرہ بے چینی، مایوسی اور قوت برداشت سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ بھلا جب اخبار کے پہلے ہی صفحے پر یہ خبر نظر آئے کہ مدرسے کے چودہ سالہ طالب علم نے فائر کر کے اپنے والد کو ہلاک اور بہنوئی تو زخمی کر دیا، پکڑا گیا اور پوچھ گچھ ہوئی تو بتایا کہ میں مدرسے سے بھاگ کر گھر آ گیا تھا اور پوری صورتحال گھر والوں کو بتائی کہ وہاں مجھے زنجیر سے باندھ کر رکھا جاتا ہے اور صرف ایک وقت معمولی کھانا دیا جاتا ہے۔
اس لیے اب میں ہرگز مدرسے نہیں جاؤں گا اس کے باوجود میرے والد اور بہنوئی مجھے دوبارہ مدرسے چھوڑنے جا رہے تھے جب مجھے بچاؤ کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو میں نے پستول سے فائر کر کے والد کو ہلاک اور بہنوئی کو زخمی کر دیا۔ یہ خبر پڑھ کر پہلا سوال تو ذہن میں یہ آیا کہ یہ کون سا طریقہ تدریس ہے؟ اور وہ بھی دینی علوم کی تدریس؟ یہ تو علم اور دین دونوں سے متنفر کرنا ہوا۔ اب اگر کوئی مدارس کے نظام پر ذرا سی تنقید تو دور کی بات اظہار تشویش بھی کردے تو اس پر کفر کا فتویٰ لگ جائے۔ لہٰذا ہم نہ تنقید کر رہے ہیں اور نہ کسی اندیشے کا اظہار یہ الگ بات کہ ''ظلم کے آگے سر جھکانا شریک ظلم ہونے کے مترادف ہے''۔
چلیے مذہب و سیاست کو چھوڑ کر تعلیم کی طرف آتے ہیں یہاں اس قدر وسیع النظری اور روشن خیالی نظر آئے گی کہ آنکھیں چکا چوند ہو جائیں سندھ کے سابق وزیر تعلیم نے اپنے تعلیمی ترقیاتی کارناموں کا اظہار کرتے ہوئے جہاں اور بہت سے نیک کام سر انجام دیے وہاں انھوں نے برملا یہ بھی اظہار فرمایا کہ حیدر آباد میں یونیورسٹی محض اس لیے نہیں بنائی کہ خدشہ تھا کہ وہاں صرف ایم کیو ایم والے ہی آ جاتے۔
سبحان اللہ کیا جواز ہے گویا ایک اندیشے یا خطرے کے باعث پورے علاقے کو یونیورسٹی سے محروم کر دیا جائے اور ایم کیو ایم والے گویا کوئی حق تعلیم اور روزگار حاصل کرنے کا نہیں رکھتے، جب انداز فکر یہ ہو تو پھر احساس محرومی جنم بھی لیتا ہے اور رنگ بھی دکھاتا ہے۔ بہرحال ابھی یہ یونیورسٹی موضوع گفتگو ہی ہے کہ قائد تحریک نے واشگاف الفاظ میں یہ بھی اعلان کردیا کہ مجوزہ یونیورسٹی میں بلا امتیاز ہر زبان بولنے والے اور ہر علاقے سے تعلق رکھنے والوں کو داخلہ صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر دیا جائے گا۔ اگرچہ یہ سب باتیں ابھی زبانی کلامی ہیں مگر انداز فکر کا فرق تو ظاہر ہو ہی گیا۔
ماشا اللہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو دل و جگر تھام کر رہ جائیں انقلاب مارچ اور ''نئے پاکستان کے قیام کی تحریک'' نے حکومت کو اچھا خاصا وقت سنبھل جانے کے لیے فراہم کیا مگر مجال ہے کہ طرز حکمرانی میں کوئی فرق آیا ہو، اس عرصے میں تو اتنے ترقیاتی کام ہو سکتے تھے کہ مخالفین خود حکومتی کارکردگی سے متاثر ہوکر احتجاج سے دستبردار ہو جاتے، مگر یہ اسی وقت ممکن تھا کہ کچھ کرنے کا ارادہ ہوتا تو اور اگر ارادہ ہوتا تو کام کا آغاز حکومت سنبھالتے ہی ہو چکا ہوتا اور یہ صورتحال پیش ہی نہ آتی۔
مگر نااہل وزرا بچوں کی طرح مخالفین پر طنز کر کے ان کا مذاق بناکر حالات کی سنگینی کا احساس نہ کرتے ہوئے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ جہاں تک صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کا تعلق ہے بلاشبہ حکومت سندھ بے مثال اور لاجواب ہے، تھر میں موت کا بازار گرم ہے ذمے داری قبول کرنے کی بجائے بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیر منطقی جواز پیش کیے جا رہے ہیں۔ تھر کے مسائل کے حل کے لیے امدادی رقوم کا اگر دس فیصد بھی درست طریقے سے استعمال ہو جاتا تو حالات قابو میں آ چکے ہوتے، مگر پھر کچھ بے حد ضرورت مندوں کے گھر نیا فرنیچر اور کچھ کے لیے بہترین گاڑیاں کیسے خریدی جا سکتی تھیں؟ جب صورت حال قابو سے باہر ہو جائے اور ذرایع ابلاغ حکومت کی جان کو آ جائیں تو حکمراں طبقہ خود ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے لگتا ہے، حالانکہ لوٹ کھسوٹ میں سب ہم نوالہ و ہم پیالہ ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مکلی کے جم خانہ میں وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں حکمراں جماعت کے دو گروہ آپس میں دست و گریباں ہو گئے، لاتوں، گھونسوں کے علاوہ مائک اور گلدستے بھی ایک دوسرے کو مارے گئے جس کی وجہ سے درجنوں کارکنان کے علاوہ خود وزیر اعلیٰ بھی زخمی ہوگئے۔ ضبط و تحمل اور برداشت کی صورتحال نچلی ہی نہیں بلکہ اعلیٰ سطح تک ناگفتہ بہ ہو چکی ہے۔
وجہ صاف ظاہر ہے کہ جب ذمے داری خوش اسلوبی سے ادا کر کے مسائل حل کرنے کی بجائے مال بنانے پر ساری توجہ ہو تو عوام کا پیمانہ صبر بھی چھلک جائے گا اور آپس کی رنجشیں بھی بڑھیں گی۔ حکومتی بدنظمی کا عالم یہ ہے کہ امن و امان کی بدتر صورتحال ہو یا رشوت خوری اور کروڑوں کی بدعنوانی سب پر تحقیقاتی کمیشن بن جاتا ہے (گویا یہی مسئلے کا حل ہے) مگر پھر یہ کمیشن کرتا کیا ہے؟ اس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں بتاتا۔
اس بدترین صورتحال کے باعث سندھ کے بزرگ سیاستدانوں، کئی سابق وزرائے اعلیٰ اور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر نے پی پی اور (ن) لیگ کے اتحاد کے خلاف خود کو متحد و منظم کرنے کا نہ صرف فیصلہ کیا بلکہ انھوں نے بدعنوانی کی گمبھیر صورتحال اور تھرپارکر کے حالات پر حکومت سندھ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ موجودہ حالات میں ہم خاموش تماشائی بن کر نہیں رہ سکتے۔