ہمارا نائن الیون

کوئی طاقتورملک دوچیزوں کوبرداشت نہیں کرسکتا۔ ایک اپنے بچوں پرحملہ اوردوسرااپنی خواتین کاقتل۔


راؤ منظر حیات December 19, 2014
[email protected]

KARACHI: گھاؤبہت شدیدہے۔ مگرمقتدرطبقے کے محض جذباتی بیانات۔ نقصان ہمارے جیسے لوگوں کاہوااوربرداشت بھی ہمیں ہی کرناہے۔ان کے بچے توباہرکی دنیامیں محفوظ ہیں۔یہ وقت ماتم کاضرورہے مگراصل میں یہ ادراک کی گھڑی ہے۔ اپنے آپ اوراپنے آقاؤں کی اصلیت پہچاننے کاوقت۔میں وثوق سے عرض کرناچاہتاہوں۔اس حادثہ پرجتنا بھی افسوس کیاجائے وہ کم ہے۔مگرکیایہ منزل محض افسوس کی ہے۔ ذرا سوچیے،فکرکیجیے،تدبرکیجیے۔آپ کوحیرت ہونی شروع ہوجائے گی۔واقعہ کی اطلاع پہلے سے موجودتھی۔

انٹیلی جینس ایجنسیوں کی جانب سے مکمل اورباوثوق خبرموجود تھی۔ اسکولوں کوٹارگٹ بنانے کی خبرکم ازکم بیس سے پچیس دن پہلے دے دی گئی تھی۔ پھرایساکیسے ممکن ہوا؟سوالیہ نشان ہمیشہ موجود رہے گا؟مگرمعاملہ یہاں سے شروع ہوتاہے۔تین دنوں میں ریٹائرڈفوجی اورفضائیہ کے افسران سے سوال وجواب ہوتے رہے۔ ان کے چندسوالات بہت سنجیدہ تھے۔کم ازکم مجھے بہت کچھ سوچنے پرمجبورکردیامگرمیرے سوچنے سے کچھ بھی نہیں ہوتا۔صاحبان!کچھ بھی نہیں۔

یہ سانحہ صبح جس وقت پیش آرہاتھا،اس وقت تمام دہشت گردافغانستان میں کنٹرکے مقام سے رابطہ میں تھے۔ انھیں وہاں سے احکامات جاری کیے جارہے تھے۔ یہ رابطہ عربی زبان میں تھا۔ہمارے پاس ہرطرح کی تکنیکی اورعسکری طاقت موجودتھی کہ ہم ان کے قائدین کوختم کرسکتے تھے۔ ہمیں محض افغانستان کے صدراورایساف کے کمانڈر کو اعتمادمیں لیناتھا۔ یہ کتنی دیرکی بات ہے۔ شائددس منٹ سے لے کرآدھ گھنٹے کی۔یہ کرب ناک مراحل جاری تھے۔اس نازک وقت پرفیصلے کرنے کے لیے ہمت درکارتھی۔

کمزور قائدین ہمیشہ وقت گزرجانے کے بعدفیصلے کرتے ہیں۔یہ بالکل درست ہے کہ ہمارے فوجی کمانڈودہشت گردوں کو جہنم رسیدکرنے میں مصروف تھے۔مگرجہاں فیصلہ ہوناچاہیے تھا،اُس جگہ پرتوکوئی ایسی وجہ نہیں تھی کہ قاتلوں کے اصل محرکین کو"Hot Pursuit"میں نہ دبوچا جاسکے؟ ہمارے پاس انتہائی طاقتور فضائیہ ہے۔ پشاورسے کنٹرکا سفر دس یاپندرہ منٹ کاہوگا۔ ہم کیوں خاموش رہے؟ میرے پاس یہ سوال موجودہے مگر میرے پاس اس کاکوئی جواب نہیں۔ بین الاقوامی حدبندیوں کوسمجھتاہوں مگرہمارے پاس ہرطریقے کا قانونی جواز موجودتھا۔ایسے کیوں نہیں ہوپایا، میرے پاس جواب نہیں۔

میری جتنی بھی دفاعی ماہرین سے بات ہوئی، سب کی رائے کے مطابق ہماراردِعمل تاخیرسے ہوااوروہ بھی بے جان۔میں سیاست کے متعلق بالکل نہیں لکھتا۔مگرمیں یہ جانتا ہوں کہ اگلے دن کی گورنرہاؤس کی میٹنگ سے پہلے تمام وہ دہشتگردجوسپریم کورٹ تک اپنا کیس ہارچکے تھے،تختہ دارپر لٹکائے جاسکتے تھے۔مگر اس کوبھی ایک پروسس(Process) میں ڈال دیاگیا۔قوم یہ بھی جان چکی ہے کہ پھانسی کی سزاپر عملدرآمد کا فیصلہ صرف اور صرف جنرل راحیل شریف کے کہنے پرہوا ہے۔ باقی مکمل طفل تسلیاں ہیں۔

ایک اوربات جو میرے جیسے طالبعلم کے لیے عجوبہ تھی وہ یہ کہ ہمارے پاس تیرہ سال کی قتل وغارت کے بعدکوئی ایکشن پلان موجود نہیں ہے۔ کوئی ایساجامع منصوبہ ہی نہیں ہے کہ ہم دوچار گھنٹوں میں اپنے دل پرکیے گئے وار کا بدلہ لے سکیں۔ بخدا! کیا لکھوں۔ آج اس حادثہ کو تیسرادن ہے مگرہم کچھ نہیں کرپائے۔ اب ایک کمیٹی بیٹھ کرجائزہ لے گی۔کس چیزکا۔ جنہوں نے درندوں کوہمارے معاشرے میں قتل وغارت کے لیے کھلاچھوڑ رکھا ہے، ان سے حساب کون لے گا؟ جناب!دشمن ہمارے اندر موجود ہے۔، ہمیں معلوم بھی ہے مگرہم کچھ نہیں کرسکتے کہ سیاست اورجمہوریت کی شان میں گستاخی ہوجائے گی۔

کوئی طاقتورملک دوچیزوں کوبرداشت نہیں کرسکتا۔ ایک اپنے بچوں پرحملہ اوردوسرااپنی خواتین کاقتل۔میں آپ کودوواقعات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ایک چھ سے سات دہائیوں پہلے کااوردوسرا چندبرس قبل کا۔دوسری جنگ شروع ہوئی توانگلستان ایک عالمی طاقت تھا۔جنگ میں ابتدائی طور پرجرمنی کوحیرت انگیزفتح نصیب ہوئی۔ یورپ کاکافی حصہ اس کے قبضہ میں تھا۔یورپ میں ہٹلرکی فتح صاف نظرآرہی تھی۔ جاپان جرمنی کے ساتھ کھڑا تھا۔جاپان کی افواج بھی برماتک پہنچ چکی تھیں۔ امریکا ایک سُپرپاوربن چکا تھا۔مگراس جنگ میں وہ ابتدائی طورپربالکل شریک نہیں تھا۔ اس کے ہتھیاروں کے تاجر ہر طرح کے ملکوں کواسلحہ بیچ کربے حدمنافع حاصل کر رہے تھے۔

کچھ مورخ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس پوری جنگ میں امریکی مفاد اصل میں محض تجارتی منفعت تھی۔ یہ درست ہے کہ اس کی تمام ہمدردیاں انگلستان کے ساتھ تھیں مگروہ جنگ میں بذات خود فریق نہیں بنناچاہتاتھا۔جاپان کی نیوی نے پرل ہاربر پر حملہ کی بھرپورمنصوبہ بندی کی۔ جاپان کی قیادت متفق تھی کہ اگروہ امریکا کی نیوی کی کمرتوڑدیتے ہیں توامریکا کچھ نہیں کرپائے گا۔اس کی فضائیہ اتنی دورتک وارکرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ پرل ہاربردراصل امریکی نیوی کاسب سے بڑااڈا تھا۔ جاپان نے جس وقت پرل ہاربرپرحملہ کیا،امریکی قیادت سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ کوئی اس طرح کی جرات کرسکتاہے۔یہ ان کے قومی وقارپربہت بڑی چوٹ تھی۔اس کے بعدامریکا اس دوسری جنگ عظیم میں خودشریک ہوا۔

جاپان کی کمرتوڑدی گئی۔ اس کی تمام افواج کوختم کردیاگیا۔ دوشہروں پرآج تک کی جنگ کی تاریخ کاسب سے بھیانک ہتھیارآزمایاگیا۔لاکھوں جاپانی ایٹم بم کی نذرہوگئے۔دوشہر،ہیروشیمااورناگاساکی صفحہ ہستی سے مٹادیے گئے۔جاپان کوعملی طورپرامریکا کی ایک طفیلی ریاست بنادیاگیا۔جنگوں کاصرف ایک مقصدہوتاہے اوروہ ہے مکمل فتح۔ اس مقصدکوحاصل کرنے کے لیے ملک ہرطرح کی قربانی دینے کے لیے تیاررہتے ہیں۔طاقتورملک اپنی بے عزتی کابدلہ لے کررہتے ہیں۔معاف فرمائیے!ان میں کوئی اخلاقیات آڑے نہیں آتیں۔مگروہ امریکا تھااورہم پاکستان۔ شائد دونوں ملکوں کاکوئی موازنہ نہیں۔ شائدہم ایک کمزورملک ہیں۔ مگرصاحبان!ہم چندہزارطالبان کے سامنے توقطعاًبے بس نہیں نہ ہی کمزور ہیں پھر اتنی تاخیر کس بات کی؟کیاہم دوسرے حادثہ کے منتظرہیں۔

9/11کے بعد آج کی دنیاکوتبدیل کردیاگیا۔یہ دوسرا واقعہ ہے جوپوری دنیاپراثراندازہوا۔دنیاکی تاریخ اور واقعات دوحصوں میں تقسیم ہیں۔ایک ستمبر2001,11سے پہلے اور ایک اس کے بعدکی۔ اس دن8:46صبح سے لے کردس بج کر اٹھائیس منٹ تک امریکا کی سرزمین میں خوفناک ترین دہشت گردی برپاہوئی۔میں جزئیات میں نہیںجاناچاہتا کیونکہ ہرایک کوان کاعلم ہے۔ ورلڈٹریڈسنٹرجو ایک سودس منزلہ عمارت تھی،اس میں دو جہازٹکرادیے گئے۔تین گھنٹے کی قلیل مدت میں یہ عالیشان عمارت خاک کاڈھیربن چکی تھی۔

ورلڈٹریڈسنٹرکے اردگردجتنی بھی عمارتیں تھیں،وہ بھی برباد ہوکر رہ گئیں۔47منزلہ ٹریڈٹاورکی بلڈنگ بھی تباہ ہوچکی تھی۔آپ ملاحظہ کیجیے۔دنیاکے موثرترین دفاعی ادارے، پینٹاگون کوبھی خاصا نقصان پہنچااوراسکامغربی حصہ تباہ ہوگیا۔چاراغواشدہ جہازوں میں سے ایک کوامریکا کی فضائیہ نے گراڈالا،کیونکہ وہ وائٹ ہاؤس کی طرف جارہا ہے۔ دہشت گردی کی اس واردات میں انیس ہائی جیکرملوث تھے۔ 2996شہری مارے گئے۔چھ ہزارسے زیادہ کی تعدادمیں لوگ زخمی ہوئے۔ امریکا کے تمام ائیرپورٹ بندکردیے گئے۔اس حملہ میں امریکا کوبے انتہامالی نقصان ہوا۔تمام نقصانات سے بڑھ کر امریکی حکومت کوپہلی باریہ احساس ہواکہ کوئی دہشت گردتنظیم ان کے معصوم شہریوں کوموت کے گھاٹ اتارسکتی ہے۔

ان کے شہری محفوظ نہیں ہیں!ان کی عورتیں اوربچے ایک تنظیم کے ہاتھوں قتل ہوسکتے ہیں۔یہ اس سپرپاورکی عزتِ نفس پربہت شدیدحملہ تھا۔وہ کسی بھی صورت میں دنیاکویہ تاثرنہیں دے سکتے تھے کہ امریکا کے شہری اپنے ہی ملک میںغیرمحفوظ ہیں۔ ان کے حکومتی فیصلوں سے آج کی دنیاکوتبدیل کردیا۔میں آپ کودوبارہ عرض کروں کہ یہ تمام واقعات8:46سے شروع ہوئے۔صرف سترہ منٹ کے قلیل عرصے میں امریکی فضائیہ کےF-15طیارے ہوامیں موجود تھے۔10:20پرامریکی صدرنے حکم دیدیاتھاکہ ملک کوبچانے کے لیے اگرامریکی فضائیہ کوشبہ تک ہوتاہے کہ کوئی سویلین طیارہ اغواکرلیاگیاہے،تووہ اسے بے دریغ نشانہ بناسکتی ہے۔ SCANTA سیکنٹا پروگرام کوفی الفورنافذکیاگیا۔امریکا کی تمام فضائی حدود کو بند کردیاگیا۔

نزدیکی ممالک کے جہازوں کوبھی اڑنے سے روک دیاگیا۔ امریکی صدرجارج بُش نے پہلی تقریرمیں دہشت گردی کے اس بھیانک واقعہ کاانتقام لینے کااعلان کردیا۔اس کے بعدامریکی صدرکی ریٹنگ 90%ہوگئی۔وہ اپنے ملک کاسب سے مقبول ترین صدربن گیا۔اس کے بعد جوکچھ ہوا،وہ ہمارے سامنے ہے۔ افغانستان اورکئی ممالک تباہ کردیے گئے۔دنیاکے مضبوط ترین ڈکٹیٹرمچھروں کی طرح پکڑکا ماردیے گئے۔جنگ کے اندر امریکی افواج نے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کوقتل کرڈالا۔ عراق، شام، لیبیا اور دیگر ممالک راکھ کے ڈھیربنادیے گئے۔ تیرہ سال گزرنے کے بعدیہ جنگ آج بھی جاری ہے۔آپ امریکی حکومت کولاکھ بُرابھلاکہیں۔آپ ان کے خلاف جلوس نکالیں،ہڑتالیں کریں مگرانھوں نے اپنے تین ہزارسے کم لوگوں کاانتقام لیا۔ انھوں نے9/11کے بعداپنے پورے ملک میں دہشت گردی کی معمولی سی واردات بھی کامیاب نہ ہونے دی۔ انھوں نے یہ سب کچھ کیوں کیا۔صرف اس لیے کہ ثابت کرسکیں کہ وہ اپنے عام شہریوں کی حفاظت کے لیے کسی بھی حد تک جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں!

میں اپنے ملک کی طرف آتاہوں۔ میں اپنی حکومتی رویے کوپرکھناچاہتاہوں۔ ہمارے پچاس ہزارفوجی اورشہری دہشت گردی کی نذرہوچکے ہیں۔پورے معاشرہ میں خوف اورعدم تحفظ کی کیفیت ہے جواب پختہ ہوچکی ہے۔تین دن قبل ہمارے معصوم بچوں کوذبح کیاگیا۔جب وہ تڑپ رہے تھے توان کے سینوں میں گولیاں ماری گئیں۔ ہماری خواتین کوزندہ جلادیاگیا۔ صبح گیارہ بجے تک دہشت گردی کے قائدین کابخوبی علم ہوچکاتھا۔ ہمیں یہ بھی معلوم تھاکہ وہ ہمسائیہ ملک کی کس جگہ پرموجودہیں۔

وہ تمام درندے اپنے صدرمقام سے وضاحت سے ہمارے بچوں کوقتل کرنے کے احکامات دیتے رہے۔ ہم نے تمام صلاحیت ہونے کے باوجوداتنی خوفناک درندگی کوترتیب دینے والوں کے خلاف کوئی فوری کارروائی نہیں کی۔ ہم نے کسی کوبھی فوری سبق نہیں سکھایا۔ ہماری قیادت محض بیانات تک محدودرہی۔ قوت ارادی اورغیرمعمولی جرات کاکوئی مظاہرہ نظرنہیں آیا بلکہ اس دن ہمیں یہ بھی پتہ چلاکہ ہمارے پاس سرے سے کوئی ایکشن پلان ہی موجودنہیں ہے۔ آج کل ہم ایکشن پلان بنانے میں مصروف ہیں۔کیایہ واقعی زندہ قوم کاردعمل ہے۔ ہمارا9/11توگزرگیا، تھوڑے دن کے بعدہم اس سانحہ کوبھی بھول جائیں گے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں