آج کا فیصلہ
پاکستان سمیت دنیا بھر کے امن پسند لوگ دہشت گردوں کو نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
دانشور خلیل جبران نے کہا تھا کہ ''درندوں نے بہمیت و سفاکی کے تمام گر درحقیقت ابن آدم ہی سے سیکھے ہیں۔'' ان کے اس قول کی سچائی اس وقت پوری دنیا پر عیاں ہوگئی جب عین 16 دسمبر کو جس وقت پوری قوم سقوط بنگال کے المناک دن کو یاد کررہی تھی۔ پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں مسلح دہشت گردوں نے ''اﷲ اکبر'' کے نعرے بلند کرکے انتہائی شقی القلبی، بربریت اور سنگدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معصوم نونہالوں کے پھول جیسے جسموں کو گولیوں کی بوچھاڑ سے لہو لہان کردیا۔
دہشت گرد عناصر نے اسلام کا نام لے کر اپنی نام نہاد شریعت نافذ کرنے کے لیے آگ وخون کی ہولی کھیلنے کا جو رستہ منتخب کیا ہے وہ ہولناک اور انسانیت سوز ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے امن پسند لوگ دہشت گردوں کو نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ٹی وی اسکرینوں پر دلدوز مناظر دیکھ کر 18 کروڑ عوام خون کے آنسو روتے رہے۔ حکومت، سابق صدر آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری، عمران خان، الطاف حسین، سراج الحق اور اسفندیار ولی سمیت تمام سیاسی، مذہبی و سماجی رہنماؤں نے سانحہ پشاور پر دلی افسوس کا اظہار اور شدید مذمت کرتے ہوئے اپنے اختلافات بھلاکر ملک و قوم کی خاطر متحد و منظم ہوکر دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ وزیراعظم کا کہناہے کہ ہم اپنے بچوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیں گے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بجا طور پر کہاکہ سانحہ پشاور پاکستان کے قلب پر حملہ ہے اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک آپریشن ضرب عضب جاری رہے گا۔
سانحہ پشاور پر وزیراعظم کی طلب کردہ اے پی سی میں عمران خان سمیت تمام سیاسی رہنما شریک ہوئے، عمران خان نے اپنا دھرنا اور احتجاج ختم کرکے نازک وقت میں قومی یکجہتی کا ثبوت دیا، اے پی سی میں دہشتگردی کے خاتمے کے لیے الیکشن پلان تیار کرنے کی غرض کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے اجلاس شروع ہوچکے ہیں۔ سزائے موت پر عائد پابندی بھی ختم کرنے کی منظوری دی گئی جس پر تیز رفتاری سے عمل در آمد بھی شروع ہوگیا ہے اور جی ایچ کیو اور جنرل پرویز مشرف حملہ کیس کے دو مجرموں ڈاکٹر عثمان اور ارشد کو پھانسی دی جاچکی ہے جلد باقی دہشتگرد بھی اپنے انجام کو پہنچ جائینگے۔
سانحہ پشاور کی ذمے داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کرتے ہوئے اسے آپریشن ضرب عضب کا رد عمل قرار دیا ہے، اخباری اطلاعات کے مطابق اس سانحے کی براہ راست نگرانی طالبان کمانڈر مولوی فضل اﷲ کررہے تھے جو افغانستان میں روپوش ہیں۔ وقت کی نزاکت و سنگینی کے پیش نظر آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے فوری طور پر افغانستان کا ہنگامی دورہ کیا وہاں افغانی صدر اور ایساف کمانڈر سے ملاقات کرکے انھیں باور کرایا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ جنرل راحیل شریف نے افغان قیادت پر دو ٹوک الفاظ میں واضح کردیا کہ اگر افغان علاقوں سے پاکستان پر حملے جاری رہے تو ہم یہاں دہشتگردوں کا تعاقب کرسکتے ہیں۔
باخبر ذرایع کے مطابق پاکستان نے افغانستان سے ملا فضل اﷲ کی حوالگی کا بھی مطالبہ کیا، وقت اور بگڑتے ہوئے حالات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت دہشت گردی کے خاتمے اور قیام امن کے لیے جنگی بنیادوں پر فوری نوعیت کے ٹھوس، جامع اور عملی اقدامات بلا تاخیر اٹھانے کی طرف سنجیدگی سے مائل ہوجائے کیونکہ ہمارے پاس کھونے کے لیے اب کچھ نہیں بات نونہالان وطن تک آچکی ہے ہمیں اپنے بچوں کو خون آلود مستقبل نہیں بلکہ روشن، پرامن اور مستحکم پاکستان دینا ہے۔ 16 دسمبر سقوط بنگال کی طرح 16دسمبر آرمی پبلک اسکول پر حملہ بھی سبق آموز سانحہ ہے۔ سیاسی و عسکری قیادت کا امتحان ہے۔ دسمبر کا مہینہ قومی تاریخ میں سانحہ در سانحہ یادگار ہوتا جا رہا ہے۔ 7سال پہلے اسی دسمبر کی 27 تاریخ کی ایک شام ملک کی مقبول ترین سیاسی رہنما اسلامی دنیا اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو بھی معروف لیاقت باغ میں جلسہ ختم کرکے واپس جاتے ہوئے دہشتگردوں کا نشانہ بن گئی تھیں۔ بہادر باپ بھٹو کی نڈر بیٹی کو پاکستان آنے سے روکنے کے لیے دہشت گردوں نے جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں لیکن محترمہ عوام، جمہوریت اور پاکستان کی خاطر 18 اکتوبر 2007 کو پاکستان پہنچ گئیں۔
کراچی میں ان کے جلوس پر پہلا حملہ ہوا لیکن بی بی محفوظ رہیں تاہم 27 دسمبر کو انھوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے یہ ثابت کردیا کہ پاکستان کے عوام اور لیڈر دہشتگردوں سے ہرگز خوفزدہ نہیں ہیں بلکہ ان کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے اپنی جان پاک وطن پر نچھاور کرنے کو ہر وقت تیار رہیں بالکل اسی طرح جیسے آرمی پبلک اسکول پشاور کے نونہالوں نے کہ جن کی آنکھوں میں مستقبل کے ڈاکٹر، انجینئرز، پائلٹ، آرمی آفیسرز، قومی لیڈر بن کر ملک و قوم کی خدمت کرنے کے سنہرے خواب پروان چڑھ رہے تھے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے قوم کے ہر طالبعلم اور ان کے ماں باپ کا سر شوق شہادت اور جذبہ حب الوطنی سے بلند کردیا ہے۔ بعینہٖ ہماری پاک فوج کے جوان ایک بہادر جرنیل آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی قیادت میں آپریشن ضرب عضب کے ذریعے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھے دہشتگردوں کو واصل جہنم کرکے شہادت کے جام نوش کررہے ہیں جس قوم میں بینظیر بھٹو جیسے بہادر لیڈر، آرمی پبلک اسکول جیسے نڈر طالبعلم اور جنرل راحیل جیسے پر عزم سپہ سالار ہوں کیا وہ قوم اور ملک دہشتگردی کے عفریت کو شکست نہیں دے سکتا؟ یقینا ہم فتحیاب ہونگے اور ہمارے دشمن ناکام ۔
دہشتگردی سے پاکستان سمیت دنیا بھر کو جو امکانی خطرات لاحق ہیں انھیں نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ عالمی قیادت کو سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا اس حوالے سے ایران میں منعقدہ حالیہ بین الاقوامی کانفرنس میں سابق صدر آصف علی زرداری نے بڑی پر مغز تقریر کی بقول ان کے ترجمان سینیٹر فرحت اﷲ بابر صدر زرداری نے دہشتگردی کے نقصانات اور اس کے خاتمے کے حوالے سے قومی موقف کو اجاگر کیا، سابق صدر نے کہاکہ عسکریت پسندی، دہشتگردی اور انتہا پسندی سے پاکستان شدید نقصانات کا شکار ہوچکا ہے۔ غیر سرکاری عناصر عسکریت پسند مغربی ممالک دنیا کے مختلف علاقوں سے آکر مشرق وسطی میں ریاستی اداروں کو کمزور کررہے ہیں جب ہمارے خطے میں عالمی طاقتیں ''گریٹ گیم'' کررہی تھیں اس وقت عالمی برادری نے دہشتگردی اور انتہا پسندی کو آکسیجن فراہم کی نتیجتاً عسکریت پسندی ملکی سرحدیں عبور کر گئی اور آج تک ہم تشدد کی بوئی ہوئی فصل کاٹ رہے ہیں اور پڑوسی ممالک سمیت پاکستان ابھی تک اس کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔
سابق صدر نے دو ٹوک لفظوں میں کہا کہ کشمیر اور فلسطین کے عوام کی امنگوں کو پورا کیے بغیر امن کا قیام خواب ہی رہے گا اس ضمن میں متعلقہ فریقین کو مشکل فیصلے کرنے ہونگے، سابق صدر کی تقریر بلاشبہ غور و فکر کے قابل ہے وقت و حالات کا تقاضا یہ ہے کہ عسکریت پسندی کے خطرات سے دو چار تمام ممالک تاریخ سے سبق سیکھیں اور دہشت گردی کے عفریت سے جان چھڑانے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس مشکل سے نکلنے کا راستہ تلاش کریں وگرنہ دہشت گرد عناصر ہمارے مستقبل کے معماروں کو خاک و خون میں نہلاتے رہیں گے، یاد رکھیے کہ آج کا فیصلہ ہمارے روشن کل کی ضمانت ہے۔