مذاکرات اور جوڈیشل کمیشن سے فرار نہ ہوں
سیاست کی تلخ حقیقتوں کا شعوراور فہم و ادراک اتنا آسان نہیں ہواکرتا۔اِس کے لیے وقت کی سنگلاخ چٹانوں سےگزرنا پڑتا ہے۔
KARACHI:
جس جوڈیشل کمیشن کے جلد بنائے جانے کا عمران خان کی جانب سے آجکل جو مطالبہ کیا جا رہا ہے اگر ہماری یاد اشت کمزور نہ ہو تو میاں صاحب نے اُسے آج سے چار ماہ پہلے اپنی 13 اگست والی تقریر میں ہی مان لیا تھا۔ لیکن خان صاحب اُس وقت اپنے تاریخی لانگ مارچ اور دھرنے کے مشن پر نکل چکے تھے اِس لیے اُنھوں نے اُسے لائقِ اعتناء بھی نہ گردانہ۔ اُس وقت وہ صرف میاں صاحب کے استعفیٰ سے کم کسی چیز پر رضامند نہ تھے۔
اِسی طرح جب حکومت اور دھرنے والوں کے درمیان ڈی چوک پر مذاکرات ہو رہے تھے تو اُسے بھی معطل عمران خان کی جانب ہی سے کیا گیا تھا۔ بلکہ پہلی بار ملنے والی زبردست عوامی پذیرائی کے سحر اور سرور میں وہ یہ کہتے ہوئے بھی سنے گئے کہ میاں صاحب تم چاہے کتنے ہی مذاکرات کر لو ہم تمہارا استعفیٰ لیے بغیر یہاں سے نہیں جائیں گے۔ سیاست کی تلخ حقیقتوں کا شعور اور فہم و ادراک اتنا آسان نہیں ہوا کرتا۔ اِس کے لیے وقت کی سنگلاخ چٹانوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اُنھوں نے تو ابھی مارشل لاء دور کے ظلم و ستم بھی نہیں جھیلے ہیں۔ اُن کی15 سالہ سیاسی زندگی میں 9 سال تو پرویز مشرف کے دور کے گزرے ہیں جس میں وہ کبھی بھی کسی احتجاجی تحریک کے سپہ سالار اور مردِ میداں بنکر سامنے نہیں آئے۔
بلکہ ابتدائی چند برس تو وہ پرویز مشرف کے زبر دست حامی اور پرستار بھی رہے۔ لیکن جب اُن کے اپنے وزیرِ اعظم بن جانے کی اُمیدیں دم توڑ تی گئیں تو وہ کچھ مایوس اور نا اُمید ہو کر اُن کی مخالفت کرنے لگے۔ لیکن یہ مخالفت قطعی طور پر ایسی ہر گز نہ تھی کہ وہ عوام کا جمِ غفیر لے کر ایوانِ صدر پر حملہ آور ہو جاتے۔ حالانکہ اُن دنوں پرویز مشرف خود اپنے چند فیصلوں کی وجہ سے سیاسی طور پر کچھ کمزور ہو چکے تھے اور اُن کے اندر وہ رعب اور دبدبہ بھی باقی نہ رہا تھا جو مارشل لاء کے شروع سالوں میں دیکھا گیا تھا۔
یہ جمہوریت ہی ہے جس میں وہ ایسی حکومت گرانے نکل پڑے ہیں جس نے بہر حال گزشتہ الیکشن میں واضح طور پر کامیابی حاصل کی ہے۔ اُس الیکشن میں ایک منظم دھاندلی ہوئی ہے یا نہیں اِس کا فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے۔ اِس سلسلے میں عاصمہ جہانگیر کی یہ بات بہت وزن رکھتی ہے کہ اُس الیکشن میں یقینا دھاندلی ضرور ہوئی لیکن کسی ایک فریق کے جانب سے منظم طور پر نہیں ہوئی جس کا جہاں بس چلا اُس نے اپنا کام کر دِکھا یا۔ اگرچہ دیکھا جائے تو 2002ء کے انتخابات میں اُس وقت کی حکومت کے جانب سے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت منظم دھاندلی کروائی گئی اور مسلم لیگ (ق) کے لیے راہ ہموار کی گئی۔ مگر خان صاحب اُس الیکشن کو بلا کسی حجّت اور لیت و لعل آسانی کے ساتھ ہضم کر گئے۔
عمران خان ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ 1970ء کے الیکشن کے سوا ہر الیکشن میں یہاں دھاندلی ہوئی ہے اور اب اُس کے راستے روکنے کا وقت آ گیا ہے۔ مگر یہ راستے کِس طرح مسدود کیے جائیں اِس کا طریقہ کار طے کرنے کے لیے جب پارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحاتی کمیٹی سر جوڑ کر بیٹھتی ہے تو تحریک ِ انصاف وہاں اپنے نمایندے بھیجنے سے انکار کر دیتی ہے۔ اِسی طرح کنٹینر پر مذاکرات بھی PTI نے ہی معطل کیے تھے مگر اب ساری کوتاہیوں اور ناکامیوں کا الزام حکومتِ وقت کے سر تھوپ دیا گیا ہے۔
خدا خدا کر کے اب حکومت اور تحریکِ انصاف کے درمیان مذاکرات پھر سے شروع ہو چکے ہیں۔ لیکن لگتا ہے دونوں فریق اِ س کام کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے قطعی طور پر سنجیدہ نہیں ہیں۔ دونوں کی کوشش یہی ہے کہ اِس کارِ خیر میں جتنی تاخیر ممکن ہو سکے کی جائے۔ کہا جاتا ہے کہ مذاکرات وہیں سے ہی شروع ہونگے جہاں سے معطل ہوئے تھے۔ اگر یہ بات درست ہے تو اب بات چیت کے لیے کوئی سقم باقی ہی نہیں ہونی چاہیے۔ چھ میں سے پانچ نکات پر تو سمجھوتہ پہلے ہو ہی چکا تھا اور چھٹے مطالبے سے تو خود عمران خان اب پیچھے ہٹ چکے ہیں۔ رہ گیا صرف ٹرم اور کنڈیشن کا بنایا جانا کہ کِس طر ح اِس سمجھوتے پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ وہ کوئی ایسا مشکل کام تو نہیں کہ اِ س میں مہینوں خرچ ہو جائیں۔
بات دراصل فریقوں کی عدم دلچسپی اور غیر سنجیدہ حکمتِ عملی کی ہے۔ دونوں فریق دانستہ و نا دانستہ طور پر اِسے طول دینا چاہتے ہیں۔ ایک فریق اپنی سیاسی ساکھ بڑھانے اور عوامی دباؤ کے تحت حکومت کو زیر کرنے میں فکر میں سرگرداں ہے اور دوسرا فریق عوام کی جانب سے اِس سیاسی عدم استحکام اور بحرانی کیفیت سے بیزار ہو جانے کی انتظار میں بے چین و بیقرار ہے۔ ادھر شیخ رشید جیسے کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ نہیں چاہتے کہ مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہوں اور یہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہو جائے۔ اُن کی خواہش تو یہی ہے کہ چپقلش اور نا اتفاقی کی فضاء جوں کی توں برقرار رہے اور پھر کوئی طالع آزماء اِس ساری صورتحال سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے جمہوریت کا بستر ہی گول کر دے۔
ایسے لوگ حکومت کے مخالف تو ضرور ہیں لیکن وہ عمران خان کے ہمدرد او ر خیر خواہ بھی نہیں ہیں۔ وہ صرف اپنی خواہشوں اور حسرتوں کے اسیر ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ سپریم کورٹ کے تحت کوئی جوڈیشل کمیشن بنایا جائے جو انتخابات میں مبینہ دھاندلی کا پتہ لگا سکے۔ کیونکہ جس مفروضے کو لے کر وہ یہ سارا فساد برپا کر چکے ہیں کہیں جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ اُس کے برخلاف آ گیا تو اُن کی ساری سیاست دھری کی دھری رہ جائے گی۔ اُنہی کے مشورے پر عمران خان صاحب یہ پہلے ہی فرما چکے ہیں کہ جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ اگر ہمارے خلاف آیا تو بھی ہم پارلیمنٹ میں نہیں جائیں گے۔ یعنی وہ اِس فیصلے کو ماننے سے انکار بھی کر سکتے ہیں۔
ابھی جوڈیشل کمیشن ترتیب بھی نہیں دیا گیا اور اُس کے متوقع فیصلوں پر نتائج منتج کیے جانے لگے۔ ویسے بھی جس ماحول میں اعلیٰ عدالتوں کے عزت و توقیر داؤ پر لگی ہوئی ہو اور جس کے فیصلوں کی مذمت کی جاتی رہی ہو وہاں کونسا باعزت جج کمیشن کا رکن بننے پر رضامند ہو گا۔ بڑی مشکل سے چیف الیکشن کمیشن کا انتخاب ممکن ہو سکا ہے۔ جب صرف ایک متفقہ غیرجانبدار شخص کے انتخاب میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں تو غیر جاندار جوڈیشل کمیشن کے ممبران کا انتخاب کوئی اتنا آسان اور سہل کام تو نہیں ہو گا۔ فریقین کو معاملہ اعلیٰ عدالت کی صوابدید پر چھوڑ دینا چاہیے اور وہ جو فیصلہ کرے اُسے دونوں فریق بخوشی قبول بھی کریں۔ فیصلہ اگر حکومت کے خلاف آئے تو وہ فوراً اُس پر عملدرآمد کرتے ہوئے اقتدار سے سبک دوش ہو جائے۔
اِسی طرح فیصلہ اگر عمران خان کی توقعات کے مطابق نہ آئے تو خان صاحب بھی اُسے من و عن تسلیم کرتے ہوئے اپنے احتجاج کو لپیٹ کر حالات کو نارمل بنانے میں اپنا مثبت رول ادا کریں۔ ضد اور انا کے خول سے باہر نکل کر حقائق کو کُھلے دل سے تسلیم کریں اور اپنی موجودہ سیاسی مہم کو اگلے انتخاب تک موخر کر دیں۔ آیندہ انتخابات میں دھاندلی کو روکنے کے لیے اپنی سفارشات اصلاحاتی کمیٹی کو دیں اور صوبہ پختون خوا میں ترقیاتی کاموں پر مکمل توجہ مرکوز کر کے اُسے ایک مثالی صوبہ بنا کر دِکھائیں۔
وطنِ عزیز کو بحرانی کیفیت سے باہر نکالیں اور وفاقی حکومت کو آئین و قانون کے مطابق اپنا وقت گزارنے دیں۔ جائز اور مثبت تنقید سے حکمرانوں پر اپنا دباؤ بر قرار رکھیں۔ جس طرح اُنکے دباؤ کے سبب حکومت تیل اور بجلی کی قیمتیں کم کرنے پر مجبور ہوئی اِسی طرح اُسے آیندہ بھی عوام الناس کی بھلائی کے اِسی دائرہِ فکر میں گھیرے رکھیں۔ تا کہ وہ کرپشن اور مالی بدعنوانیوں جیسی کاروائیوں میں خود کو ملوث نہ کر پائے۔ اگر وہ انتخابی اصلاحات کے تحت اگلے انتخابات صاف اور شفاف کروا پائیں اور جمہوریت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کر دیں تو اُن کا یہی عمل اِس ملک و قوم پر ایک بڑا احسان ہو گا۔ بصورتِ دیگر جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کو نہ مان کر اور مسلسل ہٹ دھرمی، احتجاج اور اشتعال بازی سے وہ اپنا بھی نقصان کرینگے اور اِس مظلوم قوم کا بھی۔