ناقص طبی سہولتوں کے باعث ہر سال ساڑھے 3 لاکھ بچے مرجاتے ہیں رپورٹ

تھرپارکر اور آواران اضلاع میں بچوں کی ہلاکتوں پر آج تک کوئی اجلاس طلب نہیں کیاجاسکا، پی پی رکن قائمہ کمیٹی برائے صحت


Zahid Gishkori January 08, 2015
50فیصد ماؤں کو زچگی کے مراحل میں تربیت یافتہ عملہ یا لیڈی ڈاکٹر میسر نہیں، ایڈووکیسی اینڈ چائلڈ رائٹس گورننس۔ فوٹو: ایکسپریس/فائل

ملک بھر میں ناقص طبی سہولتوں کے باعث 5سال سے کم عمر کے ساڑھے 3لاکھ سے زائد بچے ہرسال انتقال کر جاتے ہیں۔

ایکسپریس ٹربیون کی رپورٹ کے مطابق سرکاری اور غیرسرکاری اداروں سے حاصل کئے گئے اعداد وشمار کے مطابق سالانہ 964 نومولود ہلاک ہوجاتے ہیں جب کہ 5 سال سے کم عمر بچوں کی 3 لاکھ 52 ہزار ہلاکتیں رپورٹ ہوتی ہیں، کوئی بھی ادارہ ناقص طبی سہولتوں کی وجہ سے بچوں کی ہلاکتوں کی ذمے داری لینے کو تیارنہیں۔

مٹھی کے گوٹھ ہریار کے34 سالہ پریم چندر نے بتایاکہ ماں بچہ کیلئے ناقص طبی سہولتوں کے باعث میں اپنے 3 بچوں سے محروم ہوچکا ہوں۔ پریم چندر اور اس کی اہلیہ سنجھاری نے اپنے2 بیمار بچوں کی جان بچانے کیلئے اپنے گاؤں سے مٹھی نقل مکانی کی تھی ان کا تیسرا بچہ گذشتہ ماہ ہلاک ہوا۔ چندر کا کہناہے کہ ہماراملک جوہری طاقت ہے لیکن ہمارے بچوں کومناسب غذا میسرنہیں، اس میں کوئی تعجب نہیں کہ ہمارے بچے غذائی قلت کے باعث مررہے ہیں۔ گزشتہ سال سندھ بالخصوص تھرپارکر میں غذائی قلت کے باعث330بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق خسرہ اور دیگر وبائی امراض کے باعث پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں1800بچے ہلاک ہوئے۔

پی ڈی ایچ سروے، عالمی ادارہ صحت، سیو دی چلڈرن اور اقوام متحدہ کے چلڈرن فنڈ کی رپورٹس کے مطابق پاکستان میںولادت کے پہلے دن اور حمل کے آخری دنوں میں(stillbirth, futus) بچوں کی اموات کی شرح خطرناک حد تک بلند ہے، یہاں ہرایک ہزار بچوں میں سے40.7بچے ہلاک ہوجاتے ہیں، ملک بھر میں زچگی کے دوران سالانہ 28ہزار مائیں لقمہ اجل بن جاتی ہیں، 2لاکھ سے زائد بچے اپنی زندگی کے28دن نہیں دیکھ پاتے۔ پی ڈی ایچ سروے رپورٹ 2006-7کے مطابق دیہی علاقوں میں بچوں کی اموات کی شرح زیادہ ہے۔

غیرسرکاری ادارے ایڈووکیسی اینڈ چائلڈ رائٹس گورننس کے ڈائریکٹرارشدمحمود کے مطابق 2012-13میںصورت حال مزید خراب ہوگئی اور نومولود بچوں کی ہلاکتوں کا تناسب ہرایک ہزار میں 55 پر آگیا، 50فیصد ماؤں کو زچگی کے مراحل میںتربیت یافتہ عملہ یا لیڈی ڈاکٹر میسر نہیں، 2لاکھ بچوں کی جان زچگی کے موقع پر تربیت یافتہ دائی یالیڈی ڈاکٹر کی فراہمی سے بچائی جاسکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نومولود کی صحت کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ترجیحی اقدام کرناچاہئیں، ماں بچہ کی خوراک اور طبی سہولتوں کیلیے رقوم مختص کی جانی چاہئیں۔

بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ صحت اور بچوں کی فلاح و بہبود کی صوبائی وزارتیںاپنے صوبے میں بچوں کی اموات کے اعداد وشمار فراہم کرنے کے قابل بھی نہیں۔ پنجاب اورخیبرپختونخوا کے چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو، سندھ سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ فارچلڈرن کے حکام نے بتایاکہ سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں خسرہ اور غذائی قلت پر بچوں کی حالیہ اموات کے حوالے سے ابھی تک کوئی اجلاس ہی طلب نہیں کیاگیا۔

قائمہ کمیٹی برائے صحت کے رکن پیپلزپارٹی کے ایک رکن قومی اسمبلی نے بغیرکوئی وجہ بیان کیے اعتراف کیاکہ سندھ کے ضلع تھرپارکر اور بلوچستان کے ضلع آواران میں بچوں کی ہلاکتوں پر ابھی تک کوئی اجلاس طلب نہیں کیاجاسکا۔ انھوں نے دعویٰ کیاکہ سندھ حکومت بچوں کی اموات پر ہنگامی اقدام کررہی ہے۔ ن لیگ کی رکن قومی اسمبلی مائزہ حمید نے اعتراف کیاکہ ملک میں بچوں کی شرح اموات میں1994سے آج تک کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ انھوں نے دعویٰ کیاکہ وفاقی حکومت صحت کے مسائل کے حوالے سے انتہائی باخبر ہے۔

ماہرین نے نیشنل ہیلتھ پروگرام 2010-15 پرعملدرآمد کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیاہے، ان کا کہناہے کہ فنڈ اور افرادی وسائل کی قلت کے باعث نیشنل پروگرام فار فیملی پلاننگ اینڈ پرائمری ہیلتھ کیئر کے اہداف پورے نہیں ہوسکیں گے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں ایک لاکھ 80ہزار لیڈی ہیلتھ ورکرز ہیں، ماں اور بچہ کیلیے جاری لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام کو اہداف کے حصول کیلیے77ارب درکار ہیں۔

حیدرآباد سول اسپتال کے بچہ وارڈ کے انچارج ڈاکٹر نند لال کا کہناہے کہ پنجاب اور سندھ میں15،15ہزار کمیونٹی مڈوائف تعینات کرناہوں گی۔ بلوچستان، جنوبی پنجاب اوراندرون سندھ میں بہتر طبی سہولتوں کی فراہمی میں غربت سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ انھوں نے عالمی ادارہ صحت اور یونی سف پر ز وردیا کہ پاکستان میں چائلڈ ویلفیئر پروگرام دوبارہ شروع کیاجائے۔

ادارہ تعلیم و آگاہی کے ریجنل منیجر برائے پنجاب فرحان عامر کا کہناہے کہ جنوبی پنجاب کے5اضلاع میں ناقص طبی سہولتوں کی وجہ سے300بچے ہلاک ہوچکے ہیں، سیلاب اور دیگر آفات کی وجہ سے ہزاروں بچے ہیضہ، امراض چشم اور انفیکشن والی بیماریوں کا شکار ہیں۔ انھوں نے کہاکہ میں بچوں کے حوالے سے بہت فکر مند ہوں، یہاں ایک دن کی مسافت پر کوئی دوا یاڈسپنسری میسر نہیں۔ انھوں نے کہاکہ پنجاب حکومت نے پسماندہ اضلاع میں بچوں کیلیے کوئی اقدام نہیں کیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں