سناٹا
آوازیں خوبصورت ہیں۔ یہ زندگی کی علامت ہیں۔ ان میں زندگی کی خوشبو مہکتی ہے۔
آوازیں خوبصورت ہیں۔ یہ زندگی کی علامت ہیں۔ ان میں زندگی کی خوشبو مہکتی ہے۔ بعض اوقات آوازوں کا شور تھم سا جاتا ہے۔ اور سناٹا ہر آواز، تحریک اور روانی کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ یہ سناٹا ہماری زندگی کا اہم حصہ بن چکا ہے۔ یہ وہ لمحے ہیں، جب ہم ذات کے انتشار سے باہر نکل کر بے اختیار اپنی خامیوں، کوتاہیوں اور غلطیوں کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں۔ اس وقت سانسیں منتشر ہوتی ہیں اور ذہن غم کی بھٹی میں سلگنے لگتا ہے۔ دنیا کی ہر تکلیف دہ کیفیت اس سناٹے کی پیداوار ہے۔
اس کیفیت میں زندگی کا پھول مرجھانے لگتا ہے۔ کائنات بے معنی اور تمام تر فلسفے بے وقعت دکھائی دیتے ہیں۔ 16 دسمبر کے بعد ایسا ہی سناٹا ہر طرف طاری ہو گیا۔ سردیوں کے دنوں میں شامیں اور راتیں ناقابل بیان غم سے بوجھل ہو گئیں۔ دنیا میں ہر دکھ قابل برداشت ہے سوائے ماں کی چیخ کے۔ گولی کہیں بھی چلے مگر مرتی ماں ہے۔ پورے ملک کی مائیں بے اختیار چیخ اٹھیں ظلم کے اس اندوہناک واقعے پر، ہر طرف آنسوؤں اور آہوں کے تذکرے تھے۔ مائیں کئی دن تک جاگتی رہیں۔ نیند جیسے ان کی آنکھوں سے روٹھ گئی ہو۔ میری دوست کا فون آیا تو وہ آبدیدہ تھی۔ کہنے لگی آج میں نے اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیجا۔ میں بہت بری طرح سے خوفزدہ ہوں۔ ہمارے ملک کے بچوں کا مستقبل کیا ہو گا۔ اس سوال کا جواب شاید کسی کے بھی پاس نہیں ہے۔
سندھ کے مختلف شہروں میں نوجوانوں کی زخموں سے چور لاشیں اکثر ملتی ہیں۔ سندھ کی مائیں پہلے ہی ان واقعات پر نڈھال تھیں کہ یکایک پشاور سانحے کے واقعات سے اخبارات بھر گئے۔ بچوں کی لاشوں پر بین کرتی ہوئی ممتا کی تصاویر دیکھ کر ملک بھر کی ماؤں کے ذہن سناٹے میں آ گئے۔ لفظ بھی جیسے گویائی کی قوت سے محروم ہو گئے۔ ہر طرف دکھ بھری غم سے بوجھل خاموشی چھا گئی۔ ماں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اسے رنگ، نسل، ذات، پات کے خانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ماں کی محبت بے لوث ہے۔ ماں کے دل میں صوفی کا جلال دھڑکتا ہے۔ ماں کی آہ بے اثر نہیں ہوتی۔ پھر بھی مستقل ماں کی چیخیں ملک کے ہر گوشے میں گونجتی ہیں۔ اس کے درد کا کوئی درماں نہیں ہے۔ ہر دکھ کی شدت تھم جاتی ہے۔
مگر ماں کے زخم کبھی نہیں بھرتے۔ اس کی گود اجڑنے کا وہ لمحہ دائمی سناٹے میں بدل جاتا ہے۔ اس سناٹے کو دنیا کی کوئی آسائش، سکھ یا ترغیب رونقوں میں بدل نہیں سکتے۔ سناٹا ایک دائمی کیفیت بن کر عمر بھر ماں کے پہلو میں دھڑکتا ہے۔ فقط ایک ماں ہی دوسری ماں کا دکھ سمجھ سکتی ہے۔یہاں لوگ بھی اذیت پسند ہیں۔ دکھ کی تشہیر کرتے ہیں۔ فیس بک پر زخمی و مردہ بچوں کی تصاویر شیئر کی جاتی ہیں۔ انھیں لائک کیا جاتا ہے۔ بار بار اس دکھ کو دہرایا جاتا ہے۔ زخموں کو کریدا جاتا ہے۔ یہ تصویریں دیکھ کر میری دوست کا بیٹا پوچھتا ہے ''ماں! آپ مجھے جس کیڈٹ کالج بھیجیں گی، کیا اس کی دیواریں اونچی ہوں گی؟'' وہ بھی سوال سن کر سناٹے میں آ گئی اور کوئی جواب نہ دے سکی۔ خوف کے دبیز سائے ہر طرف چھائے ہوئے ہیں۔
خوف ہی اوڑھنا بچھونا ہو جیسے۔ بے یقینی کا ایک گہرا بھنور ہے۔ شک کی ایک گہری کھائی ہے۔ ڈر کا ایک اندھا کنواں ہے۔ جس میں انسانی آدرش، امیدیں اور تمام تر خواب مستقل گرتے چلے جا رہے ہیں۔ سب سے زیادہ تکلیف بچے اٹھا رہے ہیں۔ جو اس دور کی بے یقینی کا شکار ہیں۔ یہ معصوم بچے، ٹین ایجرز اور اس ملک کے نوجوان جس ذہنی کرب اور عذاب کا شکار ہیں اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ باہر جا کر کھیل نہیں سکتے۔ یہ آزادی سے باغوں میں نہیں جا کے بیٹھ سکتے۔ تفریحی مقامات پر جانے سے پہلے انھیں سوچنا پڑتا ہے۔ کوئی زمانہ تھا کہ اسکول، کالج و یونیورسٹیز کے طالب علم پکنک پر دور دراز علاقوں کی طرف رخ کرتے تھے۔ آج کل یہ تفریحی سرگرمیاں محض خواب و خیال ہو کے رہ گئی ہیں۔ غیر نصابی سرگرمیاں اور سیر و تفریح کے پروگرامز نئی نسل کی ذہنی صلاحیتوں کو فروغ دیتے ہیں۔ تمام تر تخلیقی سرگرمیاں، زندہ دل و متحرک ماحول ذہن و روح کی آبیاری کرتا ہے۔بچے خوبصورت ہوتے ہیں۔
ان کی سوچ ہوا کے تازہ جھونکے کی سی ہے۔ بقول ایک مفکر کے کہ ''بچوں کی خوبصورت دنیا کو اپنے ذہنی تضاد کا نشانہ نہ بنائیں۔ بچوں کو نفرت و تعصب کرنا نہ سکھائیں۔ انھیں تصویر کا صحیح رخ دکھائیں۔ انھیں غیر جانبدار سوچ و رویہ سکھائیں تا کہ انسانیت ہمیشہ سرخرو رہے۔'' سیاسی پسماندگی، دہشت گردی، نسلی تعصب اور فرقہ واریت قوموں کی خوشحالی کو دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں۔ ایک دن یہ قومیں اپنی لگائی ہوئی آگ میں جلنے لگتی ہیں۔ لیکن دنیا میں ایسی مثالیں بھی پائی جاتی ہیں، جب قومیں خانہ جنگی اور انتشار سے باہر نکل آئیں۔ اور متحد ہو کر انھوں نے منفرد راہ کا انتخاب کیا۔ یہ مثبت رویے اپنا کر آج کامیابی کی اونچی منزلوں پر کھڑی ہیں۔ یہ تبدیلی لفظوں کی وجہ سے نہیں آتی۔ بلکہ عمل کی طاقت اس کا محرک بنتی ہے۔
قوم جب اجتماعی تشخص کا خطرہ لاحق ہو تو باشعور فرد کو تمام تر تضادات و تفریق بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں صورتحال مختلف ہے۔ سیاسی و سماجی صفوں میں مستقل انتشار کی وجہ سے یہ ملک مختلف قسم کے سنگین مسائل کا شکار ہے۔ دہشت گردی کی وجہ سے کئی گھروں کے چراغ بجھ چکے ہیں۔ پشاور واقعے میں جاں بحق ہونے والے طالب علم کی ماں ٹی وی پر کہہ رہی تھی کہ ''کیا تم لوگوں کی مائیں نہیں ہیں جو ماؤں کی گود بے دردی سے اجاڑتے ہو؟'' اس مظلوم ماں کے آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔اینا میری چھوٹی دوست ہے، جو او لیولز کر رہی ہے۔ کچھ سال پہلے وہ ایک زندہ دل لڑکی ہوا کرتی تھی مگر اب خاموش طبع اور سنجیدہ رہتی ہے۔ وہ ملکی و غیرملکی سیاست پر گہری نگاہ رکھتی ہے۔ اس کی معلومات کا دائرہ بھی وسیع ہے۔ وہ او لیولز کر کے باہر جانا چاہتی ہے۔ ماں اس کے بارے میں فکرمند رہتی ہے۔ ایک دن کہنے لگی ''دعا کریں کہ جلدازجلد باہر چلی جاؤں۔''
''لیکن ابھی تو تم اتنی میچور نہیں ہوئی ہو کہ باہر کی دنیا کو فیس کر سکو۔'' کہنے لگی ''دکھ انسان کو عمر سے بڑا بنا دیتے ہیں۔'' وہ ٹوٹے لہجے میں بولی۔ ''سب کچھ تو اچھا ہے تمہاری زندگی میں، پھر کیا دکھ ہے؟''''اس ملک میں ہونے والا ہر سانحہ مجھے کئی سال آگے لے جاتا ہے۔ کچھ سال پہلے سیالکوٹ کے دو بھائیوں کو بے دردی سے ہلاک کر دیا گیا تھا اس کے بعد میرا دل نہیں چاہتا اس ملک میں رہنے کے لیے۔ اور اب یہ پشاور میں معصوم بچوں کا قتل عام دیکھ کر میرا دل اور اچاٹ ہو گیا ہے اس ملک سے۔ آپ دعا کریں مجھے جلد کوئی اچھی سی اسکالرشپ مل جائے اور میں یہاں سے چلی جاؤں۔ مجھے اس ملک میں نہیں رہنا۔'' یہ الفاظ سن کر عجیب سا سناٹا میرے وجود میں اتر آیا۔ یہ فقط اپنا ہی نہیں بلکہ تمام تر نئی نسل اپنے وطن میں جلاوطنی کا عذاب جھیل رہی ہے۔