اللہ نگہبان
دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جو حکمت عملی بنائی جا رہی ہے اس پر سب متفق ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ حکومت، فوج اور سیاستدان ایک صفحے پر ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جو حکمت عملی بنائی جا رہی ہے اس پر سب متفق ہیں۔ مگر ساتھ ہی کسی نہ کسی جماعت کی جانب سے ان اقدامات فوجی عدالتی نظام پر تحفظات اور اعتراض کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ کسی کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ آخری سانس لے رہی ہے تو کسی کو اپنی فکر دامن گیر ہے۔ ملک کے تمام تعلیمی ادارے چوپٹ پڑے ہیں، یعنی جو دشمن چاہتا ہے کہ علم کی شمع گل کرکے جہالت کا اندھیرا پھیلایا جائے، (خدانخواستہ کہیں وہ تو نہیں ہو رہا؟) ہمارا مستقل داؤ پر لگا ہے مگر اب بھی سیاستدانوں کو انتخابی دھاندلی،چند حلقوں کے ووٹوں کی ازسرنو گنتی اور حکومت کا بستر گول کرنے کی فکر ہے۔
ہر کوئی بلند و بانگ دعوے کر رہا ہے کہ ہم معصوم بچوں (طلبا) کا خون رائیگاں نہ جانے دیں گے۔ ایک ایک قطرہ خون کا حساب لیں گے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب محض وقت گزاری ہی نظر آرہا ہے۔ اگر کوئی کچھ کرے گا تو وہ افواج پاکستان ہی کرے گی۔ ورنہ سیاستدان تو اپنے ہی پروگرام پر عمل پیرا رہیں گے یہ سوچے بنا کہ پاکستان اور جمہوریت ہے تو ان کا کردار بھی ہے ورنہ 77 کے انتخابات میں معمولی دھاندلی کے خلاف جو نام نہاد بحالی حقیقی جمہوریت کے نتائج سامنے آئے تھے آثار آج بھی کچھ اسی قسم کے نظر آرہے ہیں۔ انتخابی دھاندلی کا شور مچانے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ 2013 کے انتخابات تو پہلے ہی ہائی جیک ہوچکے تھے۔
نہ وہ انتخابی ماحول تھا اور نہ تمام جماعتوں کو اس میں بھرپور حصہ لینے کی اجازت، سوائے تین جماعتوں کے۔ سیاست کے علمبرداروں نے اسی وقت کیوں سیاسی رواداری کا مظاہرہ نہ کیا اور تمام دیگر جماعتوں کو غیر فعال کرنے کی مخالفت کیوں نہ کی؟ کیونکہ یہی جمہوری طرز فکر ہوتا ہے کہ مخالفین کو اپنے عوام دوست منشور اور رویے سے میدان سیاست میں شکست دی جائے نہ کہ ان کو میدان سے باہر کرکے۔ 2013 کے انتخابات میں دہشت گردوں اور ان کے ہم نواؤں نے ان تمام جماعتوں کو جو روشن خیال، عوامی مسائل کے حل میں مخلص اور ان کو اپنے منشور سے متحرک و فعال کرسکتی تھی کو انتخابی مہم سے دور رکھا صرف ان جماعتوں کو انتخابی مہم چلانے کی اجازت ملی جن کے پاس عوام کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ دہشت گردوں کو للکارنا تو کجا ان کے منشور میں دہشت گردی سے نجات کا ذکر تک نہ تھا۔الزام لگایا جا رہا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی اور پولنگ سے قبل ہی ہوئی ورنہ پی پی کا یوں صفایا نہ ہوا ہوتا۔
جو اندازے لگائے جا رہے تھے کہ پی ٹی آئی اس بار اسمبلی میں وسیع پیمانے پر نشستیں حاصل کرے گی۔ وہ دراصل (ان ہی مراعات جو انھیں طالبان کا ہمدرد ہونے پر حاصل تھیں) عظیم الشان جلسے بلاخوف کرنے کی وجہ سے لگائے جا رہے تھے۔ انتخابات سے قبل بھی مجھ سمیت کئی لکھنے والوں نے عوام کو آگاہ کیا تھا کہ وہ اپنا حق رائے دہی بے حد سوچ سمجھ کر استعمال کریں اور اس بات پر سنجیدگی سے غور کریں کہ صرف تین جماعتوں کو ہی جلسے کرنے کی آزادی کیوں میسر ہے اور باقی تمام سیاسی جماعتوں پر انتخابی مہم کیوں حرام قرار دی گئی ہے؟ (سب جانتے ہیں کہ طالبان کو باآواز بلند للکارنے والے کون تھے) ان کے دفاتر، کارکنان حتیٰ کہ انتخابی امیدواروں پر قاتلانہ حملے کیوں کیے گئے؟
آج کے حالات میں اگر دیکھیں تو یہ تینوں جماعتیں کسی نہ کسی انداز سے اپنے دل میں طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہیں۔ اور انھیں بہانے بہانے سے مزید مہلت دینے پر عمل پیرا رہی ہیں۔ کبھی ان کے مرنے والوں کی نماز جنازہ میں شرکت کرکے، کبھی ان کا دفتر کھلوانے کی تجویز پیش کرکے، کبھی مذاکرات کے ذریعے اور کبھی ان کو اپنا بھائی قرار دے کر۔ اگرچہ یہ باتیں کھلم کھلا ذرائع ابلاغ میں نہ بھی آئی ہوں، مگر عوام تک یا جو کم ازکم حالات پر گہری نظر رکھنے والے اور مطالعہ کرنے والے ہیں، غیر اہم ایک کالمی چند سطروں کی خبر پر بھی نظر رکھتے ہیں جنھیں کہیں کونے میں لگا دیا جاتا ہے مگر جو اندرونی حالات کو افشاں کرتی ہیں۔
بھاری مینڈیٹ سے آنے والی حکومت اگر چاہتی تو برسر اقتدار آتے ہی (بلکہ اپنے منشور میں ہی) دہشت گردوں کا خاتمہ ترجیحی بنیادوں پر کرتی مگر ایسا نہیں ہوا۔ جب فوجی سربراہ کی جرأت مندانہ کوشش سے آپریشن کا آغاز ہوگیا تو ملک میں تمام گڑے مردے اکھاڑنے کا عمل اس لیے شروع کیا گیا کہ فوج کی توجہ آپریشن سے ہٹا کر اندرونی خلفشار کی جانب مبذول کی جائے۔ فوج کو بیک وقت کئی محاذوں پر الجھانے کے لیے کبھی انگلی اٹھنے، کبھی سہولت کار کے طور پر ملوث کرنے کی کوشش کو اور کیا کہا جاسکتا ہے؟مگر شاباش ہے فوجی قیادت کو اور جوانوں کی ہمت و عظمت کو سلام جو ملکی استحکام و آزادی، امن و امان کے قیام کے لیے ڈٹے رہے، بلکہ اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرتے رہے۔ اگر قوم بالخصوص نوجوان دھرنوں، جلسوں، ریلیوں اور احتجاج میں جانے کی بجائے خدمت خلق کے ذریعے افواج پاکستان کے ہاتھ مضبوط کرتے، کم ازکم آئی ڈی پیز کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے کر ملکی محافظوں کے لیے طمانیت قلب کا باعث بنتے، ادھر سے بے فکر ہوکر فوج اپنی مکمل توجہ آپریشن پر مرکوز کرتی تو نتائج جلد اور مثبت حاصل ہوتے۔
سول سوسائٹی اور نوجوانوں کو ملک سے محبت ہے (جو یقینا ہے، مگر لیڈران ان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرکے ان کے کردار کو غلط راستوں پر ڈال رہے ہیں) تو وہ ازخود آئی ڈی پیز کے ہمراہ آنے والے دہشت گردوں کو ملک بھر میں پھیلنے سے روکنے کی حکمت عملی تشکیل دے کر اس امر کو یقینی بناتے کہ یہ عفریت شہر شہر، گاؤں گاؤں نہ پھیلنے پائے۔ اگر کے پی کے کی سرحد پر نگہداری نظام قائم کرکے دیگر صوبوں تک اس بلا کو پھیلنے سے روکنے کا بندوبست ہو جاتا (نوجوان اپنی خود ٹولیاں بناکر یہ کام ذمے داری سے ادا کرسکتے تھے) تو آج پورے ملک میں دہشت گردی کے اتنے واقعات رونما نہ ہوتے۔ اللہ کا بڑا فضل ہے کہ ہمارا ملک تازہ دم ولولہ انگیز نوجوانوں کی دولت سے مالا مال ہے (کہ یہی عمر کچھ کر گزرنے کی ہوتی ہے) مگر ہمارے پاس اس پرخلوص قوت سے کام لینے کے لیے کوئی باقاعدہ پروگرام نہیں، بلکہ ملک دشمن عناصر انھیں منشیات کا عادی، بے عمل اور ہر فکر سے آزاد کرنے میں مصروف ہیں۔
اگر اس نسل میں احساس ذمے داری پیدا کیا جاتا اور ایسے کام جن کا اوپر ذکر کیا گیا، قومی فلاح و بہبود کے اور کئی کام نوجوانوں کے حوالے کیے جاسکتے اور یہ کام ان سے کرائے جاتے تو کیا حرج تھا؟ یہ ہمارا مستقبل ہیں ان کی کچھ تربیت قوم و ملک کی خدمت اور ذمے داری اٹھانے کی ہوجاتی، ان کاموں سے یہ بہت کچھ سیکھتے اور میدان عمل ان کے سامنے کھل جاتے۔ اسی دوران ضرورت مندوں کو کچھ مشاہرہ بھی دیا جاسکتا تھا تو بیروزگاری میں بھی کمی واقع ہوسکتی تھی۔
مگر جب مطمع نظر صرف اور صرف حصول اقتدار ہو تو پھر کیسے ممکن ہے کہ کوئی اس انداز میں سوچے؟ وہاں تو چند حلقوں کے نتائج کی فکر میں نوجوانوں کو مسلسل استعمال کیا گیا۔ اور اگر اقتدار مل بھی جائے تو وہی عذر لنگ کہ ہمیں ملک اتنے مسائل میں گھرا ہوا ملا تھا ہم ان نوجوانوں کو جو اپنے خوشگوار مستقبل کے لیے ہر ایک کے ساتھ جدوجہد میں شامل رہے ہم انھیں فی الحال روزگار مہیا نہیں کرسکتے۔
ہم تو شروع سے یہی لکھتے آرہے ہیں کہ یہ سب کچھ آپریشن ضرب عضب کو ناکام بنانے کے بہانے ہیں۔ کاش ہم اقتدار کے بغیر بھی ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ رکھتے، اپنے ملک کے لیے ہر صورت میں کام آنے کے لیے تیار رہتے(اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق)تو شاید آج ہمارے پھول سے زیادہ نازک بچے ایسی بربریت کا نشانہ کبھی نہ بنتے، وہ دہشت گردی جو بھلائے نہیں بھولتی۔
بہت بڑی حقیقت یہ بھی ہے کہ ملک کے 90 فیصد عوام محب وطن ہیں جو ہر وقت ملک کی فلاح و بہبود اور استحکام کے لیے نہ صرف دعا گو ہیں بلکہ حتیٰ المقدور کوشاں بھی، مگر مٹھی بھر خود غرض اور ہوس اقتدار میں مبتلا لوگوں نے ان کو یرغمال بنا رکھا ہے، وہ سب بے بس ہیں۔ نظام تعلیم ہو، ذریعہ تعلیم ہو، محکمہ صحت، داخلی و خارجی تعلقات ہوں یہ سب عوامی امنگوں اور خواہشات کے مطابق نہیں۔ ان سب پر مخصوص انداز فکر کے افراد قابض ہیں، وہ اپنی مرضی و مفاد کے لیے تمام نظام تشکیل دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ طلبا کو پاکستان کی تاریخ تک غلط پڑھائی جا رہی ہے اور عوام ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ اللہ ہمارا حافظ و نگہبان۔