ہم فرشتے
کہتے ہیں کہ جن کا کوئی نہیں ہوتا ان کا اللہ ہوتا ہے۔ میں نے تو اپنی ماں، باپ سے یہی جملہ بچپن سے سنا۔
میں نے تقریباً دو سال ریسرچ کی ان لوگوں پر جو پیری فقیری کا ''کاروبار'' کرتے ہیں ۔ جی ہاں یہ بھی ایک کاروبار ہے جو کبھی مندا نہیں پڑتا اور نہ اس کاروبار پر حالات کا اثر ہوتا ہے۔ تقریباً ہرکلاس کے پریشان لوگوں کو میں نے ان لوگوں کے پاس آتے دیکھا جو نہ صرف ان سے اپنا ''علاج'' کرواتے ہیں بلکہ ان کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھتے ہیں، لوگ اپنے کاروبار کے لیے، اپنی بیماریوں کے لیے، رکاوٹیں دور کرنے کے لیے یہاں تک کہ محبتوں کو حاصل کرنے کے لیے بھی ان کے پاس آتے ہیں۔
اصولاً تو ہم اللہ کے حاجت مند ہیں اور وہ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ وہ سب کچھ جانتا ہے جو ہم خود بھی نہیں جانتے۔ مگر اس کے باوجود بے انتہا عقیدت سے یہ لوگ اپنے اپنے ان پیروں کے پاس آتے ہیں اپنے حال کے غم سناتے ہیں اور اپنے مستقبل کو خوشحال بنانا چاہتے ہیں، صبح سے لے کر رات تک ان کے پاس لوگ جمع رہتے ہیں۔ باقاعدگی سے اب ان کی فیس بھی ہوتی ہے، اور باقی خرچے اپنی جگہ۔
کہتے ہیں کہ جن کا کوئی نہیں ہوتا ان کا اللہ ہوتا ہے۔ میں نے تو اپنی ماں، باپ سے یہی جملہ بچپن سے سنا اور آج تک پتھر کی لکیر کی طرح اس پر یقین بھی ہے، مگر ان نام نہاد پیروں کے پاس جو لوگ آتے ہیں جو پڑھے لکھے بھی ہوتے ہیں وہ کچھ اس طرح کے جملے بولتے ہیں ''بس اوپر اللہ ہے اور نیچے پیر صاحب کا آسرا'' یا پھر ''مجھے تو میرے پیر صاحب نے سنبھال لیا ورنہ میں تو ختم ہی تھا یا تھی'' نعوذ باللہ۔
یہ جو اب نئے نئے نام نہاد پیر بن رہے ہیں یا پھر وہ لوگ جو اس کاروبار میں داخل ہو رہے ہیں یہ لوگ تعلیم یافتہ بھی ہیں اور لوگوں کی نفسیات کو بھی سمجھتے ہیں قرآن اور حدیث کے حوالے بھی دیتے ہیں۔اور بہت پراثر بیانات کرنے کا ہنر بھی جانتے ہیں یا پھر ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ لوگ اچھے خاصے ایکٹر بھی ہوجاتے ہیں اور آواز اور Body Language سے یہ لوگوں پر اثر انداز ہونے کا ہنر سیکھ کر آتے ہیں۔سائنس اور ٹیکنالوجی سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں، ان کے مختلف Assistants ہوتے ہیں جو ان کی Website بناتے ہیں اور نہ صرف لوکل بلکہ انٹرنیشنل پریشان حال لوگوں کو Capture کرتے ہیں۔جس کا جتنا اچھا سیٹ اپ ہوگا وہ اتنا ہی اچھا ''پیر'' صاحب ہوتا ہے۔
ان تمام لوگوں کے پاس میں نے ہمیشہ Latest اسمارٹ فونز دیکھے ہیں جن میں یہ Set کا استعمال بخوبی کرتے ہیں، وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے مرید اور ان سے علاج و معالجہ کروانے والے لوگ کیونکہ بیرون ملک بہت زیادہ ہوتے ہیں اور بے چارے پریشان ہوتے ہیں اس لیے ان کی مدد کے لیے یہ اسمارٹ فونز بطور تحفہ ہی لوگ پیر صاحب کو بھیجتے رہتے ہیں۔ نہ صرف فونز بلکہ Latest Laptop بھی یہ بیرون ملک کے مریدین اپنے پیر صاحب کی نذر کرتے رہتے ہیں کہ جیسے ہی کوئی پریشانی آئے یہ فوراً اپنے پیر صاحب سے Connect ہوجائیں۔ ڈالرز، پاؤنڈز، ریال اور یورو سب ان کی جیب میں موجود اور پریشانی گل۔
ایسا بالکل نہیں کہ پیری مریدی ہوتی ہی نہیں، بالکل ہوتی ہے مگر یہ ایک روحانیت کا سلسلہ ہوتا ہے اور اللہ عالی شان کی عظیم محبت سے شروع ہوتا ہے، اس میں کسی قسم کا لالچ نہیں ہوتا، بندہ خود بخود اللہ کے قریب ترین ہوجاتا ہے، اور اللہ عالی شان ان عظیم لوگوں پر الہام کی کیفیت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ لال شہباز قلندر کو اشارہ ملا تو وہ سیہون شریف تشریف لائے، جنگل بیابان میں اپنا ڈیرہ بنایا۔حضرت داتا گنج بخشؒ کو لاہور کا اشارہ ملا اس وقت یہ بھی خالی ویران ایک جگہ تھی۔ ایسی عظیم ہستیاں اور ان کی روحانیت کی مختلف کہانیاں پاکستان میں، انڈیا میں اور پوری دنیا میں موجود رہیں اور آج تک اللہ کا فیض، اللہ کا کرم ان پر جاری ہے اور جوق در جوق لوگ آج تک ان کے مزاروں پر ان کے عرس پر نظر آتے ہیں۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی، غوث الاعظم اور بہت سے اللہ کے فیض سے بھری ہوئی ہستیاں ہمارے اردگرد موجود ہیں۔ بہت سادہ زندگی، بہت سادہ رہائش، نہ لالچ، نہ حرص اللہ کے حکم سے لوگوں کے لیے بھلائی کی کوشش۔ دینے والی ذات تو صرف اور صرف اللہ عالی شان کی ہے اور اسی کی رضا سے اس کی مرضی سے پتے کو بھی ہلنا نصیب ہوتا ہے۔
کراچی جیسے تعلیم یافتہ ماڈرن شہر میں، جہاں تعلیم کا رجحان پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ہے، جب کبھی کسی سمندری سیلاب کی بات ہوتی ہے جب کبھی سونامی کی بات ہوتی ہے تو لوگ بے اختیار عبداللہ شاہ غازی کو یاد کرتے ہیں۔ بے تحاشا قربانیاں، بے تحاشا اللہ کی محبت سے بھرے ہوئے یہ لوگ کئی سالوں پہلے مٹی کے نیچے دفن ہیں مگر اللہ کی سچی محبت کی خوشبو آج تک محسوس ہوتی ہے۔
ایک صاحب کا کاروبار ختم ہوگیا، بے تحاشا قرضہ ہوگیا کچھ خواتین کے عشق کے مارے بھی تھے، اب وہ کیا کرتے؟ انھوں نے بال بڑھائے، داڑھی بڑھائی ایک کمرہ کرائے پر لیا اور اپنے ایک دوست کے ساتھ آستانہ بنالیا۔ اللہ ہو اللہ کے نعرے لگانے کے لیے دو چار لوگ جمع کرلیے ، ایک ہفتے کے اندر اندر لوگوں نے ''آستانے'' پر حاضری لگانی شروع کردی۔ اگربتی کی خوشبوؤں سے بھرا ہوا آستانہ غموں کا مداوا بن گیا۔کچھ ''پیروں'' نے صبح کے مارننگ شوز میں آکر اپنی دکان چمکالی، بڑے بڑے لوگ گرویدہ ہوگئے اور پھر کاروبار شروع۔
عقیدے کی کمزوری نے، ایمان کی ناپختگی نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا، رہی سہی کسر حرص، حسد اور لالچ نے پوری کردی ماں باپ کی مصروفیات بھی ہمیں لے ڈوبیں۔
علم اللہ عالی شان نے نبیوں کو عطا کیا۔ یہ وہ معراج ہے کہ جس کو اللہ نے عطا کی اب لازم ہے اس پر کہ وہ اس علم کو آگے بڑھائے۔ سطحی زندگی سے اپنے آپ کو اٹھائے، ایک عام آدمی کی صف سے باہر نکلے۔ اندھیروں کو ختم کرنے کے لیے ہمیں ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑنے ہوں گے۔
دھوکے بازی، فراڈ، جعلسازی اگر ہم ان چیزوں پر معاشرہ کھڑا کریں گے تو کیا لوگ ہوں گے اور کیا معاشرہ۔ پیری مریدی اپنی جگہ لیکن جگہ جگہ یہ ٹھگی لوگ اپنے خوانچے لگا کر بیٹھ جائیں گے اور چورن کی پڑیوں کی طرح غموں کا حل فروخت کریں گے تو اس غربت و افلاس کے مارے ہوئے لوگ، کئی گھروں میں عمریں نکلتی ہوئی لڑکیاں تو ان کی طرف متوجہ ہوں گے ہی اور نہ صرف اس طرح کرپشن بڑھے گی بلکہ قانون نہ ہونے کی وجہ سے جگہ جگہ یہ لوگ نظر آئیں گے۔
ہم فرشتہ صفت لوگ، گناہوں سے پاک، بڑے ایمان والے لوگوں کو پہچانیں۔ یہ جعلساز دھوکہ باز لوگ ان کی جھوٹی اور دھوکا باز زبانوں کو بند کرنے کے لیے قرآن پاک اور نماز کا سہارا لیں ۔