کیا یہ سچ نہیں ہے
جو شخص عزت اور خوشی کی زندگی بسر کر نا چاہتاہے وہ سچائی اختیار کرے اس کے بغیر عزت یا خو شی ممکن نہیں۔
عظیم مورخ پلو ٹارک نے شہنشاہ ٹارجن کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا '' تمہاری حکومت سب سے پہلے اپنے دل پر ہونی چاہیے''ایک لڑائی میں کچھ رومیوں کو اسیر کر لیا گیا ،ان میں سے ایک کا نام ریگو لس تھا جسے چند سفیروں کے ساتھ روم بھیجا گیا تا کہ روم کے سرداروں سے صلح کی گفت وشنید کی جائے ریگولس کو اس شرط پر بھیجا گیا تھا کہ اگر صلح کی گفتگو کامیاب ہو جائے تو وہ روم میں رہے لیکن اگر صلح نامہ نہ ہو سکے تو کارتھج میں واپس آ کر بدستور قید کی مصیبت برداشت کرے، ریگو لس نے ان شرائط کا حلف اٹھایا اور روم روانہ ہو گیا وہ دونوں ملکوں کی حالت سے آگاہ تھا اور دیکھ رہا تھا کہ اس کے ہم وطنوں کی بہتری اسی میں ہے کہ جنگ جاری رکھیں اور صلح یا قیدیوں کے تبادلے پر رضا مند نہ ہوں روم پہنچ کر اس نے پوری کیفیت سنا دی اور اپنی رائے کا اظہار کیا۔
سینیٹ کے ارکان نے اس کی رائے کے مطابق جنگ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور کارتھج کے سفیر ناکام واپس جانے کو تیار ہوئے حلف کی وجہ سے ریگولس ان کے ساتھ واپس جانے لگا، تو اس کے عزیزوں اور ہم وطنوں حتی کہ بڑے پجاری نے بھی اسے سمجھایا کہ وہ واپس نہ جائے ان سب کی دلیل یہ تھی کہ چونکہ ریگولس نے بحالت مجبوری حلف اٹھایا تھا۔ لٰہذا وہ اس کی پابندی سے آزاد تھا اس غیرت مند ریگو لس نے انھیں جو جواب دیا اس کی عظمت سے تاریخ کے صفحات آج تک روشن ہیں۔ اس نے کہا کہ ''آپ مجھے بے غیرتی کی ترغیب نہ دیں مجھے خوب معلوم ہے کہ کارتھج میں میرے لیے قید کی مصیبتوں اور دردناک موت کے سوا اور کچھ نہیں رکھا ہے لیکن یہ تمام مصائب برداشت کرنا اس بات سے کہیں بہتر ہے کہ ایک ذلیل فعل کا ارتکاب کر کے اپنی جان بچاؤں اور عمر بھر ضمیر کی ملامت کا عذاب سہتا رہا ہوں۔ اگرچہ میں اس وقت اہل کارتھج کا غلام ہوں لیکن میری رگوں میں رومی بزرگوں کا خون ہے اور میں اپنا قول نبھانے کا عزم کر چکا ہوں فرض مجھے واپس جانے پر مجبور کرتا ہے، خدا حافظ'' اتنا کہہ کر ریگولس روم سے رخصت ہوا اور کارتھج پہنچ کر تکلیفیں اٹھا اٹھا کر مر گیا۔
افلاطو ن نے کہا تھا ''جو شخص عزت اور خوشی کی زندگی بسر کر نا چاہتاہے وہ سچائی اختیار کرے اس کے بغیر عزت یا خو شی ممکن نہیں۔'' حضرت عیسیٰ نے کہا تھا ''سچ تمہیں آزاد کرتا ہے۔'' صرف سچائی ہی وہ واحد عنصر ہے جس کو پا لینے کے بعد مسرت اور سلامتی خود بخود حاصل ہو جاتی ہے کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم سب اپنی اپنی موجودہ زندگی سے بیزار آ چکے ہیں۔ اتنے بیزار کہ کہیں بھاگ جانے کو دل کر تا ہے لیکن دوسرا سچ یہ ہے کہ ہم کہیں بھی بھاگ کر نہیں جا سکتے۔ کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ ہم سب نے اپنے آپ سے اپنے اور اپنے پیاروں کی حفاظت کا عہد نہیں کر رکھا ہے اگر کر رکھا ہے تو پھر اس عہد کو پورا کرنا آپ کی اور میری ذمے داری نہیں ہے۔
پھر آخر کیا وجہ ہے کہ آخر کا ر ہم اپنے عہد کو پورا کیوں نہیں کر رہے ہیں ہم کیوں چپ چاپ اپنے پیاروں کے لاشے اٹھا ئے جا رہے ہیں۔ ہم دہشت گردوں کے خلاف کیوں چپ ہیں ہم کیوں اتنے بزدل بنے ہوئے ہیں کیوں اتنے ڈرپوک بنے ہوئے ہیں کیا آپ کی اور میری رگوں میں بہادر، نڈر، بے خوف ، ڈٹ جانے والے بزرگوں کا خو ن نہیں دوڑتا پھر رہا جو اپنی اور اپنے پیاروں کی حفاظت کی خاطر اپنے سے سو گنا زیادہ طاقتور سے جا ٹکرائے تھے کیا یہ سچ نہیں کہ 1947ء میں ہمارے بزرگوں نے ان گنت جانی و مالی قربانیاں دے کر آپ کے اور میرے لیے آزادی حاصل نہیں کی تھی۔ اگر یہ سب سچ ہے تو پھر ہم جن کی تعداد 18 کروڑ ہے کیوں چند ہزار دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کے ہاتھوں یر غمال بنے ہوئے ہیں۔ کیوں ہم نے اپنی آزادی، خو شحالی، ترقی، رواداری چند ہزار کے ہاتھوں گروی رکھ رکھی ہے۔
کیا ہماری مسلح افواج جو آپ کی اور میری خاطر اپنی جانوں کے نذرانے دے رہی ہے کیا انھیں اپنی جانیں پیاری نہیں ہیں کیا ان کے پیارے ان سے پیار و محبت نہیں کرتے۔ ہم کیوں اتنے بے حس اور ڈرپورک بنے ہوئے ہیں کیا ہمیں اپنے آپ سے شرمندگی نہیں ہوتی۔ کیا ہمارا ضمیر ہمیں بخش دے گا۔ انسان دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو زندگی بسر کرتے ہیں دوسرے وہ جن کو خود زندگی بسرکرتی ہے۔ ''سقراط کہتا تھا ایسی زندگی جس کا محاسبہ نہ کیا جائے بے وقعت ہے'' محاسبے سے ہی ہم جان سکتے ہیں کہ بھلائی کس میں ہے اور بھلائی کا علم ہی اس کے حصول کے برابر ہے۔ یاد رہے ہم سب پیدا ہی اس لیے ہوئے تھے کہ ہمیں کامیابی وہ کامرانی حاصل ہو تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم کامیابی حاصل نہیں کر سکے اور ناکامی سے دوچار ہو گئے اس ناکامی میں یقینا فطرت کا کوئی قصور نہیں کیونکہ فطرت ہر حال میں انسان کے لیے کامیابی چاہتی ہے۔
ہماری ناکامی کے پیچھے اصل وجہ یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہی نہیں تھا کہ ہماری خواہش اور مرضی کیا ہے ہم نے اپنی منزل کا تعین کیے بغیر اپنا سفر شروع کر دیا ہمیں معلوم ہی نہیں ہے کہ ہمیں کس سمت میں جانا ہے یا اس منزل کی طرف کونسا راستہ جا تا ہے ذہن نشین رہے کہ کسی نامعلوم راستے کے ذریعے نامعلوم وقت صرف کر نے کے ذریعے کسی نامعلوم رخ کی طرف جانے کے ذریعے کسی نامعلوم منزل کی طرف پہنچنے کا امکان صفر ہوتا ہے اور وہ ناامیدی کے عالم میں گردش کرتے رہتے ہیں اور وہیں پہنچ جاتے ہیں جہاں سے انھوں نے سفر شروع کیا تھا۔
آئیں ہم سب خود سے سوال کریں کہ ہماری خواہش اور مرضی کیا ہے ظاہر ہے سب کا جواب یہ ہی ہو گا کہ ہماری خواہش اور مرضی اپنے اور اپنے پیاروں کے لیے خو شحالی، آزادی، ترقی، مساوات، امن و سکون، سلامتی اور رواداری ہے ہم سب کی یہ ہی منزل ہے اب جب کہ ہم اپنی منزل کا تعین کر چکے ہیں تو ہمیں اسی راستے کو چننا ہے جو ہمیں اپنی منزل کی طر لے جائے وہ راستہ صرف اور صرف ہمت، جرأت، حوصلے اور جدو جہد کا ہے تو پھر آئیں ہم مل کر ان رکاوٹوں کو اٹھا کر پھینک دیں جو ہماری منزل کی راہ میں حائل ہیں۔ یاد رہے وہ رکاوٹیں دہشت گرد، رجعت پرست، بنیاد پرست اور انتہا پسند ہیں جو آپ کی اور میری ترقی، آزادی اور خو شحالی میں حائل ہیں آئیں، اٹھیں اور اپنے دشمنوں کو للکاریں اور اپنی مسلح افواج کے سنگ سنگ اپنے دشمنوں کو مار بھگائیں اس کے علاوہ اور کوئی راستہ منزل کی طرف نہیں جاتا۔