سقوط ڈھاکا۔ چشم عبرت
مشرقی پاکستان کی علیحدگی ایک گھمبیر اور وسیع موزوں ہے جس کے کئی تاریخی، سیاسی اورمعاشی پہلو ہیں۔
16 دسمبر کے سیاہ دن میجر جنرل ناگر ایک گولی فائرکیے بغیر ڈھاکا میں داخل ہوگیا اس کے ساتھ مٹھی بھر بھارتی فوج اور ڈھیر ساری فاتحانہ نخوت تھی عملا یہ ڈھاکا کا اختتام تھا اگرچہ اس کو دفن کرنے کی رسم ابھی باقی تھی۔ ڈھاکا یوں چپ چاپ سو گیا، جیسے اچانک حرکت قلب بند ہو گئی ہو وہاں نہ کوئی ہائو ہو ہوئی نہ کوئی مارکٹائی ہوئی، سنگا پور، پیرس برلن کے سقوط کی کوئی کہانی نہ دھرائی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایسٹرن کمانڈ کے ہیڈکوارٹر کو سمیٹ لیاگیا، دیواروں سے جنگی نقشے اتار لیے گئے۔
ٹیلی فون کی روح قبض کرلی گئی۔ بھارتی ماتحتوں کے لیے پرانے ہیڈکوارٹر کو جھاڑا پونچھا گیا۔ میجر جنرل جیک اپنے ساتھ ایک دستاویز لائے جسے ''سقوط ڈھاکا کی دستاویز'' کہا جاتاہے، جسے پاکستانی جنرل امیر عبداللہ نیازی جنگ بندی کا مسودہ کہنا پسند کرتے تھے۔ تھوڑی دیر میں بھارتی کمانڈر جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کے استقبال کے لیے جنرل نیازی ڈھاکا ائیرپورٹ گئے۔ بھارتی کمانڈر جنرل اپنی فتح کی خوشی میں اپنی شریمتی کو بھی ساتھ لایا تھا جوں ہی یہ میاں بیوی ہیلی کاپٹر سے اترے، لاکھوں بنگالی مردوں اور عورتوں نے اس نجات دہندہ کو ہاتھوں ہاتھ لیا پھولوں کے ہار پہنائے شکریہ کے جذبات سے خوش آمدید کہا۔ جنرل نیازی نے سلوٹ کیا یہ نہایت ہی دلدوز منظر تھا فاتح اور مفتوح۔ وہاں سے دونوں جنرل رمنا ریس کورس گراؤنڈ آئے جہاں سرعام جنرل نیازی سے ہتھیار ڈالنے کی تقریب کا نظارہ کرنے کے لیے لاکھوں بنگالی موجود تھے چھوٹی سی میز پر بیٹھ کر جنرل نیازی نے سقوط مشرقی پاکستان پر آخری مہر ثبت کی۔
اس اقتباس کے خالق بریگیڈیر صدیق سالک اس تمام سانحے کے چشم دید گواہ ہیں ہماری نئی نسل اور ہمارے قائدین کے لیے ان کی کتاب ''میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا'' چشم عبرت سے کم نہیں اس تاریخ کے حقائق کو جاننا ان غلطیوں کی روشنی میں اپنی اصلاح کرنا 16دسمبر کی اصل بنیاد ہے۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی ایک گھمبیر اور وسیع موزوں ہے جس کے کئی تاریخی، سیاسی اورمعاشی پہلو ہیں مگر بھارت کی جارحیت اور سازش نے بھی اس میںاہم کردار ادا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد سے بھارتی سیاست دانوںاور حکمرانوں نے پاکستان کو دل سے قبول نہیں کیا وہ مشرقی پاکستان میں دبی چنگاری کو شعلے میں تبدیل کرنے کی تگ ودو میں لگے رہے۔ ایک طرف تو وہ بنگالیوں میں قوم پرستی کے جذبے کو ابھار رہے تھے تو دوسری طرف انھوں نے مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان حائل جغرافیائی فاصلے کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کوششیں بھی جاری رکھیں۔
بظاہر 30 جنوری 1970ء کو دو کشمیری نوجوان ہندوستا ن کا فوکر طیارہ اغوا کر کے لاہور لائے، بعدازاں عدالتی تحقیقات سے پتہ چلا کہ یہ ہندوستا ن کی سازش تھی۔ اس نے اس واقعے کو بہانہ بنا کر ہندوستان کے اوپر سے گزرنے والی پی آئی اے کی پروازیں بند کر دیں اس کا نتیجہ یہ نکلا دونوں صوبوں میں جو فاصلہ دوگھنٹے میں طے ہوتا تھا، اب (براستہ سری لنکا) چھ گھنٹے لگتے تھے اغوا کی یہ اسکیم ہندوستان نے بہت پہلے تیار کی تھی مگر اس پر عملدرآمد بھٹو مجیب مذاکرات کے ناکام ہونے پر کیا، اس طرح اسے ڈھاکا سے قریب ہونے کی وجہ سے کھلم کھلا مشرقی پاکستان میں مداخلت کا موقع ملا۔
سقوط ڈھاکا کے اسباب و واقعات میں غیروں نے تو اپنا کردار ادا کیا ہی تھا اپنوں کا کیا حصہ تھا کہاں کہاں اور کیا کچھ سازشوں کے تانے بانے بنے گئے تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھیں تو اصلاح احوال کی کہیں کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کا ایک حصہ شایع ہو گیا دوسرا حصہ ابھی باقی ہے اسے بھی شایع کردیا جائے تاکہ تمام حقائق بے نقاب ہو جائیں اور قوم کو معلوم ہو جائے کہ اصل مجرم اورسازشی کون تھے۔
قیام پاکستان میں مشرقی پاکستان نے اہم کردار ادا کیا۔ 1930ء میں مسلم لیگ اسی صوبے میں قائم ہوئی جب 1940ء میں پاکستان کی قرارداد منظور کرنے کے لیے ووٹ ڈالے گئے تو بنگال کے مولوی عبدالحق نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ قیام پاکستان کے بعد مغربی پاکستان کے سیاسی کرداروں نے مشرقی پاکستان کے لیڈروں سے ہتک آمیز سلوک روا رکھا، اسمبلیوں میں ان کے کسی مشورے اور تجویز کو خاطر میں نہیں لایاجاتا تھا اردوکو سرکاری زبان قرار دینے کا فیصلہ بھی اس نفرت میں اضافے کا سبب بنا، بنگالی قومیت کے جذبات کو ابھارا گیا۔ مشرقی پاکستان کے وسائل اور آمدنی مغربی پاکستان پوری طرح استعمال کر رہا تھا ۔
اس کے احساس محرومی کا بیج آہستہ آہستہ نفرت کے تنآور درخت میں تبدیل ہو رہا تھا۔ ایسے سنہری موقعے سے بھارت نے خوب فائدہ اٹھایا، بنگالی عوام کو اپنی ہمدردیوں کے فریب میں جکڑ کر بنگالی بہاری فسادات کرائے گئے۔ ڈھاکا یورنیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمود الحسن جو وفاقی وزیر بھی رہ چکے تھے، ان کا کہنا تھا ''کہ مشرقی پاکستان میں فسادات کا اصل سبب مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان وہ غلط فہمیاں ہیں جن سے نفرت پیدا کی جا رہی ہے'' ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اختلافات ختم کیے جاتے مگر ان سے لاپروائی برتی گئی جنرل یحیٰ خان کی آمریت کے سائے میں 9 دسمبر 1970ء کو الیکشن کرائے گئے۔
نتائج سامنے آئے تو مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی پارٹی عوامی لیگ نے اور مغربی پاکستان سے ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی نے کامیابی حاصل کی۔ مارچ کو قوانین کے مطابق ڈھاکا میں اجلاس منعقد ہونا تھا مگر پیپلزپارٹی نے بیٹھنے سے انکار کر دیا ان معاملات کو سلجھانے اور دونوں لیڈروں کو متحد کرنے کی خوبی یحیٰ خان میں نہ تھی۔ ان کی اپنی مصروفیات اور دلچسپیاں تھیں انھیں کوئی غرض نہ تھی کہ پاک فوج کس قدر نامساعد حالات میں مشرقی پاکستان کو سنبھالا دیے ہوئے ہے، باربار کے ٹیلیفون اور پیغامات دینے کے باوجود جنرل یحیٰ خان کوئی جواب نہ دیتے تھے بالاخر شیخ مجیب الرحمن کی شرانگیزی اور بغاوت کے باعث ملک دو حصوں میں بٹ گیا۔
زندہ قومیں ماضی کے غلط فیصلوں سے سبق سیکھ کر اپنے مستقبل کو بہتر بناتی ہیں لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری بیوروکریسی نے ماضی کی غلطیوں سے چشم پوشی کی، حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کبھی منظرعام پر نہ آسکی اس بارے میں بھی کچھ حقائق قوم کے سامنے آنے چاہیے کہ اب حالات پہلے جیسے نہیں رہے۔ آزاد عدلیہ اور میڈیا کی آزادی نے عوام کو صحیح حقائق کا ادراک دیا۔ عوام جانتے ہیں آج بھی صوبے اپنے وسائل کے استعمال کے لیے وفاق کے دست نگر ہیں۔
اب بھی ہم لسانی قومیتی فسادات کا شکار ہیں، دہشت گردی کے آسیب نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں جکڑ رکھا ہے۔ بھارت، وزیرستان اور بلوچستان میں کھلی مداخلت کا مرتکب ہو رہا ہے ان مسائل سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔ 16دسمبر پر ہم پاکستانیوںکو تقسیم کے عوامل پر تھوڑی دیر کو سہی غور ضرور کرنا چاہیے کہ برصغیر بٹوارے اور سقوط ڈھاکا کے بعد ملک موجودہ حالات میں تقسیم درتقسیم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہم کس طرح ان واقعات کو بھول سکتے ہیںجن کے چشم دید گواہوں نے کتابیں لکھ لکھ کر آنے والی نسلوں کے لیے عبرت کی تاریخ رقم کردی ہو۔