وہ راگ خاموش ہوچکا

جن میں فرعونیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے، ایسے لوگوں کو سلام کرنے کا بھی دل نہیں چاہتا ہے۔


Naseem Anjum January 04, 2015
[email protected]

آسمان ادب سے لو، ایک ستارہ اور ٹوٹا اور دیکھنے والوں نے دیکھا کہ علم کی کئی قندیلوں نے سُوئے ظلمت کا سفر اختیار کیا۔اندھیرا دور دور تک پھیل گیا ایک استاد کا، ایک عالم اور درویش کا اس دنیا سے اچانک رخصت ہوجانا اس کے چاہنے اور قدر کرنیوالوں کے لیے دکھوں اور غموں کی تاریی کے سوا کچھ نہیں۔

پروفیسر علی حیدر ملک موضع ملاٹھی ضلع گیا بھارت میں 1944 میں پیدا ہوئے اور 30دسمبر 2014 صبح تقریباً 10 بجے کے قریب اس دنیائے آب و گل سے رخصت ہوگئے، بہت سے لوگوں کو روتا، سسکتا اور تڑپتا چھوڑ گئے۔ اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ نہایت کھرے، سچے اور درویش صفت انسان تھے۔ علمیت و قابلیت سے مالا مال، بولنے کھڑے ہوں تو روکنا مشکل گویا علم کا بہتا ہوا سمندر جس سے بے شمار لوگوں نے استفادہ کیا، ان کے طالب علموں کی کمی نہیں تھی، عقیدت مند ان کے آگے ہاتھ باندھ کے کھڑے ہوا کرتے تھے بے حد بااخلاق اور مہذب، ہمارے اردگرد ایسے ایسے لوگ نظر آتے ہیں ۔

جن میں فرعونیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے، ایسے لوگوں کو سلام کرنے کا بھی دل نہیں چاہتا ہے، لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں سلام کرنے اور بات کرنے کے لیے تلاش کرنا پڑتا ہے، پروفیسر علی حیدر ملک ایسے ہی انسان تھے، یہ بات وہ نہیں سمجھ سکتے جو ان کی سچی باتیں سن کر نالاں ہوجایا کرتے تھے بلکہ ان کے دوست احباب ان کی درویشانہ طبیعت اور مزاج کی سادگی سے اچھی طرح واقف تھے۔ تصنع بناوٹ، جھوٹ سے انھیں سخت نفرت تھی، انھوں نے اپنے منصب اور ذاتی تعلقات سے کبھی کسی قسم کی کوئی مراعات حاصل نہیں کیں وہ رزق حلال پر یقین رکھتے تھے، ایسے ہی پاک رزق سے انھوں نے اپنے گھر کی کفالت کی، دو ہجرتوں کا کرب سہا لیکن صبر و قناعت کے ساتھ کام اور کام کو اپنا نصب العین جانا۔پروفیسر علی حیدر ملک کا شمار علم و ادب کی بڑی شخصیات میں ہوتا ہے۔ وہ درس و تدریس سے وابستہ تھے وفاقی اردو یونیورسٹی سے بحیثیت استاد 2004 ریٹائرڈ ہوئے۔

جن دنوں علامتی افسانے لکھنے کی ابتدا ہوئی، علی حیدر ملک صاحب نے بھی علامتی کہانیوں میں اپنا حصہ ڈالا اور بہت سی بے مثال، یادگار اور شاندار کہانیاں تخلیق کیں اور تخلیقیت کے نتیجے میں ان کے افسانوں کا مجموعہ ''بے زمین بے آسمان'' منظر عام پر آیا تو تنقید نگاروں اور قارئین نے دل کھول کر داد دی اور بارہا، رسائل وجرائد میں تذکرہ و تبصرہ ہوتا رہا کئی افسانے شاہکار افسانوں کے زمرے میں آتے ہیں، جن میں 'اندر کا جہنم، بے زمین بے آسمان اور اتھلے جل کی مچھلی ان افسانوں کو بے پناہ شہرت ملی۔

پروفیسر علی حیدر ملک کی دوسری کتاب تنقید کی بعنوان افسانہ اور علامتی افسانہ شایع ہوئی، اس میں علامتی افسانوں کی حمایت میں دلائل و شواہد کے ساتھ مضامین شامل تھے یہ مضامین بھی عرصہ دراز تک زیر بحث رہے اور ادب کے طالب علموں کے لیے یہ ایک بہترین اور معلوماتی کتاب ہے۔ پروفیسر صاحب نے تراجم کی دنیا میں بھی کارنامے سر انجام دیے۔ ''عمر خیام اور دوسری غیر ملکی کہانیاں'' کے عنوان سے نومبر 1999 میں یہ کتاب شایع ہوئی تھی۔ ''شاہ لطیف بھٹائی نمبر'' کی ترتیب و تزئین میں بھی نمایاں کام ان کا ہی تھا بلکہ ملک صاحب نے ہی اس رسالے ''برگ وگل'' کی آبیاری اپنے دوستوں کے تعاون سے کی تھی۔

پھر ایک کتاب ''شہزاد منظر فن اور شخصیت'' (ترتیب بہ اشتراک صبا اکرام) ادبی معروضات ''ان سے بات کریں'' چند سال پہلے شایع ہوئیں (ان سے بات کریں) یہ کتاب علم و ادب کی قدآور شخصیات کے انٹرویوز پر مبنی ہے۔ ان شخصیات میں ڈاکٹر جمیل جالبی، کیفی اعظمی ، جوگندر پال، ڈاکٹر انورسدید، کرشن چندر، ندا فاضلی، جمیلہ ہاشمی جیسے اہم لوگ شامل تھے۔ ایک ہفت روزے میں بیس سال تک مسلسل ادبی کام شایع ہوتا رہا ۔

اس ہفتے ان کا جو کالم شایع ہوگا تو وہ عالم بالا میں موجود ہونگے کسی کو نہیں پتا کہ کون سی رات قبر کی تاریکی یا روشنی میں گزرے گی، روشنی اور تاریکی بھی اعمال کی ہی بنا پر میسر آتی ہے۔

پروفیسر علی حیدر ملک کو جب میں نے پہلی بار آرٹس کونسل میں دیکھا تو میں ان کے فہم و ادراک، جوش خطابت اور انکساری و عاجزی کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔ لباس اتنا سادہ کلر بھی جوگیوں والا، بے شک وضع و قطع میں سادگی ان کی شخصیت کا جزو تھی، پھر ان سے میری تقریبات کے موقعے پر ملاقاتیں ہوتیں معروف افسانہ و ناول نگار اے خیام، شاعر و نقاد صبا اکرام، معتبر و ممتاز شاعر یاور امان ان سب سے گفتگو ہوتی سب کی عادات و اخلاق میں ایک چیز مشترک تھی، وہ تھی سچائی، دیانت داری۔ انسان کا میل جول بھی اپنے ہی لوگوں سے ہوتا ہے جو اس کے مزاج سے ملتے ہوں۔

ہمارے ادبی و معاشرتی تعلقات کو زمانہ گزر گیا لیکن ہمارے مراسم میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا، چونکہ بے لوث خلوص اور ایک دوسرے کی عزت و قدر دانی تعلقات کو خوشگوار رکھتی ہے، میں نے اپنی کتاب ''نرک'' میں ایک جگہ لکھا تھا کہ حضرت علیؓ کا قول ہے جو ایک لفظ بھی بتا دے وہ تمہارا استاد ہے اس قول کی روشنی میں، میں پروفیسر علی حیدر ملک کو اپنا استاد ہی مانتی تھی، انھوں نے بارہا میری رہنمائی کی، افسانے اس رسالے کو بھیج دینا، یا یہ کہ یہ تمہارا افسانہ بنت کے اعتبار سے بہت شاندار ہے، اس لفظ کا تلفظ آپ غلط بول گئی ہیں، ہندی زبان کا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اچھا...! میں شرمندہ ہوجاتی، میں تو ہوں ہی طفل مکتب، سیکھنے کے عمل سے گزر رہی ہوں اور بے شک انسان مہد سے لہد تک کچھ نہ کچھ سیکھتا ہی رہتا ہے۔ ارے غلطیاں کون نہیں کرتا ہے۔بڑے بڑے لوگ غلطیاں کر جاتے ہیں، انھوں نے مجھے ان ادبی اور بڑی ہستیوں سے بھی متعارف کرایا، جن سے میں کم کم واقف تھی، یقینا یہ ان کی اعلیٰ ظرفی تھی۔

افسوس اس بات کا ہے کہ بھائی یاور امان کو ابھی ہم نہیں بھول سکے تھے، محبوب خزاں اور بھی بہت سے ایسے لوگ تھے جو تھوڑا عرصہ پہلے ہی اس جہان سے کوچ کرگئے، یاور امان سے جناب علی حیدر ملک نے دوستی کا حق خوب نبھایا، ان کے پیچھے پیچھے ہولیے سقوط ڈھاکہ سے پہلے مشرقی پاکستان کے ساحلی شہر کھلنا میں جہاں یاور امان کی رہائش تھی اسی شہر میں استاد محترم بھی پہنچ گئے اور خوب ادبی و تنقیدی نشستوں کا آغاز ملک صاحب کے مشورے سے ہوا اور اب علی حیدر ملک ان کے پاس جانے کے لیے ملک عدم کے لیے روانہ ہوگئے۔

استاد محترم کے جنازے میں بے شمار لوگ آئے تھے، دونوں گلیاں جنازے کے شرکا سے بھری ہوئی تھیں۔ قسمت والے لوگ ہوتے ہیں کہ جن کے دیدار کے لیے اس قدر اژدھام ہو اور حدیث کے مطابق جنتی بھی۔ جناب اے خیام ان کے ہم پیالہ و ہم نوالہ، ہم جماعت تھے، آپس میں محبت اور ذہنی ہم آہنگی اس قدر کہ دوستی رشتے داری میں بدل گئی، وہ اپنی بہو خیام بھائی کی بیٹی سونیا پر بہت ناز کرتے تھے، ہمیشہ بتاتے یہ ٹائٹل سونیا نے بنایا ہے آج کل وہی تمام کتابوں کے ٹائٹل بناتی ہے میری بھی دونوں کتابوں ''نرک'' اور ''گلاب فن'' کا ٹائٹل سونیا نے ہی بنایا تھا۔ چند روز قبل ہی دیار غیر سے جناب نصر ملک کی میل آئی تھی انھوں نے کہا تھا کہ اردو ادب کا عظیم سرمایہ علی حیدر ملک کو میرا خصوصی سلام کہیے گا، میں پیغام بھی نہ پہنچا سکی کہ وہ سب دوست احباب کو روتا چھوڑ کر دور افق کے پار چلے گئے۔ شکیب جلالی نے شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا تھا کہ:

وہ راگ خاموش ہوچکا ہے سنانے والا بھی سو چکا ہے
لرز رہے ہیں مگر ابھی تک شکستہ بربط کے تار دیکھو

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں