لہو کی کہانی
دنیا کےہر مذہب ہرقوم و نسل میں معصوم بچوں کو بے قصورو بےخطا مارنےکی اجازت نہیں ہےاوراسلام میں تو بالکل اجازت نہیں ہے۔
سوچ رہی ہوں کہ کہاں سے شروع کروں اور کس طرح اپنے جذبات کا اظہار کروں اور کیسے دل پر لگنے والی برچھی اور سینے سے رستا ہوا لہو دکھاؤں، لیکن بھلا لہو کی نمائش کی ضرورت ہی کیا ہے، معصوم جانوں کا لہو تو میرے قلم میں شامل ہوگیا ہے اور لفظ لہو ہی تو اگل رہا ہے۔
معصوم، نہتے، پھول جیسے، بے بس و بے کس بچے، کوئی مددگار نہیں، کوئی بچانے والا نہیں تن تنہا ہر بچہ اپنی جنگ آپ لڑتا رہتا، اپنی حفاظت کے لیے کرسیوں اور ڈیسکوں کے پیچھے کونے کھدروں میں چھپتا رہا، لیکن درندوں نے تاک تاک کر ان کی چھوٹی چھوٹی ٹانگوں، چھوٹے ہاتھوں اور سروں پر گولیاں ماریں انھیں لہولہان کردیا، اس طرح تو ان جانوروں کو بھی نہیں مارا جاتا ہے جن سے جان کا خطرہ نہ ہوا، گھر سے بلی اور پپیز کو نکالنے کے لیے بھی انھیں ڈرایا جاتا ہے، ہولے سے چپل یا لکڑی سے مارا جاتا ہے کہ کہیں مر نہ جائیں، اور بے زبان کا خون ناحق مارنے والے کی گردن پر ہو اور یہ گناہ اللہ کی ناراضگی کا سبب بن جائے۔
دنیا کے ہر مذہب ہر قوم و نسل میں معصوم بچوں کو بے قصور و بے خطا مارنے کی اجازت نہیں ہے اور اسلام میں تو بالکل اجازت نہیں ہے، دوسرے مذاہب کے لوگ خصوصاً یہودیوں اور عیسائیوں نے عراق و فلسطین کی جنگ میں بچوں کو بے دردی سے قتل کیا، ہزاروں بچے گھر سے بے گھر ہوئے اور انھیں بحیثیت غلام کے فروخت بھی کیا گیا، تاتاریوں نے شہروں کی آبادی کو اپنے پیروں تلے مسل ڈالا، مگر صرف اور صرف بچوں کو ایک جگہ جمع کرکے ان کے ننھے نازک دلوں پر نہ دہشت کے گولے برسائے اور نہ ان کے ابدان زخمی کیے۔ لیکن یہ دہشت گرد کون سے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں، نام تو ان کے مسلمانوں جیسے ہیں لیکن مسلمان تو دور کی بات انسان ہی نہیں ہیں جنگل کے خونخوار درندوں سے بدتر۔
یوں لگتا ہے کہ انھوں نے آپریشن ضرب عضب کی شاندار کامیابی کا بدلہ لیا ہے یا بدلہ لینے کے لیے اکسایا گیا ہے۔ ان کے پاس جدید ہتھیار تھے، تمام معلومات تھی، اس بات پر قوم متفق ہے کہ ان مذموم مقاصد اور بربریت و سفاکی کے پیچھے انڈیا کا ہاتھ ہے، بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اس قسم کے مظالم میں گجرات کے واقعے کے حوالے سے مخصوص قسم کی شہرت رکھتے ہیں، بھارت کے سابقہ حکمران بھی پاکستان کی بقا کے دشمن رہے ہیں اور ان کا سارا زور ان کے منصوبے پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔
دسمبر کا مہینہ ایسا ماہ غم بن گیا ہے، جس میں دل پر کاری زخم لگائے گئے 22 نومبر سے 16 دسمبر تک کی کہانی بڑی ہی زخم خوردہ ہے، اس کہانی کا انجام سقوط ڈھاکا کی شکل میں تاریخ کے مہینے پر سیاہ دھبے کی مانند نمایاں ہے، ابتدائی دنوں میں ہی بھارت نے کئی ماہ کی مسلسل جھڑپوں کے بعد بغیر کسی اعلان جنگ کے مشرقی پاکستان پر تین اطراف سے بھرپور حملہ کیا لیکن ہماری بہادر فوج نے بھارت کے 18 ٹینکوں کو تباہ کیا تھا اور حملے کو پسپا کردیا تھا۔ 27 نومبر کو افواج پاکستان نے دشمن کے 5 حملوں کو شکست فاش دی اور اسی طرح 16 دسمبر تک ہماری دلیر فوج نے شجاعت کے جوہر دکھائے لیکن حالات اور واقعات بتاتے ہیں کہ ہوس اقتدار نے پاکستان کو دولخت کردیا اور یہ حقیقت بھی سامنے آگئی کہ ہندوستان پاکستان کا ازلی دشمن ہے۔
اس نے ہمیشہ ہی ایسی چالیں چلی ہیں جن کے تحت پاکستان کی بنیادوں میں دراڑ ڈالی جائے، وہ اپنے مقاصد میں کامیاب بھی ہوا ہے لیکن پاکستان کی عظیم ترین فوج جس کا شمار دنیا بھر میں اول نمبر پر آتا ہے، پاکستان، افواج کے مثالی کارناموں کی بدولت سلامت ہے اور سلامت رہے گا۔یہ مٹھی بھر دہشت گرد پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، آج پاکستان کا بچہ بچہ پرعزم ہے کہ وہ تخریب کاروں اور دہشت گردوں کے سامنے کبھی گھٹنے نہیں ٹیکے گا، پشاور آرمی پبلک اسکول کی مثال سامنے ہے جہاں بلال، مشہود اور دوسرے بچوں نے آرمی میں خدمات انجام دینے اور دشمنوں سے بدلہ لینے کی بات کی ہے۔
یہ بات بھی بڑی ہی افسوسناک ہے کہ پاک سرزمین پر ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور معصوم و بے قصور بچوں کی شہادت پر اظہار افسوس کے لیے ان کے پاس ایک لفظ نہیں ہے ان کا یہ رویہ محب وطن پاکستانیوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے۔ اقلیتوں کو ہی دیکھ لیجیے کہ کس طرح انھوں نے ہمدردی کا اظہار کیا اور ایک قوم ہونے کا ثبوت دیا کرسمس قریب ہے، خوشیوں کا دن ہے عیسائیوں کا مذہبی تہوار ہے لیکن ان پاکستانیوں نے اپنی تقریبات کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا اور بچوں کے غموں میں برابر کے شریک رہے، ایسے ہی مواقعوں پر پتا چلتا ہے کہ کس میں کتنی انسانیت ہے اور کون سچا ہے اور کون منافق؟ محض مذہب کا لبادہ اوڑھ کر ایسے لوگ پاکستان سے تمام فائدے حاصل کر رہے ہیں۔ پاکستان کے تقریباً تمام علماء کرام نے اس مذموم واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔
ظاہر ہے کہ جانے والے لوٹ کر واپس نہیں آتے لیکن غمزدہ، تڑپتے، سسکتے لواحقین کا تھوڑی سی دیر کے لیے غم ذرا کم ہوجاتا ہے ان کا دکھ ان کے اپنے بانٹ لیتے ہیں۔ ورنہ تو ساری عمر کی جدائی اور افسوس ان کے سینے میں اتر جاتا ہے وہ بچے اپنے والدین کا دل تھے، سہارا تھے، گھر میں رونق اور خوشیاں بخشنے کا باعث تھے اور آج وہ دور بہت دور چلے گئے ہیں، پاکستان کی ہر ماں کا دل تڑپ رہا ہے بالکل طلبا کی حقیقی ماؤں کی طرح کہ وہ بھی ماں ہیں اولاد کی محبت اور ان کی تکلیف دل و روح کی گہرائیوں سے محسوس کرسکتی ہیں۔
زندگی سے دور چلے جانے والے بچے 16 دسمبر کی صبح خوشی خوشی اپنی ماں کی دعاؤں اور بابا کی انگلی تھام کے گھر سے باہر نکلے تھے، پانی کی بوتل، لنچ باکس اور بستے شانوں پر ڈالے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے، کسے پتا تھا کہ ہاف ٹائم ہونے سے پہلے ہی وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں گے، وہ ناشتہ، وہ دودھ کا گلاس اور جیم لگا سلائس، ان کا آخری دانہ پانی ہوگا۔ دہشت گرد مکمل تیاری کے ساتھ آئے تھے، آڈیٹوریم میں طلبا ڈیفنس کی ٹریننگ اور الوداعی پارٹی کے لیے جمع تھے۔ خونی اپنی منصوبہ بندی کے تحت اسکول میں داخل ہوئے گارڈ کو شہید کرکے آڈیٹوریم اور جماعتوں کا رخ کیا۔ طلبا اور اساتذہ نے کمروں کے دروازے بند کرلیے۔
مگر یہ درندے دروازے توڑ کر اندر داخل ہوگئے اساتذہ اور خاص طور پر پرنسپل طاہرہ قاضی نے بچوں کو بچانے کی کوشش کی لیکن انھیں بھی ابدی نیند سلا دیا گیا۔ خواتین نے شجاعت و بہادری کی اعلیٰ مثال قائم کردی، ایسی مثال جسے زمانہ کبھی فراموش نہیں کرسکتا ہے وہ غازی کے درجے پر بھی فائز ہوئیں اور شہادت نے بھی انھیں دین و دنیا میں سرخرو کردیا۔ اس موقعے پر تاریخ اسلام کی عظیم ترین ازواج مطہرات اور صحابیات یاد آگئیں کہ ان کی ہی دی ہوئی شجاعت و بہادری نے خواتین کو بہادر اور جری بنا دیا۔
غزوہ احد کے موقع پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور دوسری خواتین اسلام میدان کارزار میں دیوانہ وار دوڑیں، وہاں جاکر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زخموں کو دھویا اور مشکیزے بھر بھر کر زخمیوں کو پانی پلایا، اس وقت پردے کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے، معرکہ یرموک کے موقعے پر صحابیات رضی اللہ عنہا نے عظیم کارنامے انجام دیے، مجاہدوں کو پانی پلاتیں ان کے زخموں کی مرہم پٹی کرتیں، ہتھیار لا لا کر دیتیں، حضرت اسما رضی اللہ عنہا نے لکڑی کی مدد سے تقریباً 9 کفار کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ تو موجودہ حالات میں بھی نہ خواتین اور نہ معصوم بچے دہشت گردوں سے ڈرے اور نہ گھبرائے ان کے حوصلے آج بھی جوان ہیں۔