روز گزرنے والی قیامتیں
حکمران پورے سال کی پالیسیاں بناتے ہیں، اور بڑے بڑے منصوبوں سے لے کر آلو، پیاز تک کی پالیسی بنائی جاتی ہے۔
MARDAN:
دماغ جب سن ہوجاتا ہے تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ جسم جب سن ہوجاتا ہے تو محسوسات سے محروم ہوجاتا ہے۔ اور لگتا ایسا ہے کہ ہمارے بہت سارے لوگوں کے دماغ سن ہوچکے ہیں اور بہت سارے لوگوں کے جسم اور بہت سارے زندہ لاش کی شکلیں اختیار کرگئے ہیں۔ ایک اور سال زندگیوں کا ختم ہوا، الوداع 2014۔ لو جی 2015 بھی شروع ہوگیا، مگر بے حسی کے اس دور میں کیا 2014 اور کیا 2015!
دسمبر جاتے جاتے ہوئے بھی ناختم ہونے والا غم ان ماؤں کے لیے دے گیا جن کی زندگیوں پر دسمبر 2014 ثبت ہوگیا ہے۔ کہیں خوشی کہیں غم، یہ ایسا جملہ ہے جو ہر دور اور ہر وقت کے لیے بہت مناسب جملہ ہے۔ کہیں ماتم کہیں شادیانے اور اسی کا نام زندگی ہے۔
عام لوگ یا عام شہری اسی مقولے پر اپنی زندگی استوار کرتا ہو یا نہ ہو لیکن ایک قوم کے لیے، یہ سال کوئی نہ کوئی ایجنڈا ضرور لے کر آتا ہے۔ حکمران پورے سال کی پالیسیاں بناتے ہیں، اور بڑے بڑے منصوبوں سے لے کر آلو، پیاز تک کی پالیسی بنائی جاتی ہے۔ اور اسی کا نام منصوبہ بندی ہے۔ جیو تو ایسے جیسے یہ دن آخرت کے لیے نیکی کرنے کا آخری دن ہے اور دنیا میں رہنے کے لیے کرو ایسی منصوبہ بندی جیسے آپ ہزار سال تک زندہ رہیں گے۔
تمام لوگ اپنی اپنی زندگیوں کے لیے منصوبہ بندی کرتے ہیں اپنے اپنے وسائل میں رہتے ہوئے اور یہی عقل کا تقاضا بھی ہے، مگر جو لوگ حکمرانی کے لیے منتخب ہوتے ہیں، کئی گنا بڑھ جاتی ہے ذمے داریاں کہ اب آپ صرف اپنے لیے نہیں بلکہ ان تمام لوگوں کے لیے سوچیں گے اور منصوبہ بندی کر لیں گے جوکہ ریاست کا حصہ ہیں۔ فلاح و بہبود، امن و سکون، محبت اور ایمانداری کی فضا جتنی جلدی پروان چڑھے گی اتنی جلدی ہی رزلٹ بھی ملنے شروع ہوجائیں گے۔ اور اتنی ہی جلدی ریاست میں ترقی کا عمل بھی شروع ہوجائے گا۔ مگر جب افراتفری کا عالم ہوجائے، نفس بے لگام ہوجائیں، نفسانی خواہشات حد سے تجاوز کرجائیں تو کردار و گفتار کی کوئی حیثیت نہ رہے، انسان روپے کا پجاری بن جائے اور تمام تر رشتے ناتے روپے کے ترازو پر پرکھے جانے لگیں تو انسانیت ختم ہوجاتی ہے اور صرف خدائی رہ جاتی ہے ۔
جہاں سب کے اپنے اپنے خدا ہیں اور سب کی اپنی اپنی دنیا۔ حالانکہ اللہ عالی شان تو ازل سے ابد تک صرف اور صرف ایک ہے۔ اس کے بنائے گئے اصول تا قیامت تک کے لیے ہیں۔ جزا و سزا، انعامات، رحمتیں، فضل و کرم اور قہر بھی ازل سے ابد تک کے لیے یکساں ہے۔ صاف صاف تمام دنیا کے انسانوں کو بتا دیا گیا ہے کہ ایسا کروگے تو ایسا انجام ہوگا اور اگر ایسا کروگے تو ویسا انجام ہوگا، اﷲ تو دنیا کے تمام انسانوں کا اﷲ ہے، ان کا تعلق چاہے کسی بھی مذہب اور عقیدے سے ہو۔
اور یہ ایسی اٹل حقیقیتں ہیں جن کو اﷲ کے سوا کوئی نہ بدل سکتا ہے اور نہ مٹا سکتا ہے۔ ہاں اپنے آپ کو دھوکا ضرور دے سکتا ہے کہ کرے برائی اور سمجھے کہ اس نے تو بھلائی کی ہے اور اس کا پرچار بھی کرتا پھرے کہ لوگ بھی اس کی برائی کو بھلائی سمجھیں۔ ایسا ہی سب کچھ آج کل ہمیں اپنے ملک میں، اپنے معاشرے میں، اپنے لوگوں میں نظر آرہا ہے، کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا جاتا ہے کہ قیامت کے اشارے ہیں، تمام فرمان آہستہ آہستہ پورے ہو رہے ہیں اور جب پورے ہوجائیں گے تو قیامت آجائے گی۔
وہ تو خیر ایک بڑی قیامت ہوگی جو دنیا کو مٹا کر رکھ دے گی، پل بھر میں بڑے بڑے پہاڑ مٹی بن جائیں گے، مگر ان چھوٹی چھوٹی قیامتوں کا کیا؟ جو روز انسانوں پر گزرتی ہیں، نہ کوئی سنبھالنے والا نہ کوئی پوچھنے والا۔دسمبر 2014 ان ماؤں کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں جن کے بچے اسکول میں شہید کردیے گئے۔ دسمبر کا مہینہ ان شاپنگ مال، اور مارکیٹوں کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں کہ جب آگ کے شعلے آنکھوں کے سامنے زندہ انسانوں کو نگل جاتے، ہنستے بستے گھر پل بھر میں اجاڑ اور ویران ہوجاتے۔
کون کرے گا داد پرسی، کون ان بلکتی ہوئی حسرتوں کو روکے گا کہ جو دیکھ بھال کے ذمے دار ہیں وہ اپنے اپنے محلوں میں مغل اعظم کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنے آپ کو اہل بنائیں ذمے داریاں پوری کریں، لوگوں کو سکھ و چین کی زندگی دیں اور ان کی زندگی آسان بنائیں کہ اللہ عالی شان نے فرمایا ہے کہ تم دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرو میں تمہارے لیے آسانیاں پیدا کروں گا۔ مگر یہاں تو اس کا الٹ ہی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ لوگوں کے بدن کے کپڑے تک کھینچے جا رہے ہیں۔ قدموں تلے سے زمین، ہاتھ سے نوالہ تک چھیننے کی تیاریاں ہیں اور نہ شرم اور نہ کوئی ایسا فرق کہ جس کو سن کر لگے کہ احساس کچھ زندہ ہے ان میں ابھی۔
جب بے شرمی اپنے اوپر لاد لی جائے تو اور حرص و ہوس کا چشمہ آنکھوں پہ لگا لیا جائے اور جس کو اللہ خود گمراہ کردے تو کسی میں کوئی طاقت نہیں کہ اس کو سیدھا راستہ سمجھ آئے، لاتعداد جگہ قرآن پاک میں اللہ عالی شان فرماتا ہے کہ میں ہی ہوں تمہارا رب، زندگی و موت، رزق پر میں ہی کامل ہوں نہ کوئی میرے علاوہ ہے نہ ہوگا۔
کیسے کیسے فرعون آئے اور دنیا کے لیے عبرت کا نظارا بن گئے۔ کیسے کیسے چنگیز خان آئے اور تمام طاقت کے باوجود اللہ نے عبرت حاصل کرنے کے لیے لیے ان کو مثال بنایا کہ طاقتور تو صرف اللہ عالی شان ہی ہے۔انسان اپنے ناز، اور غرور میں ایسا بدمست ہوجاتا ہے کہ اس کو احساس جب ہوتا ہے جب وہ انتہا کو پہنچ کر اللہ کے عذاب کا مزہ چکھتا ہے۔ اور اس نازی اور بدمستی میں پتا نہیں کتنے لوگوں کے لیے قیامتوں کا باعث بنتا ہے، بددعاؤں نے بڑے بڑے محل خاک میں ملا دیے کہ اللہ کے اصول تا قیامت تک کے لیے ہیں آج اور کل کے لیے نہیں۔مسلمان بادشاہوں کے زوال کے بھی یہی اسباب تھے، عیاشی، عورت، شراب نوشی، بدمست پڑے رہتے تھے، اور بادشاہ ہوتے ہوئے کتے، بلیوں جیسے انجام کو پہنچے۔
وہی عالم آج بھی جابجا نظر آرہا ہے، چھوٹی چھوٹی قیامتیں مختلف روپ دھار کر آرہی ہیں اور گھر کے گھر بستیوں کی بستیاں اجڑ رہی ہیں، لیکن حکمران مست ہیں حکمرانی میں۔ سیلاب ہو یا کوئی اور ناگہانی مصیبت، لوگوں کی چیخ پکار بھی اب کانوں کو سنائی نہیں دیتی، لالچ اور ہوس نے ایک خدا کی بجائے کئی خدا بنا ڈالے۔ چمک کی چربی نے آنکھوں کو اندھا کردیا کہ کچھ نظر نہیں آرہا۔ روتے ہوئے، بلکتے ہوئے چہرے مکار و عیار لگتے ہیں۔ نہ دیکھیں گے نہ اثر ہوگا۔ رہے محلوں میں اور چھٹیاں گزارنے اور فریش ہونے باہر چلے گئے، اگر کوئی زوردار آواز کسی نے لگائی تو تھوڑا سا ہل گئے، کچھ بیانات دیے کچھ میٹنگ بلوائیں۔ لو جی اللہ اللہ خیر صلا!
حالات صرف اور صرف صحیح لگن، محنت اور دانش سے ہی بدل سکتے ہیں۔ صرف اور صرف ایک خدا پر یقین اور اسی کے سامنے جوابدہ ہونا انسانوں کے حقوق کی ادائیگی اور ان پر مہربانی کی اللہ کا اصول ہے۔ اس کے سوا کوئی اصول نہیں جو ایک بہتر معاشرہ بن سکے۔ دیانتداری اپنانا ہوگی، لوگوں کے حقوق ڈلیور کرنے ہوں گے۔ کہ انسان خالی ہاتھ ہی جائے گا ایک بہتر معاشرہ ہی بہتر حکمران پیدا کرسکتا ہے، یہی امید رکھتے ہیں 2015 سے کہ ہم اور آپ صرف اس اللہ کے احکام پر چلیں جو ہمیں زندگی دینے والا اور مرتبے پہ بٹھانے والا ہے۔