انصاف کے تقاضے
کرمنل ٹرائل سے قوموں کی بلندی و پستی دونوں کی شناخت ہوتی ہے۔اگر وہ شفاف ہیں تو سمجھیےایسی قومیں صدیاں زندہ رہتی ہیں۔
یہ پہلا موقع تھا جب سارے کے سارے سول قیادت والے اکٹھا ہوکے مارشل لا (فوجی قانون) مانگ رہے تھے اور ہماری آواز کسی نگار خانے میں اک طوطے کے مانند دب گئی۔ ہمارے بعض اہم اداروں میں سوشل سائنسز کا کوئی بھی مضمون نہیں پڑھایا جاتا اور ہم سب تاریخ کو سائنس کا مضمون سمجھ کر پڑھنے سے قاصر ہیں۔
ہمارے لیے تاریخ کسی درباری مورخ کا دفتر ہے۔ یا وہ تاریخ جو ہم اپنے بچوں کو مسخ کرکے پڑھاتے ہیں۔ یوں لگتا ہے حقیقت سے ملنے کا کسی کو بھی شوق نہیں اور آئینے کے سامنے پڑی ہوئی شمعوں کو ہم نے گل کردیا ہے۔ اسی مناسب وقت کے لیے رومی کہتے ہیں ''جب کوؤں نے باغ میں ڈیرے ڈالے تو بلبلیں چپ ہوکر چھپ گئیں''۔
کرمنل ٹرائل سے قوموں کی بلندی و پستی دونوں کی شناخت ہوتی ہے۔ اگر وہ شفاف ہیں تو سمجھیے ایسی قومیں صدیاں زندہ رہتی ہیں اور اگر نہیں ہیں تو یوں کہیے خانہ جنگی آپ کی چوکھٹ پر کھڑی ہے۔ کوئی نئی بات نہ ہوگی کہ آج ہم نے ملٹری کورٹس مانگے ہیں لیکن اکیسویں صدی کے زینے پر بیٹھ کر غیر شفاف ٹرائل دینا ہمیں دنیا میں بہت چھوٹا کردیتا ہے۔
ڈر اس بات کا نہیں ہوتا کہ مجرم تختہ دار تک پہنچ نہیں پائے گا بلکہ اس بات کا ہوتا ہے کہ شفقت ذہنی معذور جیسا کم عمر نوجوان اور اس جیسے کئی معصوم نہ سولی پر چڑھ جائیں۔ سقراط اس لیے بڑا نہیں کہ وہ فلسفی تھا۔ وہ اس لیے تاریخ میں بڑا ہے کہ اسے انصاف نہیں ملا تھا۔ یسوع کو انصاف نہیں ملا تھا۔ سرمد اور حلاج کو انصاف نہیں ملا تھا، جسے انگریزی میں Miscarriage of Justice کہتے ہیں، وہ جو ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ہوا تھا۔ پھر کیا ہوتا ہے، ایسے غیر شفاف ٹرائل قوموں کی روحوں کو صدیوں تک ڈستے رہتے ہیں اور آیندہ آنے والی نسلیں اپنے اجداد کے ان غیر انسانی کاموں کا کفارہ ادا کرتی رہتی ہیں۔
معذرت کے ساتھ ایسی کوئی بات نہیں ہوا کرتی۔ فیصلہ ملزم کا پہلے ہی ہوجاتا ہے، بس رسم نبھائی جاتی ہے۔ ٹھیک ہے کہ ہمارا موجودہ کرمنل پروسیجر سسٹم بہت ہی بڑے بحران کا شکار ہے لیکن اس انتہا کو اس انتہا سے برابر نہیں کیا جاسکتا کہ ٹرائل ایک دن کا ہو اور جزا و سزا کا فیصلہ کھڑے کھڑے صادر ہو۔ یہ آپ کہتے ہیں کہ صرف ان مجرموں کو ان عدالتوں میں لایا جائے گا جو بہت ہی Wanted مجرم ہوں گے۔ یہ آپ کہتے ہیں، اور یہ آپ آج نہیں ہمیشہ سے کہتے ہیں اور ہمیشہ آپ غلط ثابت ہوتے ہیں۔ اور ہمیشہ ہم آپ پر اعتبار کرتے ہیں اور ہمیشہ ہم دھوکا کھاتے ہیں۔
میں ریکارڈ پر ہوں اسامہ بن لادن کتنے ہی گھناؤنے مجرم کیوں نہ ہوں لیکن میں نے کہا تھا کہ اسے بھی ایک شفاف ٹرائل ملنا چاہیے تھا اور عدالت میڈیا میں آئی ہوئی خبروں سے اسے نہیں پرکھتی بلکہ جو شواہدات عدالت میں پیش ہوں اس سے پرکھتی اور اگر شواہدات کمزور ہوں تو اسامہ بن لادن جیسے شخص کو شک کی بنیاد پر چھوڑ دیتی۔ اب کون کرے گا ان ملٹری کورٹس میں اس بات کو ثابت کہ شواہدات بالکل سو فیصد حقیقی اور سچے ہیں کہ یہ شواہدات مجرم سے زبردستی نہیں لیے گئے کہ یہ اعتراف اسے ٹارچر دینے کے بعد نہیں کرایا گیا کہ یہ شاہدی کی تحقیق و تخمینہ اس جج نے صحیح انداز میں کیا ہے۔ وہ جج جو ایک دن کا بھی جوڈیشل کورس اپنے پروفائل میں نہیں رکھتا۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ جج آج مجرم سے خوف کھاتے ہیں۔ کیونکہ ان مجرموں نے ججوں کو مارا ہے۔ کسی جج نے بلاسفیمی کے الزام کو غلط مانا، تو اس کو اسے غلط ماننے کے جرم کی پاداش میں مار دیا۔ کسی مولوی نے گورنر تاثیر پر فتویٰ صادر کیا تو اسے اپنے محافظ نے مار دیا۔ اور محافظ غازی بن گیا۔ ایسے بھی منصف ہیں جو ان آئین کے تحت چلتے ہوئے قوانین کی پیروی نہیں کرتے بلکہ اس تشریح کی کرتے ہیں جو جنرل ضیا الحق نے کی اور ہم ان ترامیم کو نہ آئین سے نکال سکتے ہیں، نہ کسی عام قانون سے اور اگر ایسی بات بھی کسی نے کی، ہم نے اس کو بھی غلط ٹھہرایا۔ بات کرنے کی، سوچ کی آزادی کے ہم نے سارے دروازے قدغن کردیے۔ ہم نے وہ وہ فیصلے صادر کیے، آرٹیکل 2A کی وہ تشریح کرنے کی کوشش کی، جس سے سارے کا سارا آئین بھسم ہوکر گر جائے۔ یہ اس کا ثمر ہے کہ عدالتوں نے سب کو ایک آنکھ سے دیکھنا چھوڑ دیا۔ جو جس خاندان سے تھا اس نے اس خاندان سے اپنے آپ کو منسلک رکھا نہ کہ اس روایت کا کہ جو آزاد و شفاف عدالت کا Cardinal اصول ہے:
Let the justice be done, though the heavens should fall
یہ عظیم کہاوت جسے لارڈ ڈیننگ اپنی کتاب میں اس حقیقی ٹرائل کے ساتھ بیان کرتے ہیں جو ایک کرمنل ٹرائل میں سزا دیے ہوئے مجرم کی سزا معاف کرنے پر ایک Piso نامی جج نے کہی تھی اور یہ جملہ شفاف ٹرائل کے منظر کا عکس بن کر رہ گیا۔ یہ ہم تھے جنھوں نے بھٹو کو تو غیر شفاف ٹرائل میں قتل کردیا اور یہ ہم ہیں جو مشرف کو شفاف ٹرائل اگر دینا بھی چاہیں تو دے نہیں سکتے۔ ہم سانحہ ڈھاکا میں حمود الرحمن کمیشن میں دکھائے ہوئے ممکنہ مجرموں کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا نہ کرسکے۔آگ ہے برابر دونوں طرف لگی ہوئی۔ نہ یہ سچ ہے نہ وہ سچ ہے، نہ یہ حل ہے نہ وہ حل ہے۔
ہم کوئی بھی نظریاتی ریاست نہیں ہیں۔ ہماری جلا ایک فلاحی ریاست میں ہے۔ علم میں اور ہنر میں ہے۔ ہماری ہزاروں سالہ اپنی تاریخ ہے۔ ہم وادی سندھ کے لوگ ہیں، لداخ سے لے کر کراچی تک۔ خدا کے واسطے ہمیں اس تہذیب میں رہنے دیجیے۔ ہم کوئی عرب، ترک و افغان نہیں۔ وہ حملہ آور تھے۔ اسلام یہاں صوفیوں نے پھیلایا۔ ہمیں اپنے صوفیوں کے پاس رہنے دیجیے۔
آپ نے ملٹری کورٹس کا کام اس وقت کیا جب آپ نے میڈیا کو بھی خبردار کیا کہ ایسے مذہبی نفرتیں پھیلانے والوں کو کوریج نہ دیں۔ یہ کام تو آپ کو پہلے سے کرنا چاہیے تھا۔ عمران خان کل تک ان طالبان کی وکالت کر رہے تھے۔ کیا برا ہے وہ یہ مانیں کہ وہ غلط تھے۔ ایسا کرنے سے وہ چھوٹے نہیں بلکہ بڑے بن جاتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی قیادت نے بھی بہت سے مذہب پرستوں کے ساتھ اتحاد رکھا ہے۔ وہ بھی اسی ضیا الحق کی پگڈنڈی سے برسر اقتدار پہنچے، اسی Narrative کا ثمر ہیں، جس Narrative نے آج پاکستان کو اس دوراہے پر لاکر کھڑا کردیا ہے اور اب انھوں نے بھی جناح کی تصویر میں پناہ سمجھی ہوئی ہے۔
جس طرح سے دہشت گردوں نے ہمارے کلیجے پر حملہ کیا ہمارے لخت جگر مار دیے، اسی طرح یہ دہشت گرد ہمارے کلیجے کے اندر رہتا ہے۔ وہ ہم سے بے رحم ہوگیا ہے۔ ہمیں اس سے بے رحم ہونا ہے۔ مگر وہ کام جو ہماری مسخ شدہ تاریخ میں پڑا ہوا ہے وہ کون کرے گا، اس کی سمت کا تعین کون کرے گا۔ اس ملک میں سب میسر ہے مگر انصاف میسر نہیں۔ ہر ایک آنکھ یرقان سے بھری ہوئی آنکھ ہے۔ ذاتی مفادات سے ہم بڑھ کر قومی سطح پر سوچنے سے قاصر ہیں۔
پاکستان کا بنیادی مسئلہ اس کی Narrative میں وہ کرپشن ہے جو ہم نے وقت کے ساتھ کی ہے۔ ہم نے سویلین سرپرستی کو سرے سے مانا ہی نہیں۔ ہم نے سویلین میں اپنے من پسندیدہ لوگوں کو لیڈر بننے کے لیے جگہ دی۔ جو عوام کے چنے ہوئے نمایندے تھے ان کو مانا نہیں اور مصنوعی طریقے سے ایسے لوگوں کو سول لیڈر کیا تاکہ یہ کمزور لوگ یہاں کی اسٹیبلشمنٹ کے لیے اگر چاہیں بھی تو چیلنج بنیں مگر وہ طاقت ور ہی نہ ہوں کہ ایسا کرسکیں۔
جن پتوں پر ہمیں ناز تھا آج وہی پتے ہوائیں دینے لگے۔ کوئی بھی پاکستان کے آئین میں ملٹری کورٹس کی گنجائش نہیں۔ اس آئین کی Bark Structure Theory کا بھی تعین ہوا چاہتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اس مشہور کیس جس نے اندرا کی فسطائیت کو روکا تھا، ملٹری کورٹس کو آئینی بنیادی ڈھانچے کے ساتھ تصادم میں قرار دیا جائے۔ جس آئین سے بنیادی حقوق نکل جائیں وہ آئین پھر آئین نہیں رہتا۔ یہ دہشت گرد کسی دوسرے ملک کے نہیں، ہم کسی اور ملک کے اندر نہیں کہ ملٹری کورٹس بنائیں، کوئی گوانتا ناموبے بنائیں۔
یہ دہشت گرد ہماری صفوں میں سے ہیں، ہم میں سے ہیں، انھیں ہم جیسا عام قانون و شفاف ٹرائل ملنا چاہیے۔ اور وہ ہوسکتا ہے۔ یاد رکھیں ہم اگر آئین کے دائرے سے باہر نکلے تو پھر کچھ بھی نہیں بچے گا۔ وہ انتہا پرست ہوں جو شریعت کے نام پر پوری قوم پر انتہا پرستی مسلط کرنا چاہتے ہوں یا وہ سوچ ہو جو ملٹری کورٹس سے اس مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہو۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کسی ایک غلط کام سے ہم دوسرے غلط کام کو ختم نہیں کرسکتے۔