بینظیر بھٹو کی برسی پر سخت سکیورٹی اقدامات

غیرسرکاری عناصر ہمارے ممالک کے لئے بہت بڑا خطرہ اور چیلنج ہیں


G M Jamali December 24, 2014
آج پوری پاکستانی قوم دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے پر متفق ہو گئی ہے۔ فوٹو: فائل

دنیائے اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم کا اعزاز حاصل کرنے والی پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی 7ویں برسی 27 دسمبر کو منائی جا رہی ہے۔

یہ برسی ایسے موقع پر منائی جا رہی ہے، جب نہ صرف پاکستان میں دہشت گردوں نے اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی بھی بہت سے مسائل میں الجھ گئی ہے۔ آج محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی قیادت کی کمی بہت شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی برسی کے انتظامات کیے گئے ہیں۔ مرکزی تقریب گڑھی خدا بخش میں بے نظیر بھٹو کے مزار پر ہوگی۔

اگرچہ حکومت سندھ اور پیپلز پارٹی سندھ نے برسی کی تقریب کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے ہیں لیکن ملک کی موجودہ حالات کے باعث وہاں بڑا عوامی اجتماع منعقد کرنا پیپلز پارٹی کے لیے ایک چیلنج ہو گا۔ یہ بھی اطلاعات مل رہی ہیں کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نہ صرف اس اجتماع میں شریک نہیں ہوں گے بلکہ وہ اس موقع پر منعقد ہونے والے جلسے سے بھی خطاب نہیں کریں گے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اس جلسے سے خطاب کریں گے۔

آج پوری پاکستانی قوم دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے پر متفق ہو گئی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے ہی اس جنگ کا آغاز کیا تھا تو غلط نہیں ہوگا۔ انہوں نے بہت پہلے ہی خطرات سے آگاہ کر دیا تھا اور انہوں نے دہشت گردی کے اس عفریت سے نمٹنے کے لیے ایک قابل عمل پروگرام بھی دیا تھا۔ وہ پروگرام یہ تھا کہ آمریت کا خاتمہ کیا جائے اور جمہوریت بحال کی جائے کیونکہ تیسری دنیا خصوصاً مسلم ممالک میں دہشت گردی نے آمریت کی کوکھ سے ہی جنم لیا ہے۔

اس پروگرام کا دوسرا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ جن بین الاقوامی قوتوں کے دہشت گردی کے ساتھ اپنے عالمی مفادات وابستہ ہیں ، ان قوتوں کے ساتھ نمٹنے کے لیے دہشت گردی کے شکار ملکوں کی سیاسی قیادت کو تدبر اور مشترکہ حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا ۔ یہ کام بھی محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی لیڈر ہی کر سکتی تھیں ۔ ان کے پروگرام کا تیسرا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ دہشت گردی کے شکار ملکوں کو مسائل سے نجات دلائی جائے تاکہ نوجوانوں کے لیے آگے بڑھنے کے مواقع ہوں اور وہ مایوسی میں مبتلا ہو کر دہشت گرد تنظیموں کا ایندھن نہ بن جائیں۔

تعلیم ، صحت اور روزگار کی فراہمی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی اولین ترجیحات میں شامل تھیں۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں شہید بے نظیر بھٹو کی سوچ اور فلسفہ پر عمل درآمد کرنے کی آج پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ 9 اور 10 دسمبر 2014ء کو تہران میں عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی، جس کی صدارت ایران کے صدرڈاکٹر حسن روحانی نے کی تھی۔ اس کانفرنس سے سابق صدر آصف علی زرداری کا خطاب بہت اہم ہے۔

آصف علی زرداری نے اپنے خطاب میں مشرقِ وسطیٰ، شمالی افریقہ اور یورو ایشیائی ممالک میں خطرناک حالات اور تشویشناک واقعات پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عسکریت پسندی، دہشتگردی اور انتہا پسندی سے پاکستان شدید نقصانات کا شکار ہو چکا ہے۔ انہوں نے عسکریت پسندی کے خطرات سے دوچار ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ تاریخ سے سبق سیکھیں اور ان مشکل حالات سے نکلنے کا راستہ بنانے کی کوشش کریں۔ عسکریت پسندی کا پرچار کرنے والے غیرسرکاری عناصر مغربی ممالک اور دنیا کے مختلف علاقوں سے آکر مشرقِ وسطیٰ میں ریاستوں اور ریاستی اداروں کو کمزور کر رہے ہیں۔

غیرسرکاری عناصر ہمارے ممالک کے لئے بہت بڑا خطرہ اور چیلنج ہیں۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان نے "نان نیٹو" ممالک کے ساتھ مل کر شام میں مداخلت کے لئے اقوام متحدہ میں ووٹ نہیں دیا تھا کیونکہ ماضی میں اس قسم کے احمقانہ فیصلوں سے افراتفری پھیلی تھی۔ جب ہمارے خطہ میں بڑی عالمی طاقتیں "گریٹ گیم" کر رہی تھیں تو اس وقت بین الاقوامی برادری نے کوتاہ نظری پر مبنی پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے دہشتگردی اور انتہا پسندی کو آکسیجن فراہم کی، جس کے بعد عسکریت پسندی ملکی سرحدیں عبور کرگئی اور آج تک ہم تشدد کی بوئی ہوئی فصل کاٹ رہے ہیں اور پڑوسی ممالک پاکستان سمیت ابھی تک اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔

سابق صدر پاکستان نے کہا کہ اس صدی کے بنیادی مسائل عسکریت پسندی، دہشتگردی اور انتہاپسندی ہیں۔ انہوں نے اسلامی دنیا میں فرقہ واریت کے تنازعات پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ اس نئے عفریت کی وضاحت کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے محترمہ بینظیر بھٹو کی ایک تقریر سے اقتباس پیش کیا۔

شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی 7ویں برسی پر پیپلز پارٹی کی قیادت کے لیے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بہت بڑے چیلنجز موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اسے پارٹی میں بڑھتی ہوئی مایوسی اور کسی حد تک دھڑے بندی کو بھی روکنا ہے۔ اس کے لیے شہید بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر ایک نیا عہد کرنا ہوگا اور چیلنجز سے نمٹنے کے لیے نئی حکمت عملی بھی وضع کرنا ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں