بات کچھ اِدھر اُدھر کی شاید یہی سچ ہے

ہم حکمرانوں اور سیاست دانوں کو کوستے اور برا بھلا کہتے ہیں لیکن اس تباہی میں معاشرے کا ہر شخص شامل ہے۔


آصف راٹھور January 05, 2015
ہم بدقسمتی سے ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں طاقتور کو کوئی کچھ نہیں کہتا پھر چاہے وہ ہر بُرا کام کیوں نہ کرتا ہو اور شریف آدمی کے گریبان تک ہر کسی کا ہاتھ پہنچ جاتا ہے پھر چاہے وہ ہر بُرے کام سے کوسو دور ہی کیوں نہ ہو۔ فوٹو: فائل

آپ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں آپ کو ہر طرف زہر اگلتی زبان،پُرتشدد گفتگو،چیختی آوازیں،کھا جانے والی نظریں،غصہ نفرت،حسد،بغض،جھوٹ، دھوکے بازی، منافقت، مصنوئی طرز زندگی اور انتہائی بے ہودہ گفتگو سننے کو ملے گی ۔

ہمارا یہ رویہ ثابت کرتا ہے کہ ہم کس قدرکھوکھلے پن کا شکارزوال یافتہ،بے راہ روی اور تباہی کی دہلیز پر کھڑے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں آ پ مثبت اور مضبوط دلائل سے بات نہیں کرسکتے ہیں اور نہ ہی حق اور سچ کی راہ پر چل کر اپنا حق لے سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنے معاشرے کی اصل تصویر دیکھنا چاہتے ہیں تو آپکو دو تین کام کرنا پڑیں گے۔ م

پہلے کام یہ کہ مثلاً فرض کریں آپ کل سے لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیں،دن دہاڑے لوگوں کو ڈرانا دھمکانا شروع کر دیں، آپ چوری کی گاڑیوں کا کاروبار شروع کر دیں، آپ دودھ میں پانی ملا کر بیچنا شروع کر دیں،آپ ہر اس چیز کو زخیرہ کرنا شروع کر دیں جو آنے والے دنوں میں زیادہ بکنے والی ہے، آپ دن کی روشنی میں جنگل سے درخت کاٹنے اور بیچنے شروع کر دیں، آپ بیچ بازار میں منشیات اور جوئے کا اڈہ کھول لیں،آپ گوشت کی دوکان کھولیں اور گوشت کا وزن بڑھانے کے لیے اس میں پریشر کے ساتھ پانی بھریں اور خوب منافع کمانا شروع کر دیں، آپ مردہ مرغیوں کو اکٹھا کر یں ہوٹلوں پر بیچ دیں، تو پھر سمجھ لیں کہ آپ کے وارے نیارے ہیں۔ لوگ آپ کو معتبر بھی سمجھیں گے عزت بھی کریں گے۔

آپ کو ہر جگہ اہمیت دی جائے گی آپ کا ہر سرکاری اور غیر سرکار کام منٹوں میں ہو جائے گا چاہے آپ دفتر جائیں یا نہ جائیں کام مکمل ہو کر فائل آپ کے گھر پہنچ جائے گی۔

اب دیکھتے ہیں تصویر کی دوسری طرف ، مثلاً اگر آپ کل اچھے کام کی شروعات کر کے دیکھ لیں۔ آپ کوئی سوشل کام شروع کر دیں ،کوئی ایمبولینس سروس مفت میں دینا شروع کر دیں،آپ اپنی پوری زندگی کی جمع پونجی سے ایک ایسا سکو ل کھول لیں جہاں تمام بچوں کے لیے تعلیم مفت ہو،آپ دور دارز سے سکول کالج آنے والے طلباء و طالبات کے لیے مفت بس سروس کا انتظام کر دیں، آپ بازار میں واٹر کولر لگا دیں جہاں سے سب لوگ تپتی گرمی میں ٹھنڈا پانی پئیں،آپ محلے میں مفت ٹینکی بنا کر پانی پہنچا دیں، آپ دوستوں اور جاننے والوں سے چندہ جمع کر کے گاؤں کے غریب لوگوں کی بچیوں کی شادیوں میں جہیز اور کھانے کا بندوبست کر دیں،آپ مدرسے کے بچوں کے لیے مفت کپڑے اور کھانے کا بندوبست کر دیں،آپ ہر سکول کے یتیم اور غریب بچوں میں کتابیں کاپیاں اور بستے مفت بانٹ دیں،آپ مساجد میں جائے نمازوں اور ٹوپیوں کا بندو بست کرنا شروع کر دیں تو یقین مانیں پورا معاشرہ آپ کو ناکام بنانے پر کمر بستہ ہو جائے گا۔

آپ جہاں جائیں گے آپ کو ٹھڈے پڑیں گے،آپ کا ہر جائز کام رُک جائے گا،چور آپ کے گھر کا سامان لے اُڑے گا مگر پرچہ آپ کے خلاف ہی کٹے گا،محلے کے پانی کا پائپ کوئی توڑے گا تو لوگ گا لیاں آپ کو دیں گے،پولیس اور کسٹم والے آپ کے پیچھے لگ جائیں گئے کہ مفت ایمبولنس،یا مفت بس،یا مفت سکول کیسے کھول لیا؟ پیسے کہاں سے آئے ؟کون فنڈنگ کر رہا ہے؟ ٹیکس کتنا دے رہے ہو؟ اِس جیسے سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آپ کو صبح شام تھانے کچہری،کسٹم آفس اور عدالت کے چکر کاٹنے پڑیں گے۔ہر کوئی آپ کو شک کی نظروں سے دیکھے گا،ہر جگہ آپ زیر بحث ہونگے کہ پتہ نہیں کس کے لیے کام کررہا ہے؟ کیا مفاد ہے کہ یہ اتنا کچھ مفت میں کر رہا ہے کیوں ؟

میرے نذدیک اِن حالات کی وجہ یہ ہے کہ ہم ایک بے حس معاشرے میں رہ رہے ہیں ۔ جہاں محبت بانٹنی ہو،پیاربانٹنا ہو،مساوات اور بھائی چارے کو پھیلانا ہوتو یہ سب کچھ چھپ کرکر نا پڑتا ہے جبکہ نفرت عداوات دشمنی ،تذلیل ،جھوٹ فراڈ،منافقت،دھوکے بازی ،ملاوٹ ،سرے عام کی جاتی ہے جہاں جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ میں بدلنے کے لیے بھی باقاعدہ ڈگری ملتی ہے اور پھر اسکی پریکٹس اور اوپر سے پکا لائسنس بھی ملتا ہے تا کہ آپ چور کو چوکیدار،قاتل کو مقتول،ظالم کو مظلوم، کرگس کو شاہین ،چوہے کو بلی ،شیر کو گیدڑ،خوک کو فیل اور کوئے کو مور ثابت کر سکیں۔

ہم حکمرانوں اور سیاست دانوں کو کوستے اور برا بھلا کہتے ہیں لیکن اس تباہی میں معاشرے کا ہر شخص شامل ہے۔ ایک دیہاڑی دار مزدور سے لیکر صنعتکار تک،مزارے سے لیکر زمیندار تک،سرکاری اداروں کے چپڑاسی سے لیکر ڈائریکٹر تک،دوکاندار سے لیکر خریدار تک،ایک عام آدمی سے لیکر ملک کے وزیر اعظم اور صدر تک ہر شخص کا ایک ہی طے شدہ منصوبہ ہے کہ کس طرح کرپشن کرنی ہے کس طرح دوسروں کوبیوقوف بنانا ہے کس طرح ریاستی وسائل کو لوٹناہے ہر شخص ایک دوسرے پر بازی لے جانے میں جُتا ہوا ہے۔

یہ ہمارے معاشرتی اخلاق کی اصل تصویر ہے اور یہ تصویر ثابت کرتی ہے کہ ہم سماجی اور ذہنی لحاظ سے کس قدر زوال یافتہ ہیں یہ ایسے تلخ حقائق ہیں کہ ان حقائق سے منہ موڑ کر ہم معاشرے کو درست سمت نہیں لے جا سکتے ۔میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ جس معاشرے میں ایمانداری ،دیانتداری،بھائی چارے،مساوات کا دوسرا نام بیوقوفی ہو تو اُس معاشرے میں ایسی چیزوں سے تھوڑا دور رہنا چاہئے۔اور ہمارا پورا معاشرہ پوری ریاست ماشااللہ ان باتوں سے دور رہتے ہیں۔ما ل و زر کی ہوس نے ہمیں مردہ ضمیر بنا دیا ہے اور ہم زندہ رہ کر بھی مرُدوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔یہ میرا ذاتی خیال ہے یہ سو فیصد غلط بھی ہو سکتا ہے لیکن اگر ہمارے معاشرے کو ذرابلندی سے کھڑے ہو کر دیکھا جائے تو شاید یہی سچ ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں