لُہو سی لکھی کہانیاں کچھ ’’امی آج اسکول جانے کو دل نہیں چاہ رہا‘‘
خلافِ معمول اُس دن وہ گلے مل کر گیا, اسے کفن کے بجائے اسکول یونیفارم میں سپردِخاک کیا گیا
دو دوستوں کی دوستی اَمر ہوگئی
آرمی پبلک اسکول میں مچنے والی قیامت سے جُڑی درد کے قصے ۔ فوٹو : فائل
گم صم مگر ہونٹوں پر ہر وقت ہلکی ہلکی سی مسکراہٹ رکھنے والا حسنین کسی مرغی کو بھی خون میں لت پت نہیں دیکھ سکتا۔
یہی وجہ تھی کہ وہ مرغی فروش کی دکان کے سامنے سے گزرنے سے بھی کتراتا تھا۔ آرمی پبلک اسکول کے سانحے میں محکمہ ابتدائی و ثانونی تعلیم کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر میل پشاور شریف گل کا لخت جگر حسنین شریف شہید بھی اﷲ کو پیارا ہو گیا ہے، بہت سے دیگر والدین کی طرح ماہر تعلیم شریف گل بھی اپنے بچوں کے بہتر اور شان دار مستقبل کی خاطر اپنے گاؤں محب بانڈہ سے ہجرت کرکے پشاور میں آبسے تھے، تاکہ ان کے بچے بہتر تعلیم کی روشنی سے اپنے ملک و قوم کے مستقبل کو سنوار سکیں، لیکن ان کو کیا معلوم تھا کہ چند درندے چنگیز خان اور ہلاکو خان سے بھی بڑھ کر ظلم و بربریت اور سفاکی کی داستانیں رقم کرنے والے ان کے پھول مسل کر ان کے مستقبل کو ظلمت کدہ بنا دیں گے۔
حسنین شریف جس کا بھائیوں میں تیسرا نمبر تھا، واقعی بہت معصوم تھا اور اگر کوئی معصومیت کے معنی نہیں سمجھتا تھا تو حسنین جیسی کلی کو دیکھ کر وہ معصومیت کے معنی جان جاتا۔ گھر میں سب سے زیادہ گم صم رہنے والا حسنین شریف ہر وقت ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے پھرتا۔ حسنین کی زندگی صرف ان تین الفاظ کا مجموعہ تھی یعنی اس کے علاوہ اس کے پاس الفاظ ہی نہیں تھے یا شاید اسے اس دنیا کی بے ثباتی اور کم مائیگی کا بہت پہلے احساس ہوچلا تھا، چناں چہ اس کا کلام عموماً،''جی اچھا، جی نہیں اور اسلام علیکم'' ہی پرمشتمل ہوتا۔ شہید حسنین شریف کے والد جو ایک صابر انسان ہیں، حسنین کی شہادت کا تذکرہ سُن کر اپنا غم ضبط نہ کرسکے۔
جب شریف گل سے ان کے لخت جگر کے بارے میں بات کی گئی تو کہنے لگے کہ خلاف معمول اس دن حسنین اسکول جاتے ہوئے مجھ سے گلے ملا، عام روٹین میں وہ صرف سلام کر کے چلا جاتا تھا۔ اس دن نہ جانے کیوں وہ مجھ سے گلے ملا، شاید اسے اپنے وداع ہونے کا علم تھا۔ شہید حسنین شریف کی والدہ ایک اسکول کی سربراہ ہیں۔ روز وہ اسکول کے بچوں کے مسائل حل کرتی اور شرارتی بچوں کو چُپ کراتی رہتی ہیں، لیکن آج ان کے اپنے بچے نے ان کے ساتھ ایسی انہونی شرارت کردی کہ وہ دم بخود، چپ چاپ اور گم صم ہوکر رہ گئی ہیں اور دروازے پر نظریں لگائے اسی انتظار میں بیٹھی ہیں کہ ابھی دروازہ کھلے گا اور میرا جگرگوشہ اسلام علیکم کہہ کر مجھ سے آلپٹے گا۔ معصوم حسنین شریف واقعی شرافت کا چلتا پھرتا نمونہ تھا۔
اتنا رحم دل کہ وہ بازار سے مرغی لانے سے بھی انکار کردیتا۔ وہ کہتا کہ مرغی والا بڑا ظالم ہے۔ وہ اس کے پروں کو پاؤں کے نیچے دباکر اس کی گردن پر بڑی بے رحمی سے چھری پھیرتا ہے۔ یہ سب کچھ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا، لیکن حسنین کو کیا خبر تھی کہ اصل سفاک قصاب تو اس کی گردن پر چھری پھیرنے کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں اور ایک دھندلی صبح والی 16 دسمبر کو وہ درندے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔
''ہاں! اس نے شہادت کا رتبہ پالیا۔ مجھے فخر ہے کہ میں شہید کی ماں کہلاؤں گی۔ انسان کو تو ویسے بھی اس فانی جہاں سے ایک نہ ایک دن جانا ہی ہے، میری اور میرے لخت جگر کی جو خواہش تھی وہ پوری نہ ہوسکی، چوں کہ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ ماں یہ میری بڑی آرزو ہے کہ جس وقت مجھے موت آئے تو فوجی وردی میں آئے۔''
بدقسمت آرمی پبلک اسکول اینڈ کالج کے 4Th ایئر کا طالب علم وسیم اقبال بھی دیگر بچوں کی طرح جام شہادت نوش کرنے والوں میں شامل ہے۔ ضلع نوشہرہ کی زرخیز مٹی ترخہ سے تعلق رکھنے والے حاجی محمد ارشاد کے قابل فخر سپوت اور ایک بھائی اور تین بہنوں کے بہت ہی پیارے وسیم اقبال کی حوصلہ مند والدہ کا کہنا ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ آج مجھے اپنے جگر گوشے کی شہادت پر یہ حوصلہ اور صبر کہاں سے ملا ہے۔ مجھے اپنے بیٹے پر فخر ہے۔ میری آنکھوں میں آنسو ضرور ہیں، لیکن میں آج سرخ رو ہوچکی ہوں۔
انھوں نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا کہ میری اور میرے بیٹے کی یہ حسرت پوری نہ ہ سکی کہ وہ آرمی کی یونی فارم میں شہید ہو، جس کی وہ شدید خواہش رکھتا تھا۔ اسی مقصد کے لیے میرے دل کے ٹکڑے نے آرمی میں کمیشن حاصل کرنے کے لیے آئی ایس ایس بی میں ٹیسٹ بھی دیے تھے، لیکن ہماری یہ آرزو پوری نہ ہوسکی اگر میرا بیٹا یونی فارم میں شہادت کا رتبہ پاتا تو میں خود کو سب سے زیادہ خوش قسمت ماں سمجھتی۔
۔۔۔۔۔۔۔
جمعیت علماء اسلام (ف) کے ضلعی ترجمان حاجی محمد ابراہیم خان کا 14سالہ بھتیجا ہمایوں اقبال ولد محمد اقبال بھی آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردوں کے حملے میں شہید ہوگیا۔ اس کا ایبٹ آباد کیڈٹ کالج میں ایڈمیشن ہوگیا تھا اور وہ چند روز میں اسکول سے کیڈٹ کالج شفٹ ہونے والا تھا۔
چھے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہمایوں اقبال آرمی پبلک اسکول میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ شہادت کا رتبہ پانے والے ہمایوں اقبال کے والد محمد اقبال کا کہنا ہے کہ میرا لخت جگر آرمی میں کیپٹن بننا چاہتا تھا، لیکن اسے اﷲ نے اس سے پہلے ہی شہادت کے رتبے سے سرفراز کردیا۔ ہمایوں کے چچا محمد ابراہیم نے بتایا کہ میرا بھتیجا اسکول میں ہمیشہ اچھے نمبروں سے پاس ہوتا تھا اور کیڈٹ کالج میں اس کا ایڈمیشن بھی ہوگیا تھا۔ وہ چند روز بعد وہاں جانے والا تھا، لیکن زندگی نے وفا نہیں کی۔
۔۔۔۔۔۔۔
آرمی پبلک اسکول ورسک روڈ پر دہشت گردوں کا نشانہ بننے والا والدین کا اکلوتا بیٹا پورے خاندان کو رلا کے چلاگیا۔ اس حملے نے ان کا گھر ہی اُجڑ گیا، کیوں کہ 14سالہ حماد عزیز اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا، جو سکتے کی سی حالت میں ہیں۔ وہ جب بھی بولتے ہیں اپنے ساتھ دوسروں کو بھی خون کے آنسو رلاتے ہیں۔
حماد عزیز آرمی پبلک اسکول میں آٹھویں جماعت کے ذہین طالب علموں میں سرفہرست تھا۔ اس نے ایک دفعہ آرمی پبلک اسکول چھوڑ کر سینٹ میری اسکول میں داخلہ لے لیا تھا، لیکن موت اسے دوبارہ آرمی پبلک اسکول میں لے آئی۔ حماد عزیز تنظیم اعوان برادری کے سرپرست اعلیٰ ملک خورشید انور اعوان کا نواسہ اور تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن ملک شاد محمد مرحوم کا پڑپوتا تھا۔ آرمی میں کیپٹن بننا یا ڈاکٹر بننا اس کا خواب تھا، جس کے لیے وہ دن رات پڑھا کرتا تھا اور اپنی کلاس میں ہمیشہ پہلی پوزیشن لیا کرتا تھا۔ ان کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ ہر بڑے کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کے سر پر شادی کا سہرا سجائے، لیکن آج ہم اپنے پھول جیسے حمادعزیز کی قبر پر پھول چڑھارہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔
دہشت گردوں کے حملے میں محکمۂ تعلیم کے محمد امین کا اکلوتا 15سالہ بیٹا حیدرامین بھی زندگی کی بازی ہارگیا۔ اس کے والدین غم میں اس قدر ڈوبے ہوئے ہیں کہ ان پر غشی کے دورے پڑرہے ہیں۔ حیدر امین کے والد محمد امین نے سسکیاں لیتے ہوئے بہ مشکل بتایا کہ ان کا بیٹا جو بننا چاہتا تھا وہ بن گیا۔ انھوں نے کہا کہ اس کے سہارے زندگی کی سانسیں رواں تھیں اب کس کے سہارے زندگی بسر ہوگی اور کیسے بسر ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔
شہید ہونے والے طالب علم ذوالقرنین کو والدین نے کفن کی بجائے اپنے اسکول کے یونی فارم میں مٹی کے سپرد کردیا، ان کے عزیزوں نے بتایا کہ ذوالقرنین شہید ہے اس لیے اسے اس کے یونی فارم میں خود سے جدا کردیا۔ انھوں نے بتایا کہ آرمی میں کیپٹن بننے کا شوق ذوالقرنین کو کیڈٹ کالج جھنگ سے آرمی پبلک اسکول دوبارہ کھینچ لایا۔
۔۔۔۔۔۔
''یہ دوستی ہم نہیں توڑیں گے، توڑیں گے دم مگر تیرا ساتھ نہ چھوڑیں گے۔'' اس گیت کے بولوں کو سچا ثابت کرنے والے اذان اور محمدعلی الرحمان ہیں، جنہوں نے زندگی میں بھی دوستی نبھائی اور موت کے راستے پر بھی ہاتھ میں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ایک ساتھ چلے گئے۔ یوں وہ سچی دوستی کی کہانی چھوڑ گئے۔ یہ دوست جن کی دوستی نوسال پر محیط تھی، اکٹھے ہی راہی عدم ہوئے۔ انھوں نے پہلی جماعت سے لے کر نویں جماعت تک پورے 9 سال دوستی ایسی نبھائی کہ ایک ہی ڈیسک پر بیٹھتے اور اور ہر جگہ ساتھ ساتھ ہوتے۔
اذان نے جماعت نہم میں بیالوجی کے مضمون کا انتخاب کیا تو محمد علی الرحمان بھی اپنے والد سے محمد حسین سے بیالوجی لینے کی خواہش کرنے لگا اور اس نے اپنی بات منوالی۔ دونوں کی ڈاکٹر بننے کی تمنا تھی جو ادھوری رہ گئی۔ ان کے جاننے والے بتاتے ہیں کہ ان کی سچی اور پکی دوستی دوسروں کے لیے ایک مثال تھی۔ دونوں کو اسکول کے بعد مسجد میں اور پڑھائی کے علاوہ کسی اور جگہ پر کسی نے نہیں دیکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
سولہ دسمبر کو درندوں کا نشانہ بننے والا حاجی زئی متھرا اور داؤد خان آرمی پبلک اسکول اینڈ کالج میں سیکنڈایئر کے طالب علم تھے۔ داؤدخان کے والد خالدخان جو آرمی اور ایف سی سے ریٹائر ڈرل انسٹرکٹر ہیں، نے بتایا کہ اس روز جب داؤدخان اسکول جارہا تھا، اس کے چھوٹے بھائی ولی اﷲ نے اس سے کہا کہ بھائی کہاں جارہے ہو؟ تو داؤد خان نے جواب دیا،''قبرستان جارہاہوں۔'' اس کے چچازاد بھائی حمزہ نے اس سے کہا تھا کہ جب تم پرچہ دے کر فارغ ہوجاؤ تو پھر دونوں اکٹھے جیکٹ خریدنے صدر بازار جائیں گے۔
داؤد خان اکثر گھر میں کہا کرتا تھا کہ میں آرمی میں جاؤں گا اور میری یہ آرزو ہے کہ میں اپنے وطن کی حفاظت کے لیے شہید ہوجاؤں اور میری قبر کے کتبے پر شہید لکھا ہو۔ اس کی یہ آرزو پوری ہوگئی۔ اس کا چھوٹا بھائی ولی اللہ اس سے بہت پیار کرتا تھا۔ اب وہ ہر لمحہ اسے یاد کرتا ہے اور باربار پوچھتا ہے کہ بھائی کب آئے گا؟
۔۔۔۔۔۔
''وہ ہمیشہ کہتا تھا کہ میں ایک آرمی آفیسر بنوں گا، لیکن وہ فوج میں جائے بغیر ہی شہادت حاصل کرگیا۔''
یہ الفاظ پشاور کے علاقے ورسک روڈ پر واقع خوش حال باغ کالونی سے تعلق رکھنے والے محمد علی رحمان شہید کے والد نے گفتگو کرتے ہوئے ادا کیے۔ اس بچے کا وطن عزیز کی حفاظت کرنے کا ارادہ اس کے فیس بک پر اپنی پروفائل پکچر کی صورت میں دی جانے والی پاک آرمی اور پاکستان کے جھنڈے کی تصویر سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ محمد علی رحمان شہید کے والد محمد حسین نے بتایا کہ وہ خود بھی پاک آرمی میں ہیں۔ انھوں نے کہا،''صبح سویرے میرا بیٹا تیار ہوا۔ میں اسے خود چھوڑ کر آیا۔ وہ میرا سب سے بڑا بیٹا تھا۔
کاش مجھے معلوم ہوتا تو میں اسے گھر پر ہی روک لیتا، لیکن خدا کو اس کی شہادت منظور تھی۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ اسکول کے قریب ہی واقع آرمی یونٹ میں تعینات ہیں۔ وہ اپنی ڈیوٹی پر تھے کہ اچانک گولیوں کی آواز آئی۔ چند ہی لمحوں کے بعد انھیں معلوم ہوا کہ اسکول پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ان کے بیٹے کو ہمیشہ سے شوق تھا کہ وہ بڑا ہوکر آرمی آفیسر بنے گا۔ وہ آرمی آفیسر تو بن نہیں پایا لیکن اس ملک کی بقا کے لیے جام شہادت ضرور نوش کرگیا۔
۔۔۔۔۔۔
''پلیزامی! آج اسکول جانے کو دل نہیں چاہ رہا۔''
دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے آٹھویں جماعت کے طالب علم صاحب زادہ محمد عمر کی والدہ نے بتایا کہ صبح اسکول جانے سے پہلے مجھ سے عمر کی آخری گفتگو یہی تھی۔ وہ کہنے لگا، امی جان آج اسکول جانے کو دل نہیں چاہ رہا، مگر میں نے کہا نہیں بیٹا! اسکول نہیں جاؤگے تو پہلی پوزیشن کیسے لوگے۔ یہ عمر کے مجھ سے آخری کلمات تھے۔ مجھے کیا پتا تھا کہ عمر مجھے ساری عمر کے لیے یوں ہی روتا ہوا چھوڑ جائے گا۔ عمر کی ہمشیرہ مشعل نے بتایا کہ اسے انٹرنیٹ کا بہت شوق تھا۔ وہ نت نئے سافٹ ویئرز اور گیمز ڈاؤن لوٹ کرتا رہتا تھا۔ حملے والے روز عمر کا چھوٹا بھائی افراسیاب اور بہن مشعل بھی اسی اسکول میں تھے، مگر خوش قسمتی سے وہ اس سانحے سے محفوظ رہے۔
وہ روزے سے تھا
آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردی کے دوران شہید ہونے والا 15 سالہ میٹرک کا طالب علم حیدرامین ولد محمد امین درانی روزہ کی حالت میں شہید ہوا۔ تین بہنوں کا اکلوتا بھائی حیدر امین صوم وصلوٰۃ کا پابند تھا۔
اس نے پشاور کے سادات گھرانے کے مولوی امیرشاہ گیلانی ؒ کے صاحبزادے سید نورالحسنین گیلانی سلطان آغا کے زیرسایہ تربیت حاصل کی۔ 16 دسمبر کو حیدر امین نے نمازفجر ادا کی، قرآن پاک کی تلاوت کی اور جائے نماز وہیں چھوڑ گیا۔ اسے کیا پتا تھا کہ وہ آج آخری بار اﷲ کے حضور سجدہ ریز ہورہا ہے اور اپنے والدین اور بہنوں کو تمام عمر کے لیے غم زدہ چھوڑ کر اسکول جارہا ہے۔ واقعے کے دن وہ حسب معمول اسکول جانے کے لیے اپنے دوست اور ہم جماعت ملک عماد ولد ملک انیس کے ساتھ روانہ ہوا اور دونوں دوست دہشت گردوں کے اسکول پر حملے میں ایک ساتھ شہید ہوگئے۔
اسکول میں آویزاں تحریریں
قیامت سے دوچار ہونے والے آرمی پبلک اسکول، پشاور کی عمارت کے اندرونی مناظر دیکھنے والی ہر آنکھ نم تھی۔ اسکول میں داخل ہونے کے بعد دہشت گردوں کی جانب سے ابتدائی طور پر مین ہال کو نشانہ بنایا گیا، جہاں خون کے دھبے اور دیواروں پر گولیوں کے نشانات اس سانحے کی کہانی سنا رہے تھے۔ شہید بچوں کی کتابیں، جوتے اور پینسلیں بکھری پڑی تھیں۔ عمارت میں آویزاں تحریریں اس سانحے کے تناظر میں زیادہ بامعنی ہوگئی تھیں اور دل گداز تاثر پیش کر رہی تھیں۔
جیسے،''کیا وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے برابر ہوسکتے ہیں؟ ''ایگزیکیوشن پلان'' یہ تحریر نوٹس بورڈ پر آویزاں تھی، جس کے مطابق طلباء کو ان کے پورے روز کا معمول بتایا گیا تھا۔ تاہم دہشت گردوں کا ایگزیکیوشن پلان کچھ اور ہی تھا۔ ان تحریروں کے معنیٰ ومفہوم کے بارے میں شہید ہونے والے طلباء کے والدین اور دیگر افراد سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ان تحریروں سے ان بچوں اور دہشت گردوں کی سوچ کا فرق واضح طور پر سمجھا جاسکتا ہے، کاش دہشت گرد ان تحریروں میں استعمال ہونے والے الفاظ اور حرف کے اصل معنی ومفہوم کو پڑھ سکتے اور اس کے سیاق وسباق کو سمجھ سکتے تووہ یہ ظلم کبھی نہ ڈھاتے۔
''ہر بچہ خود کو پشاور کے سانحے سے نتھی کر رہا ہے''
پروفیسر شعبہ نفسیات جامعہ کراچی، ڈاکٹرفرح اقبال کا اظہار خیال
پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں ہونے والی وحشت و بربریت نے نہ صرف وہاں زیرتعلیم بچوں کی نفسیات پر برے اثرات مرتب کیے ہیں بل کہ اس افسوس ناک واقعے نے پورے پاکستان کے بچوں کو خوف میں مبتلا کردیا ہے۔ اس حوالے سے ہم نے جامعہ کراچی کے شعبۂ نفسیات کی پروفیسر، ڈاکٹر فرح اقبال سے گفتگو کی، انھوں نے کہا:
دہشت گردوں نے ہمارے مستقبل کو ہمارے معصوم بچوں کو نشانہ بنایا ہے۔ نہ صرف دہشت گردی کا نشانہ بننے والے اسکول کے بچے بل کہ پورے پاکستان کے بچے اسے خود پر حملہ سمجھ رہے ہیں اور عدم تحفظ کا شکار ہوگئے ہیں۔ اس واقعے کے بعد بچوں میں دو طرح کا طرز عمل سامنے آیا ہے۔ اول یہ کہ بچے بہت زیادہ جذباتی، دبائو اور غصے کا شکار ہیں۔ ان میں سفاکیت پیدا ہورہی ہے۔ ان کی سوچ مرنے اور مارنے والی ہوگئی ہے۔ اس وقت بچوں کو نفسیاتی مشاورت کی ضرورت ہے۔ یہ بچے ہر دہشت گرد کو اذیت ناک موت سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہ رجحان آگے جاکر ہمارے لیے مسائل پیدا کرے گا۔ ہر بچہ خود کو پشاور کے سانحے سے نتھی کر رہا ہے۔ اگر اس وقت ان کی اچھی طرح کونسلنگ نہیں کی گئی تو ان بچوں کا سفاکانہ رجحان پاکستان کے مستقبل کے لیے خطرناک ثابت ہوگا۔
اس واقعے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بچے بہت ڈرے سہمے ہوئے ہیں۔ وہ بہت مایوسی اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اُن کے ذہن پر خوف سوار ہے کہ اگر وہ باہر نکلے یا اسکول گئے تو گندے انکل (دہشت گرد) انہیں ماردیں گے۔ ان بچوں کا بھروسا نہ صرف اپنے اساتذہ بل کہ اپنے والدین پر سے بھی اٹھ گیا ہے۔
انہیں یہی خوف ہے کہ کوئی بھی ، کسی بھی دن انہیں اسکول یا گھر میں گھُس کر گولیوں سے چھلنی کردے گا۔ میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ اس واقعے کی ایسی ویڈیوز نہ دکھائے جو بچوں پر مزید برے اثرات مرتب کریں۔ ہمیں اور ہمارے بچوں کو گھر سے باہر تو ہر حال میں نکلنا ہی ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم چنگیزخان بن کر تمام مجرموں کو قتل کردیں، اور یہ بھی ناممکن ہے کہ ہم بچوں کو زرہ بکتر پہنا کر گھر سے باہر کھیلنے یا پڑھنے بھیجیں۔ اس وقت دہشت گردی کے خلاف پالیسی مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کی نفسیاتی کونسلنگ کے لیے بھی ایک مربوط پالیسی بنانا نہایت ضروری ہے۔ بچوں کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھا جائے۔ انہیں نہ بہت زیادہ آزادی دی جائے اور نہ ہی بہت زیادہ پروٹیکشن دی جائے جس سے وہ خود کو عدم تحفظ کا شکار سمجھیں۔ اساتذہ، والدین اور بچوں کو سیلف ڈیفنس کی تربیت دی جائے۔ بچوں اور ٹیچرز کی نفسیاتی ٹریننگ کی جائے۔
بچوں کو بچہ ہی رہنے دیں۔ انہیں صرف اتنا ہی بتائیں جتنا ان کی عمر کے لحاظ سے ضروری ہے۔ اس وقت ہم بچوں کو غیرضروری معلومات دے رہے ہیں۔ یہ اضافی معلومات انہیں مزید نفسیاتی دبائو میں مبتلا کر رہی ہے۔ اس وقت بچوں کو صرف یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ سب لوگ غلط نہیں ہیں۔ اگر ایک انکل گندے ہیں تو دوسرے سارے انکل اچھے ہیں۔ یہ نہ صرف والدین بل کہ ہم سب کی اخلاقی ذمے داری ہے کہ پاکستان کے مستقبل کو بچانے کے لیے بچوں کی نفسیاتی مشاورت کی جائے۔ انہیں اُس غصے ، مایوسی اور جذباتی ہیجان سے باہر نکالا جائے، جو ان کے دل میں انتقام کے رجحان کو ابھار رہا ہے۔
اگر ہم آرمی پبلک اسکول پشاور میں ہونے والے دہشت گردی کے تناظر میں دیکھیں تو اُس وقت اسکول میں موجود بچوں کو بہت زیادہ کونسلنگ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے اپنے بہن بھائیوں، دوستوں، اساتذہ کو خون میں لت پت اذیت ناک صورت حال میں موت سے ہم کنار ہوتے دیکھا ہے۔ ان بچوں کو دو طرح کی کونسلنگ کی ضرورت ہے، اول مختصر المدتی اور دوئم طویل المدتی۔
انہیں ذہنی طور پر اس بات کے لیے تیار کیا جائے کہ وہ اُس اسکول میں آٹھ گھنٹے کس طرح گزاریں گے جس کے درو دیوار کو انہوں نے گولیوں سے چھلنی اور اپنے ہی دوستوں کے خون میں نہاتے دیکھا ہے۔ انہیں نئے عزم و حوصلے کے ساتھ اسی اسکول، اسی عمارت انہی بینچوں پر پڑھنے کے لیے تیار کیا جائے۔ ان بچوں کو ذہنی صدمے سے باہر نکالنے کے لیے تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی بہتر تربیت کی جائے۔ بچوں کے ذہنوں پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کو ختم کیا جائے۔ اُن میں پیدا ہونے والے مرو اور مارو والے رجحان کو ختم کر کے مثبت پہلو اجاگر کیے جائیں۔