فضا سوگوار احتجاج کی صدائیں ایم کیو ایم اور سنی تحریک کے اجتماعات

ایم اے جناح روڈ پر سانحۂ پشاور کے شہدا اور افواج پاکستان سے اظہار یکجہتی کے لیے نکالی گئی ریلی کے اختتام پر۔۔۔


Arif Aziz December 24, 2014
کراچی پریس کلب کے سامنے متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنان کے احتجاج کا ایک منظر۔ فوٹو: فائل

شہرِ قائد میں گذشتہ دنوں سانحۂ پشاور پر ہر آنکھ نم، چہرہ افسردہ اور فضا سوگ وار رہی۔ سیاسی، سماجی، مذہبی تنظیموں کی جانب سے شہدا کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ریلیاں نکالی گئیں اور اجتماعات منعقد ہوئے، جن میں کارکنان کے علاوہ عام شہریوں نے بھی شرکت کی۔

شہید طلبا اور اساتذہ کی یاد میں شمعیں روشن کرنے کی تقاریب اور فاتحہ خوانی کے لیے اجتماعات ہوئے۔ اسی سلسلے میں متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے بڑی ریلی منعقد کی گئی۔ اس موقع پر الطاف حسین نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کو بچانے کے لیے طالبان اور اس فتنے کو جڑ سے ختم کرنا ہوگا، آپریشن ضرب عضب کا دائرہ پورے ملک میں پھیلایا جائے اور دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کا خاتمہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ جامعہ حفصہ اور اس جیسے دہشت گرد تیار کرنے والے مدرسوں کو فوری بند کیا جائے اور مولانا عبدالعزیز کو گرفتار کیا جائے۔

ایم اے جناح روڈ پر سانحۂ پشاور کے شہدا اور افواج پاکستان سے اظہار یک جہتی کے لیے نکالی گئی ریلی کے اختتام پر مزار قائد پر شمعیں روشن کی گئیں۔ اس ریلی میں پیپلز پارٹی کے نثار کھوڑو، سکندر میندرو، ن لیگ کے نہال ہاشمی، ق لیگ کے حلیم عادل شیخ، فنکشل لیگ کے کامران ٹیسور ی اور پیر زادہ یاسر سائیں، پاکستان عوامی تحریک کے سید اوسط علی سمیت دیگر مختلف راہ نما شریک تھے۔ ریلی کے شرکا نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو انجام تک پہنچانے کے لیے ہر قدم اٹھایا جائے۔ ایم کیوایم کے راہ نماؤں قمر منصور، خالد مقبول صدیقی اور دیگر نے بھی اس موقع پر خطاب کیا۔

اسی ریلی میں الطاف حسین کے لال مسجد سے متعلق بیان پر مولانا عبدالعزیز نے ایک ویڈیو پیغام میں مبینہ طور پر الطاف حسین کے قتل کی دھمکی دی، جس کے خلاف ایم کیو ایم کے راہ نما اور کارکنان نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ ایم کیو ایم کی طرف سے اس سلسلے میں ایف آئی آر بھی درج کروائی گئی ہے۔ گذشتہ ہفتے سنی تحریک کی جاں نثارانِ مصطفیٰ کانفرنس میں علمائے کرام اور دیگر مقررین نے سانحۂ پشاور کی شدید مذمت کرتے ہوئے آپریشن ضرب عضب کا دائرہ دیگر علاقوں تک پھیلانے کا مطالبہ کیا۔

اس موقع پر سربراہ سنی تحریک ثروت اعجاز قادری کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز، رینجرز اور پولیس کے جوان شہید ہورہے ہیں، دہشت گردی کے معاملے پر حکومت مصلحت پسندی کا شکار ہے۔ اس کانفرنس میں علما نے دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کی حمایت اور سانحۂ پشاور کے ملزمان کو سرِ عام پھانسیاں دینے کا مطالبہ کیا۔ اس موقع پر پولیو ورکرز پر حملے میں ملوث ملزمان اور دہشت گردی میں ملوث مدارس کے خلاف کارروائی کرنے کی قرار داد بھی منظور کی گئی۔ علما نے مولانا عبدالعزیز کے خلاف کارروائی کا بھی مطالبہ کیا۔

پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان کے دھرنا ختم کرنے کے اعلان سے سیاسی بحران کا خاتمہ اور بے یقینی کی کیفیت دم توڑ گئی ہے۔ مسلم لیگ ن کے سربراہ نے اپنی قیادت کو عمران خان پر تنقید اور ان کے خلاف بیانات سے روک دیا ہے۔ سانحۂ پشاور سے قبل عام انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں اور کرپٹ نظام کے خلاف عمران خان نے احتجاجاً کراچی 'بند' کروایا تھا۔

شہرِ قائد میں ان کا احتجاجی دھرنا اعلان کردہ پلان 'سی' کے مطابق تھا۔کراچی میں پی ٹی آئی کا احتجاج پُرامن رہا اور عمران خان کا ساتھ دینے کے لیے کارکنان کے علاوہ بڑی تعداد میں عوام بھی سڑکوں پر نظر آئے تھے۔ اس وقت تمام سیاسی جماعتیں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے حکومت کے اقدامات اور کوششوں میں اس کا ساتھ دیتی نظر آرہی ہیں۔ پاک فوج سے یک جہتی اور آپریشن ضربِ عضب کی حمایت میں ریلیوں اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، لیکن پشاور واقعے سے قبل سیاسی جماعتوں کے اعلان کردہ جلسے اور مختلف تقاریب ملتوی کردی گئی ہیں۔

گذشتہ دنوں جماعتِ اسلامی نے شہرِ قائد میں جلسۂ عام کا اعلان کیا تھا اور اس کی تیاریاں زوروں پر تھیں۔ یہ جلسہ 25 دسمبر کو منعقد ہونا تھا، لیکن سانحۂ پشاور کے باعث اسے ملتوی کر دیا گیا۔ امیر جماعت اسلامی (کراچی) حافظ نعیم الرحمٰن اور دیگر قائدین کی جلسے سے متعلق سرگرمیوں میں اپنے کارکنان اور عوام سے رابطے جاری تھے جب کہ ادارۂ نورِ حق میں جماعت اسلامی کی برادر تنظیموں کا اجلاس بھی ہوا تھا، جس میں مقامی قیادت نے جلسۂ عام سے متعلق حکمت عملی اور تیاریوں کا جائزہ لیا تھا۔

اس اجلاس میں جماعت اسلامی کراچی کے سیکریٹری عبد الوہاب، نائب امرا مظفر احمد ہاشمی، اسامہ رضی، ڈپٹی سیکریٹریز عبد الرشید بیگ، صابر احمد، راشد قریشی، سیکریٹری اطلاعات زاہد عسکری کے علاوہ اسلامی جمعیت طلبہ، شباب ملی، تحریک محنت، نیشنل لیبر فیڈریشن، جمعیت طلبہ عربیہ، اسلامک لائرز موومنٹ، انجینئرز فورم، جمعیت اتحاد العلما، بزنس فورم، تنظیم اساتذہ، اسمال ٹریڈرز اور دیگر تنظیموں کے ذمہ داران شریک تھے۔ جلسے کی دعوت عام کرنے کے لیے عوامی رابطہ مہم میں ریلیاں، سیمینارز اور شہر کے مختلف مقامات پر دعوتی کیمپس لگانا طے پایا تھا۔

اہل سنت و الجماعت بھی گذشتہ ہفتے اپنے مطالبات منوانے کے لیے سڑکوں پر نظر آئی۔ قیوم آباد چورنگی پر مبینہ طور پر لاپتا کارکنان کی بازیابی کے لیے مظاہرے سے مرکزی صدر مولانا اورنگزیب فاروقی اور علامہ اﷲ وسایا صدیقی، مولانا طارق مسعود، سنی علما کونسل کے مولانا زرین ہزاروی، مولانا سراج سلطان، مولانا عادل عمر و دیگر نے خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری لڑائی فورسز، پولیس اور رینجرز سے نہیں، انتظامیہ محبت کی زبان سے جو بات منوانا چاہے ہم مانیں گے، لیکن ماورائے عدالت قتل اور بلاجواز گرفتاریوں سے کارکنان میں بغاوت کے جذبات جنم لے رہے ہیں۔ ہمارے ساتھ ناانصافی کا سلسلہ بند نہ ہوا تو ملک گیر احتجاجی دھرنے اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کریں گے۔

ان راہ نماؤں کا کہنا ہے کہ ان کے کئی کارکن نو ماہ سے لاپتا ہیں، طارق معاویہ ایک ماہ قبل لاپتا ہوا تھا، جس کی لاش ملی۔ عدالت نے متعلقہ پولیس افسر کو ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا، لیکن اس افسر نے مقتول کے والد کو قتل کی دھمکیاں دیں اور کہا کہ ایف آئی آر درج کٹوانے سے باز رہیں۔ ایک موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے علامہ اورنگزیب فاروقی کا کہنا تھا کہ 15 جنوری کو تمام دینی جماعتوں کا مشترکہ اجلاس ہو گا، جس کی قیادت مولانا سید عطاء المومن شاہ بخاری، مولاناڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر، علامہ محمد احمد لدھیانوی، مولانا فضل الرحمٰن، مولانا سمیع الحق، قاری حفیظ جالندھری کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں