سانحہ پشاور …
اب یا تو کوئی دہشت گردوں کا حامی ہے یا ان کا دشمن ہے۔ درمیان کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
ایک دہائی قبل روس کی ایک خود مختار جمہوریہ شمالی اوسیشیاکے شہر بسلان کے ایک اسکول میں خون کی ہولی کھیلی گئی تھی، یہ چیچن گوریلوں کے عروج کا زمانہ تھا۔ اسے تاریخ میں بسلان ٹریجڈی کا نام دیا جاتا ہے۔ یکم ستمبر2004 کو ایک اسکول میں 32دہشت گرد گھسے۔ انھوں نے وہاں موجود طلبہ و عملے کے11 سو افراد کو یرغمال بنا لیا، ان میں 777 بچے شامل تھے۔ یہ دہشت گرد اپناتعلق ریاض السالکین بٹالین سے بتاتے تھے اور انھیں چیچن گوریلا رہنما شامل بسایوف نے یہ مشن سونپا تھا۔
شامل بسایوف چیچن اسلامی انتہا پسندوں کا بڑا نام تھا،دہشت گردوں نے تین دن اسکول کے بچوں اور عملے کو یرغمال بنائے رکھا۔ شامل بسایوف کا مطالبہ تھا کہ اقوام متحدہ چیچنیا کی آزادی کو تسلیم کرے اور روسی فوجیں چیچنیا سے نکل جائیں۔ تیسرے دن روسی فوج اسکول میں داخل ہوئی اور پھر اس ٹریجڈی نے جنم لیا جو تاریخ کا حصہ بن گئی۔ اس لڑائی میں 385 افراد مارے گئے جن میں 186 بچے شامل تھے۔32 دہشت گرد بھی مارے گئے۔
چیچنیوں نے اس سے قبل بھی ماسکو میں واردات کی تھی۔23 اکتوبر 2002 کو ماسکو کے مشہور دوبروفکا تھیٹر میں چالیس چیچن گوریلے داخل ہوئے اور وہاں موجود لوگوں کو یرغمال بنا لیا۔ یہ محاصرہ بھی تقریباً تین دن رہا، تیسرے دن روسی الفا گروپ کے کمانڈوز وہاں داخل ہوئے، انھوں نے اعصابی گیس پھینکی اور آپریشن شروع کر دیا۔ اس کے نتیجے میں 40 دہشت گرد مارے گئے جب کہ 130 یرغمالی جان سے گئے۔یہ دہشت گردی کے انتہائی سفاک سانحے ہیں لیکن ان سے ایک سبق ضرور ملا ہے، دہشت گردی کی ان وارداتوں خصوصاً بسلان اسکول ٹریجڈی کے بعد چیچن گوریلے اپنی ساکھ کھو بیٹھے، ان کے لیے ہمدردی کے جذبات ختم ہو گئے، وہ اپنے عوام ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر دہشت گرد قرار پائے۔
شامل بسایوف ایک بم دھماکے میں مارا گیا، روسی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ اس کی خفیہ ایجنسی نے یہ کام کیا۔ دوسرے چیچن لیڈروں کو بھی چن چن کر مارا گیا۔ زیلم خان کو ایک عرب ملک میں قتل کر دیا گیا۔چیچنیا کے عوام مذہب کے نام پر جدوجہد کرنے والوں کے خلاف ہو گئے اور پھر روس نے بے رحمی سے ان سب کو کچل دیا۔چیچنیا کی آزادی کہیں گم ہو گئی۔جو گوریلا چیچن بچ گئے، وہ بھاگ کر افغانستان پہنچ گئے۔ وسط ایشیاء کی دوسری ریاستوں خصوصاً تاجکستان اور ازبکستان سے بھی دہشت گرد افغانستان میں پناہ گزین ہوئے کیونکہ ان کے ملکوں میں ان کے لیے زندہ رہنا مشکل ہو گیا تھا، ازبکستان اور تاجکستان کی حکومتوں نے اپنے ملکوں میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف بے رحمی سے آپریشن کیے ۔یہ سب لوگ القاعدہ نیٹ ورک کا حصہ بنے اور طالبان کے ساتھ شامل ہو گئے، تحریک طالبان پاکستان میں بھی یہ عنصر شامل ہے اور بہت سی کارروائیوں میں وسط ایشیائی لوگ شامل رہے ہیں۔دہشت گردی کی حالیہ تاریخ میں بے رحمی اور سفاکی کے جو مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں،یہ انھیں کے کلچر کا حصہ ہیں۔
سانحہ پشاور کے بعد پاکستان میں بھی ایک غیر معمولی تبدیلی آئی ہے، پہلی بار طالبان کے فکری و نظریاتی حامی شدید عوامی دباؤ کا شکار ہیں، فوج کی پالیسی میں بھی واضح تبدیلی نظر آ رہی ہے، دائیں بازو کی ماڈریٹ سیاسی جماعتیں خصوصاً حکمران مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کو کھل کر طالبان کی مذمت کرنا پڑی ہے۔ پاکستان میں مذہبی جماعتوں اور شخصیات نے تو عوام کی رائے کو کبھی اہمیت ہی نہیں دی، انھوں نے دین کی آڑ لے کر ہمیشہ عوام کو تقسیم کیا یا ان کے استحصال کی راہ ہموار کی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی دینی جماعتیں کبھی عوام کے ووٹ سے برسراقتدار نہیں آ سکیں۔ نائن الیون کے بعد جیسے دنیا تبدیل ہو گئی ہے، اسی طرح سانحہ پشاور کے بعد پاکستان بھی تبدیل ہو گیا ہے۔
اب یا تو کوئی دہشت گردوں کا حامی ہے یا ان کا دشمن ہے۔ درمیان کا کوئی راستہ نہیں ہے ۔ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف طالبان سے مذاکرات کی حامی رہی ہیں۔ وزیراعظم میاںنوازشریف جب اقتدار میں آئے تو انھوں نے تحریک طالبان سے مذاکرات شروع کیے، اس موقع پر عمران خان نے فرمایا تھا کہ پشاور میں تحریک طالبان کا دفتر قائم کیا جائے۔ دکھ کی بات یہ تھی کہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے رہنماؤں نے ہمیشہ ڈرون حملوں پر واویلہ کیا لیکن دہشت گردی میں مارے جانے والوں کے لواحقین کا کبھی حال نہیں پوچھا۔
جماعت اسلامی، جے یو آئی اور دیگر مذہبی جماعتوں کی تو بات ہی الگ ہے، یہ لوگ کہیں نہ کہیں طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، ان جماعتوں کے قائدین نے ہمیشہ ڈرون حملوں پر شور مچایا، سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے تو حد کر دی، انھوں نے جو کچھ فرمایا، اس سے اک عالم آگاہ ہے۔ہمارے ملک کی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی مفاد پرستی نے آج یہ دن دکھایا ہے۔
پشاور کے اسکول میں جو بدترین دہشت گردی کی گئی، اس جرم کی کوئی معافی نہیں ہے۔ زندہ قومیں اپنے بچوں کے قتل عام کو نہیں بھولتیں۔تحریک طالبان پاکستان نے اس سانحہ کی ذمے داری قبول کر کے اپنے ہاتھ سے خود کشی کر لی ہے۔ اب پاکستان کے عوام میں ان کے خلاف نفرت نہیں بلکہ انتقام کے جذبات پیدا ہو گئے ہیں اور عوام کی یہ رائے اب شاید کبھی تبدیل نہ ہو سکے۔
دنیا میں کوئی جدوجہد بے گناہوں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتی اور نہ ہی اس کا کوئی جواز پیش کر سکتی ہے۔ کوئی دین، کوئی فکر اور کوئی فلسفہ دہشت گردی کو جائز قرار نہیں دے سکتا۔عظیم افریقی رہنما نیلسن منڈیلا نے مسلح جدوجہد سے ابتدا کی لیکن پھر انھیں یقین ہو گیا کہ پرامن جدوجہد کے بغیر آزادی کا مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ انھوں نے تقریباً ساری زندگی جیل میں گزار دی لیکن ہتھیار نہیں اٹھائے، آج جنوبی افریقہ میں بسنے والے گورے کالے اور رنگدار سب آزاد ہیں۔ اس کے برعکس تامل ٹائیگرز کا لیڈر بربھا کرن سری لنکن فوج کے ہاتھوں مارا گیا۔ وہ سری لنکا تاملوں کی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہا تھا لیکن دہشت گرد قرار پایا۔
وہ خود بھی مر گیا اور سری لنکا کے تاملوں کی جدوجہد کو بھی ختم کر گیا۔چیچنوں نے بھی آزادی کے لیے طویل جدوجہد کی، بے شمار قربانیاں دیں لیکن انھوں نے قتل و غارت کو سیاسی حکمت عملی کے طور پر اختیار کیا، اس دوران سفاکی اور بے رحمی کے المناک سانحے پیش آئے اور پھر چیچن دہشت گرد خود بھی اسی راستے کے مسافر بن گئے۔ روسی فوج نے بڑی بے رحمی سے ان سب کو کچل دیا۔ دنیا کے کسی ملک نے اس پر احتجاج نہیں کیا کیونکہ دہشت گردی کی کوئی ملک حمایت نہیں کر سکتا۔ سانحہ پشاور کے بعد پاکستان میں طالبان کا کوئی ہمدرد عوام کا دباؤ برداشت نہیں کر سکے گا۔بعض اوقات لمحے کی خطا صدیوں کی سزا بن جاتی ہے۔