ابھی نہیں تو کبھی نہیں
کثرت اولاد والے والدین سے بمبار تیار کرنے والے شیطان صفت جعلی ملا بچہ مانگ کر ان کے گھر والوں کو یہ لالچ دیتے ہیں۔
میں ایک دوست کے گھر بیٹھا تھا کہ اس کا نوعمر بیٹا اپنا لیپ ٹاپ لیے کمرے میں داخل ہوا اور کہنے لگا کہ اسے ایک وڈیو فلم موصول ہوئی ہے جو وہ ہمیں دکھانے آیا ہے۔ اس نے اپنے کمپیوٹر پر فلم چلائی۔ یہ کوئی پہاڑی علاقہ تھا جس میں درختوں میں گھرا ہوا ایک مکان تھا۔ اس کے باہر دس بارہ بچے ناہموار پہاڑی کو کرسیاں بنائے بیٹھے تھے۔
ایک باریش شخص جس کا چہرہ ٹھیک سے دکھائی نہیں دیتا تھا، رٹے ہوئے الفاظ میں بچوں کو دینی لیکچر دیتے ہوئے خدا اور رسول کے ذکر کے ساتھ انھیں زندگی کا الوہی مقصد بتاتے ہوئے بے ثبات دنیاوی زندگی کے مقابلے میں جنت کی نوید اور اس کے ثمرات دلنشین انداز میں سمجھا رہا تھا۔ اس شخص کے مطابق وہ بچے جو کفر کے ماحول اور نظام میں رہ کر خدائی احکام سے روگردانی کرتے ہوئے رسول اللہؐ کی تعلیمات سے بھی دور ہوتے جا رہے تھے اور گناہ عظیم کے مرتکب ہو رہے تھے جو دوزخ کا رستہ ہے۔
لہٰذا ان پر جہاد واجب ہو گیا ہے اس لیے اگلے جہان میں حوریں، دودھ کی نہریں اور شیریں پھل حاصل کرنے کے لیے تمام پاکستانی کفار کو ختم کرنا اب ان پر بذریعہ قتال و جہاد لازم ہو گیا ہے۔ میرے دوست نے کچھ دیر تک تو اس وعظ کو برداشت کیا پھر اپنے بیٹے سے کہا کہ اس وڈیو کو فوراً Delete کرو کیونکہ ایسا شیطانی وعظ معصوم بچوں کی برین واشنگ کے لیے اور پھر انھیں ورغلا کر خودکش بمبار تیار کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
ٹیلی ویژن پر کچھ روز قبل ایک قیدی ناکام خودکش بمبار کا جس کی عمر بیس سال ہو گی انٹرویو چلا تھا۔ یہ نوجوان بے حد پراعتماد تھا جس نے کہا کہ اگر وہ رہا ہو گیا تو اپنے امیر کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے مشن کی تکمیل میں مسجد ہو یا اسکول، اسپتال ہو یا کوئی درگاہ، مارکیٹ ہو یا جنازہ ان گنت لوگوں کو بموں سے اڑانے سے گریز نہیں کرے گا۔ اگر دو آدمیوں کو مارتے وقت اسے اپنی فیملی کے آٹھ افراد کو مارنا پڑا تو وہ انھیں بھی نہیں چھوڑے گا۔ اس نے شادی کرنے کے سوال پر کہا کہ ایک عورت سے شادی کرنے کی بجائے خودکش حملے میں خود کو اڑا کر جنت میں جانے کو ترجیح دے گا جہاں بہتر (72) حوریں اس کی منتظر ہوں گی۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کے اکثر علماء اور شہری کافر ہیں جنھیں مار دینا عین ثواب ہے۔
بلاشبہ اس نوجوان کی برین واشنگ کرنے والے جہنمیوں نے اس پر خوب محنت کی تھی کیونکہ اس نے ایک مرحلے پر کہا کہ اسے کچھ اور نام دینے کی بجائے فدائی کہا جائے۔ متعلقہ ایجنسیوں کو ایسے معصوم درندوں کے علاوہ ایسے درندے تیار کرنے والی فیکٹریوں پر خاص توجہ دینی چاہیے کیونکہ کثرت اولاد والے والدین سے بمبار تیار کرنے والے شیطان صفت جعلی ملا بچہ مانگ کر ان کے گھر والوں کو یہ لالچ دیتے ہیں کہ وہ بچے کو دینی تعلیم دے کر انھیں اس قابل بنا دیں گے کہ وہ اپنے عزیزوں کے لیے جنت کا دروازہ کھولنے والی بزرگی کے مقام پر پہنچ جائے گا۔ اس کے علاوہ وہ بچے کے والدین کو ہر ماہ معقول رقم بھی دیا کریں گے۔ والدین بھی سوچتے ہیں کہ چلو ایک بچے کا بوجھ بھی ان پر سے کم ہو جائے گا اور بچہ بھی عالم فاضل بن کر ان کی بخشش کا ذریعہ بن جائے گا اور یوں کمسن بچہ بمبار تیار کرنے والی فیکٹری میں برین واشنگ کا سبق پڑھ کر دماغ و دل میں شیطان ملا کی سی ڈی فٹ کروا لیتا ہے۔ اس مقصد کے لیے بے راہ رو اور اغوا شدہ بچے بھی استعمال ہوتے ہیں۔
خودکش بمباروں کے حوالے سے ایک لطیفہ یا سچی کہانی سنی ہے کہ بمبار بچہ ایک مجمع میں خود کو اڑانے میں کسی تکنیکی خامی کی وجہ سے ناکام ہو کر پریشان ہوا تو شک پڑنے پر لوگوں نے قابو کر لیا۔ وہ ہاتھ پیر مارتے ہوئے اتنا گھبرا گیا کہ بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ لوگوں نے اس کی جیکٹ وغیرہ اتار دی اور ایک ماہر نے اسے ناکارہ کر دیا۔ بے ہوش بچے کو ایمبولینس اسپتال لے گئی۔ جس کمرے میں اسے بستر پر لٹایا گیا اس کے باہر سیکیورٹی والے اس کے ہوش میں آنے کا انتظار کرنے لگے جب کہ کمرے میں اس کے بستر کے گرد چار نرسوں کو کھڑا کر دیا گیا کہ وہ جونہی ہوش میں آئے باہر موجود سیکیورٹی کو مطلع کر دیا جائے۔ خودکش بمبار ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد ہوش میں آ گیا اور اٹھ کر بستر پر بیٹھا اردگرد کا جائزہ لینے لگا۔ اس کی نظر یونیفارم میں ملبوس چار نوجوان نرسوں پر پڑی تو سمجھا وہ جنت میں پہنچ گیا ہے۔ اس نے مسکراتے ہوئے نرسوں سے پوچھا ''باقی دیاں کتھے نیں۔''
اسی طرح کی ایک اور سچی یا جھوٹی کہانی ہے کہ خودکش بمبار کسی وجہ سے سوئچ آن کرنے پر بھی خود کو اڑانے میں ناکام ہوا تو پکڑا گیا۔ اس کے بازو باندھے گئے تو وہ شدید احتجاج کرتے ہوئے چلانے لگا کہ مجھے مت روکو ورنہ گنہگار ہو گے۔ مجھے خود کو بلاسٹ کر کے جنت میں حاضری دینی ہے۔ وہاں پر میرا انتظار ہو رہا ہے۔ میں وقت پر نہ پہنچا تو دیر ہو جائے گی۔
ایسی سچی جھوٹی لیکن افسوس ناک کہانیاں ہیں لیکن یہ ایک سنجیدہ ہی نہیں نہایت تکلیف دہ موضوع ہے۔ یہ ان لوگوں کی کہانیاں ہیں جو گمراہ ہیں، درندے ہیں۔ شرف انسانیت کی نفی اور افسوس کہ ان میں بہت سے معصوم درندے بھی ہیں۔
ایک سال قبل میرا لاہور پریس کلب جانا ہوا تو وہاں چند روز کے دوران پے درپے ہونے والے خودکش حملوں کے نتیجے میں ہونے والی معصوم بچوں اور بڑوں کی ہلاکتوں پر شدید رنج اور مایوسی کا اظہار ہوتا سنا۔ میں نے اس کے ڈیڑھ ماہ بعد ''فیصلے کی گھڑی آن پہنچی'' کے عنوان سے جو کالم لکھا اس کا ایک پیراگراف یوں تھا:
''ڈیڑھ ماہ قبل میرا لاہور پریس کلب جانا ہوا تو وہاں مسلم لیگ (ن) کی انتخاب جیت کر آئی حکومت اور روزانہ کی بنیاد پر جاری دہشت گرد حملوں پر سخت تنقید ہوتی اور ملک کے مستقبل کے بارے میں شدید مایوسی کا اظہار سننے کو ملا۔ وہاں سے رخصت ہوتے ہوئے میں نے کہا کہ صرف چھ ماہ انتظار کر لیں معاملہ آر پار ہو جائے گا۔ متفقہ آئین اور دنیا کی ساتویں فوجی طاقت رکھنے والے ملک کی فوجی قیادت اور سول حکومت کو ایک پیج پر آنے اور برداشت کی حد پار ہونے میں چند ماہ لگیں گے لیکن معاملہ آر نہیں ہو گا پار ہو گا اور حکومت دہشت گردوں سے اسی طرح نمٹے گی جو وقت کا تقاضا ہے۔''
صد افسوس کہ ہماری سول حکومت، سیاسی و مذہبی جماعتوں کو فوجی قیادت سے ہم آہنگ ہونے کے لیے ڈیڑھ سو معصوم بچوں کی درندوں کے ہاتھوں شہادت اور عوام کے شدید احتجاج تک کا انتظار کرنا پڑا لیکن اب مڑ کر دیکھنے کی گنجائش نہیں رہی کیونکہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔ اور یہ بھی کہ
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے پاکستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
نوٹ: اصل شعر میں ہندوستان ہے۔