بات کچھ اِدھر اُدھر کی احساس

ہم اس دن معاشرے کی بہترین شکل دیکھ پائیں گے جب ہم دوسرے کے درد اوردکھ کوویسا ہی محسوس کریں گے جیسا اپنا محسوس ہوتا ہے۔


سچ بات یہ ہے کہ رشتے خون کے نہیں بلکہ احساس کہ ہوتے ہیں۔ اگر احساس ختم ہوجائے تو خونی رشتے بھی بیگانے ہوجاتے ہیں اور جب احساس پایا جائے تو بیگانے بھی اپنے بن جاتے ہیں۔ فوٹو: فائل

اس کے الفاظ جذبات کی ترجمانی کر رہے تھے۔ وہ اس قدر پر جوش اور خوش تھی کہ آج اس کی وجہ سے کسی کے اداس چہرے پر خوشی آئی تھی۔ جہاں غموں کے سائے منڈلاتے رہتے تھے اور کبھی کبھی آنکھیں بھی برس جایا کرتی تھیں آج وہاں مسکان نے ڈورے ڈالے ہوئے تھے اوریہ سب اس کے چند ٹوٹے پھوٹے جملوں کی بدولت تھا۔ جب وہ خاموش ہوئی تو میں نے اس کی بات پر ہاں میں سر ہلادیا۔ کیوں کہ میں اس کی خوشی میں شامل ہونا چاہتا تھا، تاکہ وہ اس خوشی کو اچھی طرح سے انجوئے کر سکے۔

''جب ہم کسی کے ہمدردنہیں بنتے، ہم درد سے اور دردہم سے جدا نہیں ہوتے''۔ یہ ایک فلم کے ڈائیلاگ ہیں تاہم حقیقت کے بہت قریب تر ہیں۔ یہ جملے مجھ تب حقیقت پر اترتے نظر آئے جب ہماری ایک جاننے والی نے اپنی اداس دوست کے متعلق اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ ان کے یہ جذبات سن کر مجھے لگا کہ واقعی جب کوئی کسی کو اپنا ہمدرد بناتا ہے تو اس کے درد کافی حد تک بٹ جاتے ہیں۔ سچ بات یہ ہے کہ رشتے خون کے نہیں بلکہ احساس کہ ہوتے ہیں۔ اگر احساس ختم ہوجائے تو خونی رشتے بھی بیگانے ہوجاتے ہیں اور جب احساس پایا جائے تو بیگانے بھی اپنے بن جاتے ہیں۔

کتنے ہی ایسے قریبی رشتے دار ہوتے ہیں مگر جب ان میں احساس نہیں رہتا تو وہ جینا حرام کر دیتے ہیں۔ ایک پل میں ہمیں یوں محسوس ہوتا کہ جیسے جان نکل جائے گی۔ آنکھیں ندیاں بہا دیتی ہیں اور ہم اپنے خوشی اور سکون کے لمحات کو ان کی کڑوی کسیلی باتوں کی نظر کر کے کرب و بے چینی میں گزارتے ہیں۔ باتیں کرنے والے کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ اس کے ان چند تیکھے جملوں کا دوسرے پر کیا اثر ہوگا، تاہم دوسری طرف ناجانے کیا کچھ ہورہا ہوتا ہے۔

کسی کے چند جملے نہ تو کہنے والے کا خون بڑھا دیتے ہیں اور نہ سننے والے کو کاٹ لیتے ہیں، تاہم ان چند جملوں کی وجہ سے جو دکھ اور تکلیف دل میں محسوس ہوتی اس کا مداوا شاید کہہ جانے والے جملوں کی واپسی بھی نہیں کرسکتی۔ عموماً ہماری توہین، بے عزتی، طعنے، کمتری اور ہمت کو توڑنے والے یہ جملے ہمیں اپنوں سے ہیں ملتے ہیں۔ اس وقت دکھ اور بھی بڑھ جاتا ہے کہ جب ہمیں وہ لوگ طعنے اور باتیں سناتے ہیں جن سے ہم اپنے دکھ درد بانٹتے ہوتے ہیں۔ ہماری ہمت تب جواب دے جاتی ہے جب ہماری ہمت بندھانے والے ہی کمر توڑ رہے ہوتے ہیں اور پھر یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ہمیں کسی ایسے اپنے کی تلاش اور ضرورت پڑتی ہے جس کا خون ایک ہو نہ ہو کم از کم احساس ضرور پائے جاتے ہیں۔ یہیں وہ احساس ہوتے ہیں جو ہمیں اپنا سب کچھ کھول کر اس کے سامنے کہنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ یہیں وہ اپنایت ہوتی ہے جو ہمیں اپنوں سے نہیں ملتی اور جس سے ملتی ہے ہم اسے اپنا سمجھنے لگتے ہیں۔

لفظوں کے دانت نہیں ہوتے مگر یہ جہاں کاٹتے ہیں وہ گھاؤ زندگی بھر نہیں بھرتے۔ بات صرف احساس کی ہے اگر ہم اپنے اندر احساس پیدا کر لیں تو شاید ہماری وجہ سے کسی کو کوئی دکھ نہ پہنچے۔ اگر ہم دوسری کو اولادوں کو اپنی اولاد کی جگہ، اپنی بہن، بھائی یا اس رشتے کی جگہ رکھ کر سوچیں کہ جن پر ایک لفظ بھی ہم برداشت نہیں کر سکتے تو اس معاشرے میں ہم سے بہتر شخص کوئی نہیں ہوگا۔ خود کے بچوں کے لئے جو چیز برداشت نہیں کرسکتے تو اس بات کو دوسرے کے لئے کیسے کہہ دیتے ہیں۔ اگر آپ کے اپنے دل اور دماغ رکھتے ہیں، انہیں دکھ اور درد ہوتا ہے تو کیا دوسرے پتھر سے بنے ہیں۔ ہر گز ایسا نہیں ہے وہیں دکھ اور درد وہ بھی محسوس کرتے ہیں ۔

ہم اس دن معاشرے کی اچھی اور بہترین شکل دیکھ پائیں گے جس دن ہمارے اندر احساس پایا جائے گا۔ جس دن ہمیں دوسروں کا درد اور دکھ ویسا ہی محسوس ہوگا جیسا ہمیں اپنا محسوس ہوتا ہے۔ کیوں ہم دوسروں کو باتوں سے دکھ دیتے ہیں۔ اگر ہم کسی کے لئے ہمت کے چند بول نہیں بول سکتے تو کم از کم اسے پریشان تو نہ کریں۔ صد قابل ستائش ہیں وہ لوگ جو کمال ظرف کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسروں کے دکھ درد کو کسی بھی دوسرے رشتے کے ویسا ہی محسوس کرتے ہیں۔ یہیں وہ ہمدرد ہوتے ہیں جن کے ایک ایک لفظ میں اس قدر تاثیر رکھی ہوتی کہ وہ سیدھے دل میں اتر کر اپنا اثر دیکھاتے ہیں۔ چند ہمت کے الفاظ، حوصلے اور امید کے بول ہمارے اندر اس قدر جان بھر دیتے ہیں کہ جیسے مردہ جسم کو روح لوٹا دی گئی ہو۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ مایوسیاں پھیلانے، کسی کو احساس کمتری دلانے اور ڈی گریٹ کرنے کے بجائے اس کی کامیابی کو سراہنا چاہئے۔ اسے ہمت اور حوصلہ دینا چاہئے تاکہ وہ کامیابیوں کی راہ پر مزید گامزن رہے۔ ایسے افراد کو بھی پریشان ہونے کی بجائے ہمت سے کام لینا چاہیے جو خواہ مخواہ دوسروں سے ایسی امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں جن کے وہ قابل نہیں ہوتے۔ جب ان کی لگائی ہوئی امید کے برعکس ہوتا ہے تو تب انہیں دکھ ہوتا، دل ٹوٹتا ہے۔ اس لئے پریشان نہ ہوں، کیوں کہ آپ کی وجہ سے وہ لوگ بھی پریشان ہوں گے جن کا تعلق آپ سے ہے۔ کسی ایک کی خاطر ان تمام اپنوں کو دکھی کرنا ، جو تمہیں ہر پل خوش دیکھنا چاہتے ہیں کہاں کا انصاف ہے۔ خوش رہیں اوردوسروں میں خوشیاں بانٹیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں