ایبولاازم سیاست

پاکستان میں سب سے پہلے صوبائیت کی خطرناک بیماری لسانیت کے جان لیوا انفکیشن کے ساتھ وارد ہوئی۔


قادر خان December 30, 2014
[email protected]

پاکستان جب قیام ہوا تو اس مملکت کے چند اغراض و مقاصد تھے، جس میں سب سے پہلے اسلامی ریاست کے قیام کی مسلمانوں کی جانب سے خواہش، اس کے ساتھ اسلامی معاشرے کا قیام عمل میں لانا اور اللہ تعالی کی حاکمیت کے تحفظ پر ایمان رکھتے ہوئے اسلامی نظام کا نفاذ تھا، اسی نفاذ اسلام کی اساس دو قومی نظریے کے تحفظ میں پنہاں تھی تو پاکستان میں لسانی سیاست کے بجائے اردو زبان کے تحفظ و ترقی کو مد نظر رکھا جانا تھا، لیکن اس کے ساتھ ہی مسلم تہذیب و ثقافت کو ترقی دینا بھی شامل تھا۔

جس میں جہاں مسلمانوں کو آزادی اور ان کی معاشی بہتری کے ساتھ، سیاسی اور معاشرتی ترقی بھی شامل تھی، تحریک پاکستان میں یہ سب اس لیے ضروری تھا تا کہ انتہا پسند ہندؤوں کے تعصب سے نجات حاصل ہو، کانگریس سے نجات کے ساتھ، رام راج اور انگریزوں کی غلامی کی زنجیریں بھی توڑ دی جائیں۔ پاکستان اس تاریخی ضرورت اور پر امن فضا کے قیام اور اسلام کے قلعے کے طور پر ملی و قومی اتحاد کے مثالی مملکت کے طور پر دنیا کے سامنے مثالی ریاست بنانا تھا۔ قرارداد لاہور 1940ء جب پیش کی گئی تو قائداعظم نے اپنے صدارتی خطبے میں اسلام و ہندو مت کو محض مذاہب ہی نہیں بلکہ دو مختلف معاشرتی نظام قرار دیے تھے۔ جداگانہ معاشرتی نظام کیا ہے؟۔ اس پر ہم بہت تفکر کرتے ہیں لیکن سمجھنے کے لیے اگر ہم سمجھنا چاہیں تو ایک معاشرتی جز کو سامنے لے آئیں کہ ہندو اور مسلمان آپس میں شادیاں نہیں کر سکتے۔

قائداعظم نے فرمایا تھا کہ ''میں واشگاف الفاظ میں کہتا ہوں کہ وہ دو مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان تہذیبوں کی بنیاد ایسے تصورات اور حقائق پر رکھی گئی ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ مارچ1909ء میں ہندو رہنما منروا راج امرتسر نے علامہ اقبال کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے متحدہ قومیت کے موضوع پر خطاب کی دعوت دی، علامہ اقبال نے نہ صرف متحدہ قومیت کے تصور کو مسترد کر دیا بلکہ آپ نے مہمان خصوصی بننے سے بھی انکارکر دیا، آپ نے فرمایا ''میں خود اس خیال کا حامی رہ چکا ہوں کہ امتیاز مذہب اس ملک سے اٹھ جانا چاہیے مگر اب میرا خیال ہے کہ قومی حیثیت کو محفوظ رکھنا ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کے لیے ضروری ہے۔ لیکن بد قسمتی سے پاکستان اپنے اغراض و مقاصد کے برخلاف ایسے ابنائے ملت کے ہاتھوں تباہی کے دہانے پر بتدریج جا رہا ہے کہ اگر بروقت سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا تو جس طرح دو قومی نظریے کی درگت بن رہی ہے، اس مجرمانہ روش کے بعد مملکت کا صرف ایک بازو ہی نہیں بلکہ خدا نخواستہ تمام دھڑ کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے۔

پاکستان میں سب سے پہلے صوبائیت کی خطرناک بیماری لسانیت کے جان لیوا انفکیشن کے ساتھ وارد ہوئی اور تیزی سے منتقل ہوتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچی کہ دو قومی نظریے کے تحت حاصل کی گئی مملکت کے سب سے اہم حصے نے اپنے، مسلم تشخص کے بجائے لسانی تشخص کو ترجیح دی۔ ہم لاکھ تاویلات بیان کریں کہ ان کے ساتھ ایساہوا، نا انصافی ہوئی، حقوق کی تلفی ہوئی وغیرہ وغیرہ، لیکن میرا ذاتی استدلال یہی ہے کہ جان جانے کے خوف سے وقت سے پہلے کوئی زہر تو نہیں کھا لیتا، بلکہ وہ اس وقت تک علاج پھر دعا پر یقین رکھتا ہے جب تک اس کی آنکھیں بند نہ ہو جائیں۔ پھر بھی ہمارے سیاستدان نہ سمجھیں اور انھوں نے باقی ماندہ پاکستان میں اپنے جاگیرداری، وڈیرانہ اور سرمایہ دارانہ خیالات کے لبادے میں ملک کی مختلف اکائیوں میں نفرت کے بیج بونے کا سلسلہ جاری رکھا۔ صوبائیت، لسانیت، عصبیت اور فرقہ واریت کی بیماری پہلے بڑی جماعتوں میں آئی اور پھر اس بیماری کا انفیکشن علاقائی جماعتوں میں پھیلنا شروع ہو گیا۔

صوبہ در صوبہ چھوٹی چھوٹی تنظمیوں اور نام نہاد قومی جماعتوں نے اس طریق کار کو سستی سیاست کے روپ میں اپنا کر رائے عامہ کو متاثر کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا، سب سے پہلے دیہات متاثر ہوئے کیونکہ یہاں تعلیم کی کمی کے سبب شعور مفقود تھا اور اس وائرس کو پھیلانے کے لیے ایک سازگار میدان، پھر اس کے بعد جنگل کی آگ کی طرح ملک کے کوچے کوچے میں پھیلنا شروع ہو گئے اور اس کا نتیجہ اب یہ نکلا ہے کہ پاکستان کا کوئی کوچہ، ان صوبائیت، لسانیت، عصبیت اور فرقہ واریت کے وائرس سے محفوظ نہیں ہے۔ عوام اپنی سادگی یا عقلی جذباتی وارفتگی میں نقالی کرتے ہوئے ایک کے بعد ایک غیر دانستہ یا دانستہ شکار ہوتے چلے گئے۔ پاکستان میں اس ایبولا سیاست کی بنیاد قیام پاکستان کے بعد ہی پڑ گئی تھی جب بنگلہ اور اردو زبان کے لسانی معاملے کو انا کا مسلئہ بنا لیا گیا، پھر بھارت کی چالبازیوں اور اندرون خانہ سازش کاروں کا مرہنون منت مشرقی پاکستان الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔

صورتحال یہیں پر نہیں رکی بلکہ گریٹ بلوچستان، آزاد پختونستان، سندھو دیش جیسی تحریکوں نے دو قومی نظریہ کی فکر پر صوبائیت، لسانیت، عصبیت اور فرقہ واریت کا تیزاب پھینک کر لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں کو جھلسا دیا۔ رہی سہی کسر مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی نے پوری کر دی کہ پرائی آگ سے ہاتھ سینکتے سینکتے، اپنی جھونپڑی کو ہی آگ لگا لی۔

افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ آگ کو بجھانے کے بجائے حسب سازش تیل ڈالنے کا سلسلہ جاری رکھا جا رہا ہے، پاکستان میں اکثریتی آبادی مسلم محفوظ نہیں تو، اقلیتی آبادی کے گھر بھی شعلوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ ہماری ایبولا سیاست اب اس نہج پر ا ٓپہنچی ہے کہ الیکڑونک میڈیا میں کیمروں کے سامنے دیے جانے والے بیانات تک کو کہا جاتا ہے کہ اسے سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے، جس پر ظالم سیاست دان مسلط اس لیے ہو گئے ہیں کیونکہ جیسے عوام ویسے حکمران یہی مکافات عمل ہے۔

اگر اس خطرناک سیاسی وائرس سے خود کو بچانا ہے تو اس بات کی تصدیق کی ضرورت نہیں کہ نام نہاد سیاست دان، بیورو کریٹس، مذہبی پیشوائیت، فرقہ وارنہ کالعدم تنظیمیں کا علاج کیا ہے، ہمیں سب سے پہلے ان تخریب کاروں سے دور اور الگ ہو جانا چاہیے خود کو ان سے الگ تھلگ کر کے یہ وائرس دوسروں تک مباحث کی صورت میں پہنچانے سے گریز کرنا چاہیے۔ ان صوبائیت، لسانیت، عصبیت اور فرقہ واریت کے حامل جماعتوں کو باشعور، تعلیم یافتہ اور پیاری اولاد کو ٹھوس غذا پر دینے سے اجتناب برتتے ہوئے جتنا دور رکھ سکتے ہیں دور رکھنا چاہیے، اپنے گھر سے، پھر رشتے داروں، پڑوسیوں اور احباب کے ساتھ اس گھمبیر صوبائیت، لسانیت، عصبیت اور فرقہ واریت کے وائرس سے بچانے کے لیے ملی اخوت اور دو قومی نظریے کا آکسیجن مہیا کرنا چاہیے۔ اپنے علاقوں میں سیاسی دباؤ کے پریشر کو کم رکھنے کے لیے معمول سے ہٹ کر ہم خیال محب الوطن احباب کے ساتھ ملکر صوبائیت، لسانیت، عصبیت اور فرقہ واریت کے اس ایبولا سیاسی وبا کومٹانے کی تگ و دو شروع کر دینے چاہیے۔

نیا جوان خون اپنی نسل میں پیدا کیا جائے اور عارضی علاج کے طور پر خوش نما نعروں کی ویکسین سے جتنا ہو سکے بچا جائے۔ ایسی جہگوں اور چینلوں کے قریب بھی نہ جایا جائے جہاں ایبولا سیاست کا پرچار کیا جا رہا ہو، حفظان ملک کی خدمات سر انجام دینے والوں کو جذباتی انداز میں نہیں بلکہ دیکھ بھال کر ہوش مندی کے ساتھ، با آہستگی و جذبہ ایمانی کے دستانے پہن کر ایبولا سیاست کی وائرس سے بچنے کی تدابیر اختیار کرنی چاہیے۔ ایبولا سیاست کرنے والے ملک وقوم کو خوش نما نعروں سے دھوکا دیتے نظر آئیں گے، کوئی مینار پاکستان کو پانی پت کی لڑائی کا میدان کہلانے کے نعرے مارتا نظر آئے گا، تو کوئی حقوق کے نام پر علیحدگی کی سیاست کرتا نظر آئے گا، کوئی قومیت کے نعروں پر جذبہ نسل و ذات کو ابھارتا نظر آئے گا تو کوئی عوامی مسائل پر عوامی جذبات کو روندتا نظر آئے گا۔

لسانیت، عصبیت، صوبائیت، فرقہ واریت کا وائرس ایک خطرناک اور موذی مرض ہے، بچاؤ کی تدابیر ابھی سے اختیار کر کے آنے والی نسلوں کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن عوام نے بھی ٖغفلت برتی تو جو حال سرکاری اسپتال میں مریضوں کا ہوتا ہے اس سے بھی بدتر اس پاکستان کے عوام کا ہو گا باقی آپ کی اپنی مرضی کیونکہ ملک کا فیصلہ تو آپکے ہاتھ میں ہے اگر اس ایبولا سیاست کا علاج باہمی اتفاق و یکجہتی سے کرنا ہے تو یہی بہتر ہو گا ورنہ بیرونی عناصر کی ویکسین درآمد ہوئی تو پھر؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔