کامریڈ سوبھوکا نظریہ امر ہے
کامریڈ سوبھوگیان چندانی سندھی ادبی سنگت اور انجمن ترقی پسند مصنفین میں بہت سرگرم رہے اور ادبی تخلیقات کی۔
گزشتہ دنوں دوکمیونسٹ رہنما کامریڈ سوبھوگیان چندانی اور کامریڈ رئوف وارثی جسمانی طور پر ہم سے جدا ہوگئے لیکن ان کا نظریہ پھیلتا، پھولتا اور بڑھتا جارہا ہے اور جائے گا۔ کامریڈ سوبھوگیان چندانی پیدا تو لاڑکانہ میں ہوئے لیکن انھوں نے مادر علمی کو اپنا وطن بنایا۔ انھوں نے آنکھیں تو کھولی سندھیوں میں لیکن تعلیم حاصل کی بنگالیوں میں۔ کہاں لاڑکانہ اور کہاں کلکتہ۔ یہ دوری، علاقے اور زبان کے بندھنوں کو توڑتے ہوئے ساری دنیا کا حصہ بن گئے۔
انھوں نے این جے وی اسکول ایم اے جناح روڈ کراچی سے میٹرک کیا اور پھر ڈی جے سائنس کراچی سے انٹر کیا۔ بعدازاں اعلیٰ تعلیم (فلسفہ، ادب اور ثقافت) کے حصول کے لیے شانتی نیکتن (امن کا آشیانہ) کلکتہ گئے اس تعلیمی ادارے کو بنگلہ زبان کے عظیم شاعر، فلسفی اور ناول نگار رابندر ناتھ ٹیگور نے قائم کیا تھا۔ شروع تو ایک جھونپڑی سے کی تھی، بعدازاں یہ بڑھتے بڑھتے دنیا کے بڑے جامعات میں سے ایک قرار پایا۔ یہاں تمام شعبے جات کے علاوہ ادب، موسیقی اور ثقافت کی خصوصی تعلیم دی جاتی ہے۔
اسی زمانے میں کامریڈ سوبھو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا میں شامل ہوگئے۔ وہ کلکتہ میں طلبہ تحریک میں بھی حصہ لیتے تھے۔ ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی نے جب ہٹلر، مسولینی اور جاپانی سامراج کے خلاف بر طانیہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو کامریڈ سوبھو اس فیصلے کے خلاف تھے۔ سبھاش چندربوس نے جب انڈین نیشنل آرمی بنائی تو کامریڈ سوبھو نے اس کی حمایت کی۔ انہیں کی طرح کامریڈ سائیں عزیز اللہ جب پیلی بھیت میں تھے تو انھوں نے بھی اختلاف کیا، مگر آج اختلاف کرنے کی بنیاد پر جماعتوں سے نکالا جاتا ہے۔
تعلیم کے حصول کے بعد جب سندھ واپس آئے تو کسانوں کی ہاری کمیٹی اور مزدوروں کی ٹریڈیونینوں میں بھر پور حصہ لیا اور عملی جدوجہد میں جڑگئے۔ کراچی میں ٹرام پٹہ، ٹیکسی ڈرائیوز، ہوٹلزیونین، شو ورکرز اور بیڑی ورکرز یونین میں سرگرم عمل رہے اور ان یونینوں کے باقاعدہ عہدیدار بھی رہے۔ کامریڈ سوبھو کمیونسٹ پارٹی کے معروف رہنما کامریڈ سید جمال الدین بخاری کی جدوجہد اور رہنمائی سے متاثر تھے۔ سوبھو سندھی ادبی سنگت کے رہنما رہ چکے ہیں، سندھ ہاری کمیٹی کے معروف رہنمائوں عزیز سلام بخاری، حیدر بخش جتوئی، کامریڈ سائیں عزیز اللہ اور برکت اللہ آزاد کے ساتھ مل کر جدوجہد کی پاکستان بننے کے بعد ہاری کمیٹی نے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی رہنمائی میں ''ہاری الاٹی تحریک چلائی، جس میں کامریڈ سوبھو نے اہم کردار ادا کیا۔ حکومت نے ہاریوں کو پچیس ایکڑ زمین اور ہندوستان سے آئے ہوئے غریب مزدوروں کو پچیس ہزار روپے دینے کا اعلان کیا۔
جس سے ہاری کمیٹی اور کمیونسٹ پارٹی نے اختلاف کرتے ہوئے یہ مطالبہ رکھا کہ ہاریوں کو پچیس ایکڑ کے بجائے پچاس ایکڑ زمین دی جائے اور ہندوستان سے آئے ہوئے غریب محنت کشوں کو پچیس ہزار روپے کے بجائے پچاس ہزار روپے کا کاروبار حکومت خود کرواکے دے۔ اس مطالبے پرکسانوں اور مزدوروں نے اتفاق کیا اور اس تحریک میں شا مل ہوگئے۔ آخرکار حکومت کو ''ہاری الاٹی تحریک'' کا مطالبہ ماننا پڑا۔ اس تحریک میں کامریڈ سوبھو کے علاوہ اہم رہنمائوں میں سے کامریڈ حیدر جتوئی، کامریڈ سائیں عزیزاللہ اور کامریڈ عزیز سلام بخاری پیش پیش تھے۔
کامریڈ سوبھوگیان چندانی سندھی ادبی سنگت اور انجمن ترقی پسند مصنفین میں بہت سرگرم رہے اور ادبی تخلیقات کی۔ ایک عام انتخابات میں کامریڈ سوبھو نے قومی اسمبلی کے امیدوار کے طور پر حصہ لیا اور جیت بھی گئے لیکن ریاستی آلہ کاروں نے ازسرنو ووٹ کی جعلی گنتی کرواکر انہیں ہروایا۔ اس جعلی گنتی کے خلاف کامریڈ بیرسٹر سید عبدالودود کے ذریعے وہ مقدمہ لڑرہے تھے کہ اسی دوران پاکستان پیپلز پارٹی کی شریک چیئرپرسن نصرت بھٹو نے کامریڈ سوبھوکو پی پی پی میں شرکت کی دعوت دی اورکہا کہ آپ اگر پی پی پی میں شامل ہوجائیں تو ہم آپ کا مقدمہ لڑیں گے۔ جس پر کامریڈ سوبھو نے یہ کہہ کر پی پی پی میں شامل ہونے سے منع کردیا کہ ہم ایشو ٹو ایشو حمایت کرسکتے ہیں لیکن شامل نہیں ہوں گے۔
کامریڈ بیرسٹر سید عبدالودود جوکہ خود بھی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما تھے نے مقدمہ لڑا۔ ہونا وہی تھا جو کامریڈ مرزا ابراہیم کے ساتھ ہوا۔ کامریڈ سوبھوکلکتہ سے 'ربندر سنگیت' یعنی ربندر نا تھ ٹیگور کے مخصوص گانے کی کیسٹس لاتے تھے اور انہیں ٹیپ ریکارڈ پر لگا کر راقم کو ترجمہ کرکے سنانے کوکہتے تھے۔ بعض موقعے پرجب رات زیادہ ہوجایا کرتی تھی اور کامریڈ سوبھو نیند میں اونگھنے لگتے تو راقم چلا جاتا تھا۔ وہ کراچی میں اپنے مرحوم بیٹے ڈاکٹر کنہیا کی رہائش گاہ حسن اسکوائر پر ٹہرتے تھے۔ کامریڈ سوبھو کمیونسٹ پارٹی کے بزرگ رہنما دادا فیروزالدین منصو، پہومل، دادا امیر حیدر، کاکا صنوبرخان، کاکا خوشحال خان خٹک، طفیل عباس، منہاج برنا، شرف علی، امام علی نازش، ڈاکٹر اعزاز نذیر اور جام ساقی وغیرہ کے ساتھ مل کر مزدوروں، کسانوں اور پیداواری قوتوں میں جدوجہد کرتے رہے۔ اسی طرح ایک اورکمیونسٹ پارٹی کے سرگرم رہنما کامریڈ رئوف وارثی بھی ہم سے جدا ہوگئے۔
وہ کمیونسٹ پارٹی میں انتہائی سرگرم رہے۔ انھوں نے اے پی پی اور ڈان کراچی اخبار میں بحیثیت صحافی کام کیا اور روسی قونصل خانے سے شائع ہونے والا اردو رسالہ 'طلوع' کے ایڈیٹر بھی تھے۔ انھوں نے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری امام علی نازش، ڈاکٹر اعزاز نذیر کے ساتھ کام کیا۔ جنرل ضیاالحق کے دور میں ان پر بار بار تشدد اور گرفتاریاں ہوتی رہیں۔ ہر چند کہ وہ کراچی کے رہائشی تھے لیکن انہیں فیصل آباد جیل میں مقید کیا گیا۔ آخر کار وہ تنگ آکر افغانستان چلے گئے۔ افغانستان کے صدر ڈاکٹر نجیب اللہ شہید کے ساتھ ایک عرصے قیام پذیر رہے۔ پھر وہ 1985 میں اپنے اہل خانہ سمیت سوئیڈن منتقل ہوگئے اور وہاں کمیونسٹ پارٹی آف سویڈن کے سرگرم کارکن رہے۔ وہ سوئیڈن میں پاکستانی کمیونٹی کے صدر رہ چکے۔ بعدازاں انہیں برین ہیمرج ہوگیا اور بولنے اور چلنے سے قاصر ہوگئے، یادداشت بھی تقریبا کھو بیٹھے۔
مگر مختلف پروگراموں میں وہیل چیئر پر ان کی اہلیہ نفیسہ انہیں ساتھ لے جاتی تھیں۔ خاص کر یوم مئی کے جلوس میں ضرور شرکت کرتے تھے۔ کامریڈ سوبھوگیان چندانی اور کامریڈ روئف وارثی کی جدوجہد کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی۔ کمیونسٹ سماج کے قیام اور دنیا کو ایک کرنے کی جدوجہد ساری دنیا میں جاری ہے۔ آج وال اسٹریٹ قبضہ تحریک نے یہ ثابت کردیا ہے کہ نیویارک سے شروع ہونے والی تحریک نیوزی لینڈ تک اگر پہنچ سکتی ہے توکل پھر ملکوں کی سرحدیں بھی ختم ہوسکتی ہیں۔ اس عالمی سرمایہ داری کو ختم ہونا ہے جیسا کہ غلامانہ اور جاگیردارانہ سماج دنیا بھر سے ختم ہوا۔ اور سرمایہ داری کا متبادل صرف عالمی امداد باہمی کا آزاد معاشرے کے قیام میں ہی مضمر ہے۔ سچے جذبوں کی قسم کہ وہ دن ضرور آنے والا ہے کہ جب کوئی طبقہ ہوگا، ملک ہوگا اور نہ ریاست۔ دنیا کی ساری دولت سارے لوگوں کی ہوگی۔ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر کھائیں گے۔