جمہوری قوتوں کے لیے ایک مشورہ
سیاسی جلسے جلوسوں میں جو لوگ مارے جاتے ہیں‘ شاید ان کے لیے ہی کہا جاتا ہے کہ خون خاک نشیناں تھا، رزق خاک ہوا۔
خاصے دنوں سے کچھ لکھ نہیں سکا' شب و روز کچھ اس طرح سے گزرے کہ لکھنے کا وقت ہی نہیں مل سکا' موضوعات آئے اور گزر گئے لیکن پاکستان میں ایک موضوع ایسا ہے جو ہمیشہ زندہ رہتا ہے' اسے کہتے ہیں سیاسی بحران۔ 1947ء سے اب تک کی تاریخ کے ا وراق پلٹ کر دیکھ لیجیے' سیاسی بحران مسلسل چلا آ رہا ہے اور آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ عمران خان نے کراچی میں احتجاج کا مرحلہ مکمل کر لیا' شکر ہے' یہ پر امن رہا' دل ڈر رہا تھا کہ خدانخواستہ کہیں کوئی حادثہ نہ ہو جائے' فیصل آباد میں تو معاملہ گھیراؤ جلاؤ تک چلا گیا تھا اور ایک بے گناہ نوجوان سیاست کی نذر ہو گیا۔
سیاسی جلسے جلوسوں میں جو لوگ مارے جاتے ہیں' شاید ان کے لیے ہی کہا جاتا ہے کہ خون خاک نشیناں تھا' رزق خاک ہوا' پاکستان میں کتنی تحریک چلیں اور کتنے بے گناہ جوشیلے نوجوان اندھی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ ان کا کوئی قاتل گرفتار ہوا نہ کسی نے ان کے گھر والوں کی خبر لی۔ سیاست کے اس بے رحم پہلو سے مجھے بڑا ڈر لگتا ہے' جو نوجوان اعلیٰ آدرشوں کو سینے سے لگائے جلسے جلوسوں میں شریک ہوتے ہیں وہ سیاست کے کھیل میں ہونے والے فاؤل سے بے خبر ہوتے ہیں۔ سیاسی تحریکوں کو لاشوں کی ضرورت ہوتی ہے' یہ بے خبر نوجوان اس ضرورت کو پورا کر دیتے ہیں اور اس کے بعد گھیراؤ جلاؤ کا آغاز ہو جاتا ہے۔
موجودہ بحران جب سے شروع ہواہے' ملک کے فہمیدہ حلقے مسلسل خبردار کرتے چلے آ رہے ہیں کہ سیاسی بحران کو مذاکرات کے ذریعے جلد حل کرنے کی کوشش کی جائے ورنہ حالات جمہوری قوتوں کے ہاتھ سے نکلتے چلے جائیں گے لیکن خود کو عقل کل سمجھنے والوں نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی۔ حد یہ ہے کہ پیپلز پارٹی جیسی بڑی سیاسی جماعت کی قیادت نے بھی درمیان کا کوئی راستہ نکالنے کے بجائے حکومت کو ڈٹ جانے کا مشورہ دیا۔ پارلیمنٹ میں موجود دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کو آڑے ہاتھوں لیا۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ محاذ آرائی ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئی۔ اگر پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتیں اس بحران کو اسٹیبلشمنٹ اور جمہوریت کی جنگ بنانے کے بجائے درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کرتیں تو آج حالات مختلف ہوتے۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔ موجودہ سیاسی بحران کا جاری رہنا' جمہوری قوتوں کی ناکامی ہے۔ اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ پاکستان کی جمہوری قوتیں اپنے باہمی اختلافات اپنے بل بوتے پر دور کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ان کے پاس وہ فہم و فراست نہیں ہے جو جمہوری قیادت کا بنیادی وصف ہوتا ہے۔
اس بحران کے دوران مذاکرات بھی ہوتے رہے ہیں' لیکن یہ سب بے نتیجہ رہے۔ اب بھی مذاکرات کی باتیں ہو رہی ہیں' دیکھیں ان کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ مجھے 1977ء میں پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی کہانی یاد آ رہی ہے۔ اس وقت بھی قومی اتحاد نے عام انتخابات میں دھاندلی کا نعرہ بلند کیا اور ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو ان کے قریبی ساتھیوں نے یہی مشورہ دیا تھا کہ قومی اتحاد کی تحریک جلد ختم ہو جائے گی لیکن یہ ان کی خام خیالی تھی کیونکہ پس پردہ کچھ اور کھیل جاری تھا۔ تحریک طویل ہوتی گئی' ذوالفقار علی بھٹو کو خطرات کا ادراک ہو گیا' انھوں نے قومی اتحاد کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ کیا' یہ مذاکرات شروع ہوئے لیکن انھیں جتنا جلدی ختم ہونا چاہیے تھا وہ نہ ہو سکا' مذاکرات طوالت کا شکار ہوئے' لیکن بلا آخر فریقین میں متنازع امور پر اتفاق ہو گیا لیکن سمجھوتے پر دستخط ہونے سے پہلے ''میرے عزیز ہم وطنو'' ہو گیا۔
جمہوریت شکست کھا گئی' جمہوری قوتوں کو پچھتاوا تو ہوا لیکن وقت گزر چکا تھا۔ ضیاء الحق کا اقتدار قائم ہو گیا' جمہوری قوتوں نے ایم آر ڈی تشکیل دی اور جمہوریت کی بحالی کے لیے تحریک بھی چلائی' میں ان دنوں طالب علم تھا' اس تحریک کا زور سندھ میں بہت زیادہ تھا' پنجاب میں بھی مظاہرے ہوئے لیکن سندھ بازی لے گیا' اس تحریک میں کئی کارکن گولیوں کا نشانہ بنے اور جان سے چلے گئے لیکن ضیاء الحق کا اقتدار ختم نہ ہو سکا۔ اس کے لیے قوم کو گیارہ برس انتظار کرنا پڑا۔ اگر اس وقت پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کی قیادت حالات کی نزاکت کا احساس کر لیتیں اور اپنی صفوں میں چھپے ہوئے ان چہروں کو پہچان لیتیں جو کسی اور کا کھیل کھیل رہے تھے تو جمہوریت کبھی ڈی ریل نہ ہوتی۔
اب بھی جو کچھ ہو رہا ہے' وہ جمہوریت کے لیے کسی صورت اچھا نہیں ہے۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے' مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کو حالات کی نزاکت کا احساس کرنا چاہیے۔ مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانا ہی اصل کام ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو اس معاملے میں خود آگے بڑھنا چاہیے۔ وہ پہلے عمران خان سے ملنے بنی گالہ جا چکے ہیں۔
اس ملاقات سے صورت حال خاصی خوشگوار ہو گئی تھی' اگر اس وقت ہی عمران خان کو رائیونڈ آنے کی دعوت دی جاتی اور چار حلقوں کو کھولنے کے معاملے کو حل کر لیا جاتا تو آج حکومت احتجاج اور دھرنوں سے نجات پا چکی ہوتی۔ بہر حال پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے' دونوں جانب شکوے شکایتوں کے پہاڑ کھڑے ہیں لیکن انھی پہاڑوں میں وہ درے بھی موجود ہیں جن سے گزر کر منزل تک پہنچا جا سکتا ہے۔ میاں محمد نواز شریف اور عمران خان آگے بڑھیں اور مذاکرات کی میز پر بیٹھیں۔ مذاکرات میں مزید تاخیر ہوئی تو جمہوری قوتیں ایک بار پھر شکست کھا جائیں گی اور سب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔