وقت کا سقراط
بددیانتی اور کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے والا دشمن کہلاتا ہے وطن سے محبت کرنے والوں کا انجام بھی اچھا نہیں ہوتا ہے۔
یہ کیسا دستور زمانہ ہے جو سچ بولے اسے ہی بادشاہ وقت مورد الزام ٹھہرائے، جھوٹ کی کہانی بڑی پرانی ہے۔ حق وباطل کی جنگیں پچھلی صدیوں میں بھی ہوتی رہیں، واقعہ کربلا کو ہی لے لیجیے جس کے ظہور نے تاریخ کا رخ موڑ دیا، باطل کا منہ کالا ہوا اور حق تاریخ کے صفحات اور انسانوں کے سینوں میں امر ہوگیا۔
سقراط نے بھی سچائی کی خاطر زہر کا پیالہ پیا اور اپنے ہزاروں طالب علموں اور سچائی کے پروانوں کے لیے مثال بن گیا، سقراط نے حکومت کے غلط فیصلوں کے آگے سر نہیں جھکایا، بلکہ اپنے نظریات کی ترویج کے لیے ڈٹا رہا، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، آج سقراط دنیا میں نہیں ہے لیکن اس کا نام زندہ ہے اس لیے کہ سچ کبھی نہیں مرتا۔ منصور بن حلاجؒ نے دار پر لٹکنا پسند کیا اپنے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کروا لیے لیکن اپنے قول و فعل پر آنچ نہ آنے دی، حاکم وقت نے انھیں پابند سلاسل کیا ان پر کفر کے فتوے لگائے لیکن وہ اللہ کے محبوب بندے اپنی تعلیم سے اپنی زبان سے منکر نہ ہوئے، ان پر الزامات کی بوچھاڑ کردی لیکن حکومت کے مظالم کے باوجود زمانہ ان کے کرشمات دیکھتا رہا، ان کی زبان میں اللہ نے وہ اثر پیدا کیا کہ ایک اشارے سے زنداں کی دیوار شق ہوگئی اور تین سو قیدی رہا ہوگئے۔
ہوا میں ہاتھ لہرایا تو حلوے کے خوان آگئے، ایسے بلند مرتبہ صوفی بزرگ کوڑوں اور سنگ باری کی سزا سے نہ بچ سکے تو عام آدمی کس طرح کم علم، ہوس اقتدار کے بھوکے ننگوں سے کیسے بچ جا سکتا ہے؟ آج بھی ہمارے وطن میں بے انصافی کو عروج حاصل ہے اور انصاف کا جنازہ دھوم دھام سے سڑکوں پر نکالا جا رہا ہے ۔ ہر شخص پریشان ہے، انصاف کا طالب ہے، اپنی محنت کا صلہ چاہتا ہے۔ روزگار کا خواہشمند ہے، بڑھتی ہوئی مہنگائی نے اسے ڈس لیا، دھرنوں سے اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ پٹرول زیادہ نہ سہی تھوڑا بہت ضرور سستا ہوا لیکن ٹرانسپورٹ کے کرایے میں کمی اس لیے نہیں آئی کہ سی این جی مہنگے داموں فروخت کی جا رہی ہے، اسی طرح کھانے پینے کی اشیا بھی غریب کی پہنچ سے دور ہیں۔
بددیانتی اور کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے والا دشمن کہلاتا ہے وطن سے محبت کرنے والوں کا انجام بھی اچھا نہیں ہوتا ہے۔ میں نے یہ جملہ اس لیے لکھا ہے کہ لکھتے لکھتے مجھے ایک سچے انسان کا واقعہ یاد آگیا ہے، جسے اپنے ملک اور اپنے ملک کے لوگوں سے بے پناہ محبت تھی اس شخص کا نام ایمل کانسی تھا ، امریکیوں نے پاکستان کے حساس ادارے کی خفیہ معلومات حاصل کیں اور امریکا چلے گئے، ایمل کانسی نے ان کا پیچھا کیا اور اپنے وطن کی معلومات واپس لے لیں دشمنوں کو قتل کیا اور واپس آگیا، اسے جلد ہی اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ CIAاس کا پیچھا کر رہی ہے اس نے خطرات کو محسوس کرتے ہوئے افغانستان کا رخ کیا وہاں پر اس کا شاندار استقبال کیا گیا، اسے گئے ہوئے تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ اس کے دوست نے اسے تجارت کرنے کے بہانے پاکستان بلالیا، وہ اپنے دوست کا انتظار کرتا رہا وہ نہیں آیا، لیکن صبح کے وقت ایمل خان کانسی کو گرفتار کرلیا گیا اور اسے امریکا لے جایا گیا ۔ یہ تھا مرد مجاہد وطن کی خاطر جاں نثار کرنے والا ایمل کانسی اس شہید نے اپنے اس دوست کا نام بھی نہیں بتایا جس نے غداری کی تھی کہ خواہ مخواہ خون خرابہ ہوگا۔ اس کا خاندان بدلہ لے گا۔ آج بھی وہی حالات ہیں سچ بولنے والے مظلوموں کا ساتھ دینے والے اس لیے دشمن نظر آرہے ہیں کہ کہیں ان سے اقتدار کی گدی نہ چھن جائے۔
ایک شخص ہے جس کا نام عمران خان ہے اور جو وقت کا سقراط بھی ہے، سچ کی طلب نے اسے بے گھر کیا ہوا ہے، جس نے دنیائے کرکٹ میں نام کمایا، پاکستان کو وقار بخشا اور جس کی ذات سے کوئی غبن دھوکا دہی اور بدنامی بھی منسوب نہیں ہے، اس واحد شخص نے پاکستان کی ترقی کے لیے اسپتال اور یونیورسٹیاں بنائیں اور جب اقتدار میں آیا تو صوبہ پختونخوا سے نفرت، تعصب، رشوت، بے ایمانی جیسے ناسوروں کو ختم کرنے کی کوشش کی اور خیبر پختونخوا میں امن اور انصاف کی فراوانی میں پیش پیش رہا۔
اب اگر انصاف کے لیے پاکستان کے استحکام اور ترقی کے لیے عمران خان اور ان کی جماعت انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے آواز بلند کر رہی ہے، تو کیا برا کر رہی ہے، لیکن حکومت وقت کو تحریک انصاف کا دھرنا ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانا بے حد ناگوار گزر رہا ہے، ناگوار تو ایک چھوٹا الفاظ ہے ارکان حکومت دشمنی اور الزام تراشی پر اتر آئے ہیں۔ چند ماہ پہلے وہ ماڈل ٹاؤن میں بے گناہ جانوں کو موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں اور تحریک انصاف کے کارکنوں پر بھی تشدد کیا گیا، ان کی جانیں لی گئیں اور اب فیصل آباد میں خونی واقعات کو دہرایا گیا، جب عمران خان نے کئی روز پہلے ہی بتا دیا تھا کہ وہ اور ان کی جماعت کئی شہروں کے ساتھ فیصل آباد کا بھی رخ کرے گی تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت تحفظ فراہم کرتی، نظم و نسق کا اعلیٰ نظام قائم کیا جاتا چونکہ بقول سابقہ و موجودہ حکومت کے یہ جمہوریت کا دور ہے۔
لیکن افسوس کہ ان لوگوں نے اپنے قول و فعل سے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ انھوں نے آمریت کا نام بدل کر جمہوریت رکھ دیا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیا جمہوریت اس عمل کو کہتے ہیں کہ جب ایک پارٹی بغیر توڑ پھوڑ اور بنا تخریب کاری کے اپنے مقاصد اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے میدان میں کودی ہے تو پھر حکومت کے کارکن کس وجہ سے اور کون سے قانون کے تحت مدمقابل آگئے اور خون ناحق بہایا، حق نواز اور دوسرے پی ٹی آئی ورکر کا خون بہت جلد رنگ لائے گا گزشتہ اور پیوستہ واقعات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ پاکستان میں دو قانون بن چکے ہیں امرا اور مقتدر حضرات کے لیے قانون گھر کی لونڈی ہے اسی لیے اس کی نگاہ میں قانون کی کوئی اہمیت نہیں، وہ جب چاہیں اسے ہاتھ میں لے لیں اور کھلونے کی طرح کھیلیں اور پھر توڑ کر پھینک دیں، تمام عدالتیں خاموش ہیں نہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقتولین اور ان کے ورثا کو انصاف فراہم کیا گیا اور نہ پی ٹی آئی کے ورکروں کو۔ قاتل آزاد ہیں۔ جو چاہیں کریں، انھیں کوئی گرفتار کرنے والا نہیں۔ فیصل آباد میں جھڑپوں اور نعرے بازی، تشدد اور فائرنگ کو دیکھ کر یہ محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے یہ ہمارا ملک پاکستان نہیں ہے بلکہ پاکستانی سرحد ہے جہاں ہندوستان سے جنگ جاری ہے۔
نہ اس بات کا خیال ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور ہم وطن ہیں، آپس میں بھائی بھائی ہیں، ایک بھائی کا خون اور جان و مال دوسرے پر حرام ہے۔مجرم آج نہیں تو کل پکڑے جائیں گے اور حکومت بھی کب تک چلے گی؟پورے ملک میں انارکی کی کیفیت ہے، جان و مال کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ جب جسے چاہیں مار دیں، املاک پر قبضہ کرلیں اور مکین کو دھکا دے کر بے دخل کردیں۔
حال ہی میں ایک نجی چینل کے ذریعے ریلوے حکام کی اتنی بڑی نااہلی سامنے آگئی کہ جس سے اندازہ ہوا کہ واقعی یہ وہ دور ہے جس میں اگر اہمیت ہے تو صرف اور صرف دولت کے انبار کی محض ایک لاکھ کے عوض تمام ایسا غیر قانونی سامان لے جانے کی اجازت دے دی گئی جو ہلاکت خیز تھا، چلیں مان لیتے ہیں ٹرین میں بم نہیں پھٹتے تو لاہور میں کسی ایسے سرغنہ کے سپرد کیے جاتے جو معصوم جانوں کو خون میں نہلا دیتا ہزاروں گھرانوں کو برباد کردیتا، قیامت صغریٰ بپا ہوجاتی لیکن یہ اس وقت ہوجاتا جب بم اصلی ہوتے، شراب کی بوتلوں میں پانی یا کوئی دوسرا مشروب نہ ہوتا، یہ تو محض ریلوے اور ان کے وزیر کی کارکردگی کو آزمانا تھا کہ وہ کتنے سچے اور متقی ہیں۔
انھیں ملک و قوم سے کتنی محبت ہے؟ سابقہ حکومت میں بھی کرپشن کے حوالے سے ایسے ایسے واقعات سامنے آئے کہ جنھیں بھلایا نہیں جاسکتا ہے۔اب اگر عمران حق کی بات کر رہے ہیں اپنی قوم کو بحران سے نکالنا چاہتے ہیں ان کے زخموں پر مرہم لگانے کے خواہش مند ہیں تو ان کے ساتھ محض اپنے ملک سے محبت کی خاطر اپنی دکھی عوام کی خاطر مذاکرات کرلینا چاہیے خلوص دل کے ساتھ پاکستان کی بقا کے بارے میں غور وخوض کرنا چاہیے۔ عمران خان اور ان کے کارکن سو دنوں سے زیادہ عرصے سے موسموں کی سنگینی برداشت کر رہے ہیں لیکن اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔