اپنا اپنا قبلہ
ایک ایسے وقت میں جب وطن عزیز کو اندرونی و بیرونی محاذ پر سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے
لاہور:
ایک ایسے وقت میں جب وطن عزیز کو اندرونی و بیرونی محاذ پر سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے بھارت کنٹرول لائن کی مسلسل خلاف ورزیوں کے ذریعے مشرقی سرحدوں پر جارحیت کے لیے پر تول رہا ہے اور بھارتی قیادت پاکستان سے مذاکرات کا آغاز کرنے سے گریزاں ہے جب کہ مغربی سرحد پر افغانستان کے ساتھ پر امن اور دوستانہ تعلقات کی بیل تا حال منڈھے چڑھنے کی منتظر ہے۔
اندرون ملک دہشت گردی کے عفریت نے پورے ملک کو اپنے خونی پنجوں میں جکڑ رکھا ہے پاک فوج دہشت گردوں اور شرپسند عناصر کے خلاف پوری شدت سے برسر پیکار ہے تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ ملک کی تمام سیاسی و مذہبی قوتیں اور عوام اس مشکل وقت میں اپنے اختلافات کو بھلا کر ملک، قوم اور جمہوریت کے مستقبل کے لیے خدمات انجام دیتے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت کے ایک حصے میں جوش و جنون کا ایسا طوفان برپا ہے جس سے مہذب و باوقار جمہوری اداروں کی پامالی کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی اور اس حوالے سے صرف تحریک انصاف ہی نہیں بلکہ ملک کی سب سے مقبول اور چاروں صوبوں میں اپنا ووٹ بینک رکھنے والی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کو بھی شدید دھچکا لگا اسی طرح مسلم لیگ ق، اے این پی اور دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی دھاندلی کے جھٹکے برداشت کرنے پڑے، تاہم جمہوریت کے استحکام اور اس کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے اپوزیشن جماعتوں نے دھاندلی کا کڑوا گھونٹ پی لیا۔ اوائل میں تحریک انصاف نے بھی صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔
کے پی کے میں اپنی حکومت بنائی اور اس کے اراکین قومی اسمبلی نے بشمول عمران خان حلف بھی اٹھایا بعد ازاں عمران خان نے چار حلقوں میں انتخابی دھاندلی کو ٹارگٹ بنایا اور الیکشن کمیشن و حکومت سے مطالبہ کرتے رہے کہ وہ ان چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کروانے کے انتظامات کرے، خان صاحب کو یقین تھا کہ مذکورہ حلقوں میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے ذریعے پی ٹی آئی کے ارکان کو ہروایا گیا ہے ان کا مطالبہ نہیں مانا گیا، نتیجتاً عمران خان نے لانگ مارچ اور دھرنے کے ذریعے حکومت پر دباؤ ڈالنے اور ''ایمپائر'' کی مدد سے نواز حکومت کے خاتمے کا پلان بنایا لیکن پی ٹی آئی کے صدر جاوید ہاشمی کی ''باغیانہ آواز'' نے ان کا پلان ''اے'' فیل کر دیا۔
پلان ''بی'' کے تحت خان صاحب نے پورے ملک میں بڑے بڑے جلسے کر کے نواز حکومت کو ہلانے کی کوشش کیں لیکن یہ وار بھی خالی گیا پھر 30 نومبر کو عمران خان نے اپنے پلان ''سی'' کا اعلان کیا جس کے تحت فیصل آباد، لاہور، کراچی اور پھر پورے ملک کو بند کرنے کا پروگرام ہے۔ فیصل آباد میں احتجاج کا پہلا مرحلہ خون آشام ثابت ہوا پاکستان کا مانچسٹر کہلانے والا شہر فیصل آباد سارا دن بلوائیوں کے نرغے میں رہا۔ پی ٹی آئی کے شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ احتجاج کا مقصد ''شٹر ڈاؤن'' نہیں ہے لیکن 8 دسمبر کو پوری دنیا نے دیکھا کہ فیصل آباد میں کاروبار زندگی کو معطل کرا دیا گیا۔
ن لیگ اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کے درمیان تصادم کے واقعات ہوئے، فائرنگ کے نتیجے میں پی ٹی آئی کا ایک کارکن اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اگرچہ پی ٹی آئی نے پر امن احتجاج کرنے کے بجائے ہنگامہ آرائی کو ترجیح دی اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اس کے ٹائیگرز بھی کسی سے کم نہیں تاہم حکومت نے بھی جواب میں صبر و تحمل سے کام لینے کی بجائے جوابی حملہ کر کے ماحول کو مزید خراب کر دیا۔ اپنے کارکن کی ہلاکت پر پی ٹی آئی نے لاہور، کراچی اور ملک کے دیگر شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے۔
فیصل آباد کے واقعے نے ملک کی سیاسی قیادت کے سنجیدہ حلقوں کو فکرمندی میں مبتلا کر دیا۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے بجا طور پر کہا ہے کہ میاں صاحب آگے بڑھیں اور مسئلے کا حل نکالیں، جمہوریت کو کچھ ہوا تو ملک 50 سال پیچھے چلا جائے گا۔ فیصل آباد کے واقعے پر وہ قومی اسمبلی میں خطاب کر رہے تھے۔ انھوں نے مزید کہا کہ مذاکرات ہی مسائل کا حل ہیں دشمن ملک سے بھی مذاکرات کی ٹیبل پر آنا پڑا۔ فیصل آباد کا واقعہ کارکن کو کارکن سے لڑانے کی خطرناک خواہش ہے، خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ میرے کہنے پر ہی وزیراعظم نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو پی ٹی آئی سے مذاکرات کا ٹاسک دیا ہے۔
شاہ صاحب نے بالکل درست کہا کہ آج پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے نہ حکومت کو فرق پڑتا ہے اور نہ عمران خان کو لیکن غریب آدمی کو اور براہ راست ملک کو نقصان ہو رہا ہے۔ انھوں نے مذاکرات کے لیے ذاتی کردار ادا کرنے کی بھی پیش کش کی اور عمران خان سے کہا کہ وہ بھی پارلیمنٹ میں آ کر اپنا کردار ادا کریں۔ مقام اطمینان ہے کہ حکومت نے پی ٹی آئی کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اسحاق ڈار اور احسن اقبال کو پی ٹی آئی سے مذاکرات کا ٹاسک سونپا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی مذاکرات شروع کرے اور احتجاج کا پروگرام منسوخ کر دے۔ اگرچہ عمران خان نے حکومت کی مذاکرات کی دعوت کا خیر مقدم کرتے ہوئے مثبت اقدام قرار دیا ہے تاہم ان کا موقف ہے کہ وہ احتجاج ختم کرنے کا فیصلہ اس صورت میں کریں گے جب حکومت جوڈیشل کمیشن تشکیل دے دے گئی بصورت دیگر مذاکرات کے پہلو بہ پہلو احتجاج بھی جاری رہے گا۔ جمہوریت پسند حلقوں اور امن کے خواہاں طبقوں نے بھی حکومت، پی ٹی آئی مذاکرات کو مثبت طرز عمل قرار دیا ہے ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ فریقین کو صبر و تحمل، برداشت اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے، محض دکھاوے کے لیے کیے گئے مذاکرات کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔
حکومت اور پی ٹی آئی دونوں کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے، درپیش چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ اور سنجیدگی و حب الوطنی کے تقاضوں کو پورا کرنے کی ضرورت ہے، ٹکراؤ اور تصادم سے خلفشار اور نفاق پیدا ہو گا حکومت عوام اور سیاسی قیادت میں دوریاں اور فاصلے پیدا ہوں گے جس کا فائدہ تیسری قوت اٹھائے گی۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے ماضی پر ایک نظر ڈال لیں یہ دسمبر کا مہینہ ہے اور اس کی 16 تاریخ کو اندرونی انتشار، سیاسی قیادت کی رسہ کشی، لسانی تفریق اور علیحدگی کی خواہش نے جو طوفان اٹھایا ہے ہمارا مشرقی بازو کٹ کر ہم سے جدا ہو گیا اس زخم سے آج تک یادوں کا لہو ٹپک رہا ہے پھر ایسے کسی سانحے کو رونما ہونے سے پہلے ہی اپنا اپنا قبلہ درست کر لینا چاہیے۔