کہاں چلے گئے سارے پھول
دہشت گردوں نے عوام کی نفسیات میں خوف پیدا کر کے اپنا مقصد حاصل کر لیا۔
DUBAI:
پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) میں دہشت گردوں کے ہاتھوں ہونے والے ناقابل بیان وحشت ناک سانحہ نے ملک بھر میں غم و اندوہ کی لہر دوڑا دی ہے اور اس واقعہ نے وہ کام کر دیا جو ہمارے لیڈر کئی عشروں سے کرنے میں ناکام رہے ہیں، یعنی اس نے پوری قوم کو متحد کر دیا ہے۔ نہ صرف دہشت گردوں پر بلکہ ان کے ہمدردوں پر بھی عوام کا بھرپور دباؤ بڑھ گیا۔ اس اسکول کے بچوں کے خلاف ہونے والے اس بہیمانہ جرم کی مذمت کرنے سے انکار پر سول سوسائٹی نے روزانہ لال مسجد کے سامنے زبردست احتجاج کیا اور مولوی عبدالعزیز کو معافی مانگنے پر مجبور کیا، گو کہ وہ اس پر آمادہ نہ تھے۔ آخر ہم کسی ایسے شخص کو کس طرح تسلیم کر سکتے ہیں جو مذہب کے نام پر تشدد کی تبلیغ کرتا ہو۔
دہشت گردوں نے عوام کی نفسیات میں خوف پیدا کر کے اپنا مقصد حاصل کر لیا۔ وہ اپنے وجود کو تسلیم کرانے کے لیے مذہب کی غلط تعبیر کرتے ہیں۔ ان کے لیے میڈیا ان کا پیغام اور خوف پھیلانے کا ایک اہم ہتھیار ہے۔ میڈیا میں شامل بعض بھٹکے ہوئے عناصر ان عفریتوں کے لیے وقت اور مواقع فراہم کرتے ہیں۔ اس کو بند ہونا چاہیے اور جو اس پر اصرار کریں انھیں بھی قتل میں ملوث قرار دیا جائے۔ مزید برآں یہ دہشت گرد کسی بھی اعتبار سے طالب علم نہیں ہیں جب کہ اسکول کے بچے جنھیں انتہائی وحشیانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا وہ یقینا طالب علم ہیں۔ ان قاتلوں کو طالبان کہنا انسانیت کے خلاف جرم ہے۔
قومی سلامتی پالیسی دس ماہ سے زیادہ عرصہ پہلے پارلیمنٹ سے منظور ہو چکی ہے۔ ہمیں اسے فوری طور پر نافذ کر دینا چاہیے اور جہاں ضروری ہو اس میں مناسب تبدیلیاں کر لینی چاہئیں۔ عوام کے موڈ کا اندازہ لگاتے ہوئے حکومت نے ''قومی ایکشن پلان'' وضع کرنے کے لیے جو کمیٹی تشکیل دی تھی وہ زبانی جمع خرچ اور چائے پانی تک محدود نہیں رہی۔ چوہدری نثار علی نے اس مقصد کے لیے ایسے لوگوں کے نام شامل کیے جن کی مہارت اور یکجہتی پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا جا سکتا اور نہ ہی وہ میرٹ پر سمجھوتہ کرنے والے لوگ ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ کی طرف سے مخالفانہ ردعمل کا انتباہ خارج از امکان نہیں۔ اس کو حقیقت سمجھنا چاہیے۔
آپریشن ضرب عضب کے باعث شمالی وزیرستان میں اپنی محفوظ پناہ گاہوں سے باہر نکل آنے والے دہشت گردوں کے لیے اب نقل و حرکت کی وہ آزادی باقی نہیں رہی۔ ان کے جوابی وار کے لیے اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں کہ وہ پاکستان کے شہری علاقوں میں موت اور تباہی پھیلانے کی اپنی مہم میں تیزی پیدا کر دیں بالخصوص آسان اہداف پر۔ ہمیں کچھ تھوڑے وقت کے لیے یہ درد برداشت کرنے کے واسطے تیار رہنا چاہیے بجائے اس کے کہ ہم ان وحشی عفریتوں کو طویل عرصے تک اپنی قسمت پر اثرانداز ہونے کی اجازت دیں۔کراچی ایئرپورٹ، واہگہ بارڈر وغیرہ کے واقعات سے جو سبق حاصل ہوئے ہیں وہ یہ ہیں (1) کمانڈ کی یک جہتی (2) انٹیلی جنس کے اکٹھا کرنے میں تعاون اور قابل عمل انٹیلی جنس میں اشتراک تا کہ دہشت گردوں پر فوری طور پر قابو پایا جا سکے قبل اس کے کہ وہ اپنا کوئی تباہ کن مشن پورا کر سکیں۔ (3) مناسب ہتھیار، آلات، گاڑیاں، ہلکے ہیلی کاپٹر وغیرہ کا حصول۔ (4) تربیت یافتہ افرادی قوت جو دہشت گردی کا مقابلہ کر سکے اور حساس مقامات کی حفاظت کر سکے۔
(5) ایک ہی کوشش کے بار بار دہرائے جانے سے اجتناب۔ (6) افسر شاہی کی بے جا مداخلت کو روکنا اور مالیاتی ضروریات کا بلا رکاوٹ پورا ہونا۔ مزید برآں عدالت کی طرف سے موجود اور واضح خطرے کے بارے میں ڈھیل دینے کا کوئی فیصلہ نہ کیا جائے۔ ہمارے جج حضرات کو جسٹس اولیور وینڈیل ہولمز کے طرز عمل کا مطالعہ کرنا چاہیے۔میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ حساس مقامات جیسے کہ بندرگاہیں اور ہوائی اڈے وغیرہ، انھیں ایک متحدہ کمانڈ میں ہونا چاہیے جو منظم کرنے، منصوبہ بندی، تربیت اور مسلح کرنے سمیت تحفظ اور انسدادِ دہشت گردی کی ذمے داریوں سے مزین ہو۔ سرکاری اثاثوں (ہوائی اڈوں) اور دفاعی اثاثوں (ہوائی مستقر) کی حفاظت کے لیے حکمت عملی یکساں ہونی چاہیے جب کہ وہاں پر حفاظتی تعیناتی میں بے شک کچھ فرق ہو سکتا ہے۔ فی الوقت ہمارے حفاظتی اقدامات اور بچاؤ کی کوششیں زیادہ موثر نہیں۔ فوج کی لڑنے کی صلاحیت کا زیادہ تر انحصار انفنٹری یونٹس پر ہے جب کہ حفاظتی اقدامات قابل انتقال سیکیورٹی پروٹیکشن کے طور پر ہوتے ہیں جس کے باعث کسی بحران کے موقع پر کوئی ابہام پیدا ہو سکتا ہے جس کو ختم کیا جانا چاہیے۔
نجی اور سرکاری تعلیمی ادارے یہ سب آسان اہداف ہیں جن کے خلاف شیطانوں کے مکروہ منصوبے بالعموم بآسانی پورے ہو جاتے ہیں حالانکہ یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کی سلامتی کو یقینی بنائے۔ اس کے لیے افراد اور تنظیموں کو بھی فوری طور پر حفاظتی بندوبست کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ہم سب کو اپنے آرام دہ ٹھکانوں سے باہر نکلنا ہو گا اور سلامتی کی تمام تر ذمے داری ریاست پر عائد کرنے سے گریز کرنا ہو گا۔ فی الوقت تمام داخلی سیکیورٹی کی فورسز کی تنظیم دگرگوں ہے۔
اس کے لیے ایک واحد، پرعزم اور موثر کمانڈ اور کنٹرول ہونا چاہیے تا کہ تزویراتی اثاثوں کی موثر حفاظت کی جا سکے اور انسدادِ دہشت گردی ''ہوم لینڈ سیکیورٹی کمانڈ'' کے تحت ہونا چاہیے جس کی سربراہی ایک تین ستاروں والے سینئر جرنیل کے سپرد ہو، ترجیحاً ایک ایسی شخصیت جسے حقیقی طور پر جنگ لڑنے اور داخلی سلامتی کے نظام کا عملی تجربہ ہو۔ ازسرنو منظم کی جانے والی فورس لازمی طور پر فوراً بندرگاہوں، ہوائی اڈوں اور فوج اور بحریہ کے مستقروں کا انتظام سنبھال لے۔انسداد دہشت گردی فورس (CTF) کو اِسی کمانڈ کے تحت تیار کیا جا سکتا ہے۔ یہ بہتر ہو گا کہ اس حوالے سے فوری طور پر قانون سازی کی جائے اور ''اے این ایف'' کو سی ٹی ایف میں تبدیل کر دیا جائے۔
جس کے لیے اے این ایف کے ایکٹ میں ترمیم کرنا پڑے گی۔ اگر بنظرغائر جائزہ لیا جائے تو اے این ایف ویسے ہی سی ٹی ایف کے طور پر کام کر رہی ہے لہٰذا ہمیں کوئی نئی تنظیم بنانے میں وقت ضایع کرنے کی ضرورت نہیں۔ فوج کو آرٹیکل 245 کے تحت ضروری اختیارات دے دیے جائیں جو نہ صرف ''نیشنل ایکشن پلان'' کو نافذ کرے بلکہ سرسری سماعت کی فوجی عدالتیں بھی قائم کریں تا کہ فوری طور پر انصاف مہیا کیا جا سکے۔ وہ لوگ جو آرمی پبلک اسکول (APS) کے بچوں کے شیطانوں کے ہاتھوں قتل عام پر بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ آخر وہ کب سبق سیکھیں گے۔ پیٹر پال اور میری کا گایا ہوا ایک گانا ہے ''یہ سارے پھول کہاں چلے گئے ہیں۔''