ہر شخص وی آئی پی ہے
دنیا کے سب سے طاقتور امریکی صدر بارک اوباما کئی مواقعے پر وی آئی پی کلچر کو رد کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
ہر چند کہ وی آئی پی کلچر پاکستان میں نئی بات نہیں ہے کیونکہ سوسالہ انگریز کی غلام رہنے والی قوم اور اس کے حکمرانوں کی رگ رگ میں وی آئی پی کلچر بسا ہوا ہے۔ امیر ہو یا کہ غریب ہر کوئی اپنی اپنی سطح پر وی آئی پی کلچر کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انگریز چلے گئے لیکن انھوں نے اپنے ملکوں میں وی آئی پی کلچر کو یکسر ختم کردیا۔ ماضی بعید میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ دور حاضر میں امریکا، برطانیہ سمیت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں وی آئی پی کلچر کا نام و نشان بھی نہیں ملتا۔
عوامی جگہوں پر جاکر، صدر، وزیر اعظم اور وزرا عام شہریوں کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ دنیا کے سب سے طاقتور امریکی صدر بارک اوباما کئی مواقعے پر وی آئی پی کلچر کو رد کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ چھٹیوں کے دوران کسی ریسٹورنٹ کے غیر رسمی دورے پر وہ اکثر قطار پر لگ کر اپنی باری پر کھانا لیتے ہیں۔ دوسری طرف امریکی عوام بھی کچھ کم نہیں۔ کچھ روز قبل نیویارک میں صدر اوباما کو کئی بوم کلب میں داخل ہونے سے روک دیا گیا کیونکہ کلب انتظامیہ کو خدشہ تھا کہ سکیورٹی کے باعث ان کے ممبران کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
دنیا میں یوروگائے کے صدر جوسی موسیکار وی آئی پی کے خلاف سب سے بڑی مثال ہیں،اس صدر کا شمار دنیا کے غریب ترین سربراہ مملکت میں شمار ہوتا ہے نہ ہی صدارتی محل میں رہتے ہیں نہ ہی آمد و رفت کے لیے پروٹوکول استعمال کرتے ہیں۔ وہ اپنی اہلیہ کے گھر میں رہتے ہیں اور 1987 کی ماڈل کی فوکسی ویگن استعمال کرتے ہیں اور خود ہی گاڑی چلاتے ہیں۔ ان کی 90 فیصد آمدنی خیرات کردی جاتی ہے جب کہ وہ خود کھیتی باڑی کرکے اپنے گھر کا خرچ چلاتے ہیں۔ برطانیہ کے موجودہ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اکثر پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ٹرین میں کئی بار نشست نہ ہونے پر انھیں کھڑے ہوکر سفر کرتے دیکھا گیا۔ اسے کہتے ہیں عوامی حکمران نہ کہ ہمارے حکمرانوں کی طرح ان کے ناز نخرے ہوتے ہیں جب کہ ہمارے یہاں آج بھی بادشاہت کے آثار نمایاں ہیں۔
دور غلامی میں نقارہ بجاکر اعلان کیا جاتا تھا ''باادب، باملاحظہ ہوشیار، خبردار! شہنشاہ معظم یہاں سے گزرنے والے ہیں جن کی اطاعت تم سب پر لازم ہے۔ اپنے اپنے مکانوں اور دکانوں کے دروازے بند کر دو، کوئی باہر نہ نکلنے پائے تاوقتیکہ شہنشاہ کا قافلہ گزر نہ جائے، حکم عدولی کرنیوالے کو داخل زنداں کیا جائے گا یا پھر اس کا سر تن سے جدا کردیا جائے گا۔'' بادشاہ وقت کے ظالمانہ قوانین اور بے رحمانہ طرز حکمرانی کے شکار سہمے ہوئے رعایا جان کی امان پاتے ہوئے حکم کی تعمیل کیا کرتے تھے۔
لوگ خود پر حکمرانی کرنے والوں کی ایک جھلک چھپ چھپ کر گھروں کی کھڑکیوں اور دروازوں کی اوٹ سے دیکھ کر حسرت دیدار پوری کرلیا کرتے تھے پکڑے جانے والوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا تھا جس کا ذکر کیا گیا ہے۔آج ہم 21 ویں صدی میں سانس لے رہے ہیں لیکن ہمارے حکمران ہمارے ذہنوں میں غلامی کا تاثر اور تصور برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ شہر ہو یا کہ گاؤں جب کسی اعلیٰ شخصیت کی آمد یا گزرہوتا ہے تو وہاں ہلچل مچ جاتی ہے، سائرن بجائے جاتے ہیں، جو شاہی اعلان کی ایک صورت ہوتی ہے۔
ایسے میں لوگ آپس میں سرگوشیاں کرنے لگتے ہیں ''کون صاحب آرہے ہیں؟'' ''کابینہ کی فوج ظفر موج میں سے کوئی عوامی سپاہی ہوگا، جو قومی خدمت میں مصروف ہے۔'' عام ٹریفک جام ہوجاتا ہے، لوگ گاڑیوں سے اتر کر پیدل چلنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، بعض گاڑیوں کا پٹرول ختم ہوجاتا ہے اور ٹریفک مزید بے ہنگم ہوجاتی ہے، ایمبولینسیں بھی ٹریفک میں پھنس جاتی ہیں اور مریضوں کی حالت مزید خراب ہوجاتی ہے۔ یہ ہے حقیقی اور پائیدار جمہوریت جس کے ماتھے پر ''بادشاہت کا ستارہ بھی چمک رہا ہے۔''منگل 16 ستمبر 2014 کے روز ایک یادگار واقعہ ہوا جب پی آئی اے کی کراچی سے اسلام آباد جانے والی پرواز پی کے 370 کی روانگی میں اڑھائی گھنٹے تاخیر ہوگئی جس پر جہاز میں سوار مسافروں نے احتجاج شروع کردیا۔
مسافروں نے جب عملے سے استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ 2 ارکان پارلیمنٹ بھی اسی پرواز کے مسافر ہیں لہٰذا دونوں کا انتظار کیا جا رہا ہے، جب ایک ممبر جہاز میں داخل ہونے لگے تو عملے اور مسافروں نے ان سے تکرار کی، اسی دوران ایک ایم این اے بھی جہاز میں داخل ہونے لگے تو عملے اور مسافروں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور مسافروں نے شور شرابہ شروع کردیا۔ اس طرح ان ارکان پارلیمنٹ کو آف لوڈ کردیا گیا۔ ایک مسافر نے جہاز میں دونوں ارکان پارلیمنٹ کے خلاف کیے جانے والے احتجاج کی ویڈیو بنالی جو سماجی ویب سائٹ پر جاری کردی جب کہ مختلف ٹی وی چینلز دونوں ارکان کے خلاف احتجاج کی ویڈیو بھی نشر کرتے رہے جس کا چرچہ بین الاقوامی سطح پر رہا۔ اس ویڈیو نے بھارت میں بھی دھوم مچا دی، بھارتیوں نے اسے ''ویڈیو آف ڈے'' قرار دیتے ہوئے خواہش کا اظہار کیا ہے کہ کاش ایسا واقعہ بھارت میں بھی ہو۔
بھارتی شہریوں نے پاکستانی عوام کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک دن بھارتی عوام بھی اپنے حقوق کے لیے پاکستانیوں کی طرح اٹھ کھڑے ہونگے۔ فیس بک پر ایک صاحب نے لکھا ہے کہ ''عوام سے گزارش ہے کہ آیندہ کسی VIPکو جہاز سے نکالتے وقت تھوڑا سا صبر کرلیا کریں، اور تب نکالیں، جب جہاز 10 ہزار فٹ کی بلندی پر ہو۔'' اسے کہتے ہیں عوامی ردعمل، جس سے سبق حاصل کیا جائے۔یہ واقعہ نام نہاد وی آئی پیز کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ اس واقعے کا ویڈیو بنانے والا اور جہاز میں اس مہم کا آغاز کرنیوالا بہادر انسان ارجمند حسین ہیں۔ اس کا تعلق ہوٹل انڈسٹری سے ہے۔ انھوں نے یہ ویڈیو اپنے فیس بک کے پیج پر بھی شیئر کی ہے۔
ان کا فیس بک پیج دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پر کیے جانے والے پراپیگنڈے کے برعکس ان کی کسی سیاسی پارٹی سے وابستگی نہیں۔ جسٹس جواد خواجہ کی باتیں قابل غور ہیں جو انھوں نے اس واقعے کے حوالے سے کہا ہے ''مجھے کسی نے ویڈیو دکھائی، اس سے مجھے اطمینان بھی ہوا اور بے اطمینانی بھی۔ اطمینان سیاسی شعور پر ہوا اور بے اطمینانی اس لیے ہوئی کہ اگر ادارے کام کر رہے ہوتے تو لوگوں کو خود یہ کام نہ کرنا پڑتا، افسوس ہوا کہ وی آئی پی کے انتظار کی وجہ سے فلائٹ میں تاخیر ہوئی، صدر پاکستان بھی ہو تو بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے، آئین کے مطابق ہر شخص وی آئی پی ہے ۔''