بنگلہ دیش کیونکر بنا
پاکستان بننے کے بعد1951ء میں عام انتخابات ہوئے جس میں مشرقی پاکستان میں جگتو فرنٹ یعنی متحدہ محاذ تشکیل پا یا۔
سیارہ دنیا جب اپنی ابتدا ئی شکل بنا رہا تھا تو سا رے براعظم یکجا تھے، بعد ازاں ان میں قدرتی زلزلے، اتھل پتھل، سیلاب، برف با ری اور طوفانوں کی وجوہات سے ان میں دراڑیں پڑیں اور الگ الگ ٹکڑے بن گئے۔ مگر انسان ایک جگہ سے دوسری جگہ بلا روک ٹوک سفر کرتا اور ڈیرہ ڈالتا تھا۔ جب وسائل پر کسی نے کھڑے ہوکر کہا کہ یہ میرا ہے، اسی دن سے اس 'بلوان' کی وہ سر زمین ملکیت بن گئی اور یہ سلسلہ ریاست کی شکل نے زیادہ مضبوط اور زورآور بنا دیا۔
پاکستان بننے کے بعد1951ء میں عام انتخابات ہوئے جس میں مشرقی پاکستان میں جگتو فرنٹ یعنی متحدہ محاذ تشکیل پا یا۔ اس انتخابات میں مسلم لیگ صرف19 نشستیں حاصل کر پائی باقی تمام نشستیں جگتو فرنٹ نے حاصل کیں اور جگتو فرنٹ میں 80 فیصد منتخب نمایندوں کا تعلق کمیونسٹ پارٹی آ ف پاکستان سے تھا۔ ان نتائج سے پاکستان کے جاگیرداروں اور سرما یہ داروں میں کھلبلی مچ گئی۔ انھوں نے بھانپ لیا کہ اب خیر نہیں، ہماری زمینیں بٹ جائیں گی اور سرما ئے کے مالک اب سرمایہ داروں کی بجا ئے عوام ہو جائیں گے۔ اس خوف سے1954ء میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پا بندی لگا دی۔
ان سے منسلک تمام طلبہ، مزدوروں، کسانوں، دانشوروں، فنکاروں ڈراما نگا روں، شاعروں، کھیت مزدوروں، ڈاکٹروں اور وکیلوں کی عوامی تنظیموں پر بھی پا بندی لگا دی اور پھر1958ء میں ملک پر مارشل لاء لگا کر جنرل ایوب خان مسلط ہو گئے۔ اسی دور میں یعنی1960ء میں بر صغیر کے سب سے بڑے جا گیر دار محسن الملک کے نوا سے(جو کہ اس طبقے کو خیر باد کہہ کر مزدور طبقے کے ساتھ ہو لیے) حسن ناصر کو جو کمیونسٹ پارٹی آف پا کستان کے رہنما تھے لاہور شا ہی قلعے میں شدید جسمانی تشدد کر کے شہید کر دیا گیا جب کہ مشرقی پاکستان کے تمام کمیو نسٹ رہنماؤں بشمول کمیو نسٹ پارٹی آف پا کستان کے چیئر مین مومندر نا تھ سنگھ کو قید تنہا ئی میں برسوں مقید رکھا گیا۔
جب جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک چلی تو جنرل یحییٰ خان اقتدار میں آ گئے۔ عوامی لیگ نے دو نشستوں کے علاوہ سا ری نشستیں جیت لیں۔ ہونا تو یہ چا ہیے تھا کہ جیتنے وا لے فریق کو اقتدار فورا منتقل کر دیا جاتا، بجائے اقتدار منتقل کرنے کے بنگالیوں پر فوج کشی کر دی گئی۔ جسکے نتیجے میں بنگالی عوام اور ہزاروں مغربی پا کستانی سپاہی ما رے گئے۔ آج اس غلط فیصلے اور اپنے کیے پر ہمارے حکمران نادم ہوئے۔
اس کے باوجود گزشتہ دنوں بنگلہ دیش کے ڈپٹی ہا ئی کمشنر روحیل عالم صدیقی نے کرا چی چیمبرز آف کامرس سے خطاب کر تے ہو ئے کہا کہ 'پا کستان کے بے پناہ وسائل اور غیر معمو لی صلا حیتوں کی حامل افرادی قوت ملک کی اقتصادی ترقی و خوشحالی میں اہم کر دار ادا کر سکتی ہے۔ دونوں ممالک کو اقتصادی اور مختلف سطح پر مزید تعاون و تعلقات بڑھانے پر تو جہ دینی چا ہیے۔ چونکہ بنگلہ دیش بھی پا کستان کی طرح آ زادی حاصل کر نے کے بعد طبقاتی سما جی ڈھانچے میں کو ئی تبدیلی نہیں لایا، اس لیے آج بنگلہ دیش کے عوام بھی پا کستان کی طرح بھوک، افلاس، غربت، بد حالی، مہنگا ئی، جہا لت، لاعلاجی، ذلت اور اذیت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
پا کستانی فوج ہتھیار ڈالنے سے قبل 'مکتی باہنی' (آزادی کی جنگ لڑنے وا لے) عوامی لیگ اور بیشتر سیا سی جماعتوں کے چنگل سے نکل چکے تھے۔ انھوں نے خود مختار، خود انحصار عبو ری عوامی کمیٹیاں اور محلہ کمیٹیاں تشکیل دینی شروع کر دی تھیں۔ کسانوں کی خود مختار اور مقا می بنیاد پر سب سے پہلے 'کریشک سمیتی' (کسان انجمن) نے کام کر نا شروع کر دیا تھا۔ کسان کھیتوں میں مل کر کام کر تے اور اپنے گھر کی ضرورتوں کو وہاں سے حاصل کر لیتے تھے، اس سلسلے میں ہر محلے کا ایک نما یندہ دوسرے محلے کے نما یندے سے رابطہ رکھتا، جسے رابطہ کمیٹی کہا جا تا تھا۔
اسی طرح شہروں میں شہری محلہ عوامی کمیٹی تیزی سے پھیلتی جا رہی تھی۔ فنانس کے متعلق ہر بینک کے ملا زمین کو کنٹرول کر نے کے لیے بینک کمیٹیاں بنا ئی جا نے لگی تھیں۔ چونکہ عوام کے ہا تھوں میں اسلحہ آ گیا تھا اس لیے انھوں نے مزدوروںٓ اور کسانوں کو مسلح تربیت دینی شروع کر دی تھی۔ مزدوروں، کسانوں، طلبہ اور پیداواری قو توں میں با قاعدہ اسٹڈی سرکلز شروع ہو گئے تھے۔ جس محلے اور گاؤں میں غذائی قلت تھی وہاں دوسرے گا ؤں اور محلوں سے ریلف فنڈ جمع کر تے جن میں آلو سے لے کر انڈے تک ہو تے اور پھر یہ سامان بیل گا ڑی پر لاد کر ضرورت مند محلوں میں بانٹ دیا جا تا تھا۔ با نٹنے کا طریقہ یہ تھا کہ جن کے گھر میں کھا نے کو کچھ نھیں انھیں زیادہ اور جہاں کچھ موجود ہے انھیں مقابلتا کم اور جن کے گھر وافر مقدار میں اجناس تھے انھیں کوئی ریلف نہیں دی جاتی تھی۔ ہر محلے اور گا ؤں میں عبوری تعلیمی کمیٹیاں چٹائیاں بچھا کر رضاکارانہ طور پر لکھے پڑھے لوگ تعلیم دیتے تھے۔
ان عوامل میں (راقم) خود بھی شریک تھا۔ ہما رے ضلع بوگرہ میں 'جگتو سنگرام پریشد' ( متحدہ انجمن جدوجہد) تشکیل دی تھی جس کے 50 اراکین ہوا کر تے تھے۔50 میں سے49 بنگالی اور میں اکیلا غیر بنگالی ہو نے کے باوجود مجھے اپنا عبوری صدر بنا رکھا تھا۔ یہ کمیٹیاں پہلے عوامی لیگ، نیپ اور دیگر سیاسی جما عتوں کے زیر اثر تھیں مگر بعد میں خود مختار طور پر کام شروع کر دیا۔ اس سے عوامی لیگ، نیپ، ہندوستانی حکمران اور امریکی سامراج میں کھلبلی مچ گئی۔
امریکی بحری بیڑا پاکستانی فوج کی مدد یا ہندوستانی فوج کی مدد کر نے نہیں آ یا تھا، وہ تو اس لیے آ رہا تھا کہ اگر ہندوستانی اور بنگلہ دیشی حکمران مکتی باہنی پرکنٹرول حاصل نہ کر سکے تو وہ اس میں مدد گار بنیں گے۔ مگر بد قسمتی سے با ئیں با زو اور کمیونسٹوں کی انقلابی پالیسیوں سے انحرافی اور مغربی پاکستان اور بنگلہ دیشی حکمرانوں کی سازشوں اور مداخلت سے اسٹیٹ لیس سوسائٹی کی جا نب مکتی باہنی کو پیش قدمی کر نے سے بزور رو کا گیا اور انھیں غیر مسلح کیا گیا۔ اس میں پہلے پا کستانی فوج اور بعد ازاں ہندوستا نی فوج نے اہم کر دار ادا کیا۔ اس لیے بھی کہ بوگرہ شہر میں پاکستانی فوج مئی کی17 تا ریخ تک بمشکل داخل ہو پائی۔ میں ذاتی طور پر اس مو قعے پر بوگرہ کے فریڈم فا ئٹر کامریڈ ٹیٹو شہید، پیستا، شوپون اور توپون کی بہا درانہ گو ریلا لڑائی سے بہت متا ثر ہوا۔ اس وقت بھی طبقاتی نظام کے خلاف بنگلہ دیشی محنت کش اپنی حقیقی معاشی آ زادی کے لیے لڑ رہے ہیں۔
ہمیں یقین ہے کہ بنگلہ دیش کے عوام نے جس طرح مذہبی دہشتگردی کو روکا ہے اسی طرح سے اس عا لمی سامراج اور مقا می سرما یہ داری سے نجات حاصل کر نے اور بے ریا ستی غیر طبقاتی معاشرہ قا ئم کرینگے۔ جہاں ساری دولت کے ما لک سا رے لوگ ہونگے۔ کو ئی ارب پتی ہو گا اور نہ کو ئی گدا گر۔ سچے جذبوں کی قسم وہ دن ضرور آئے گا جب لوگ مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر کھائیں گے۔ خوشحا لی اور محبت کا راج ہو گا۔