ہم اندھیرے میں رکھے گئے

عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تھا۔ اس لیے یہاں اسلامی نظام نافذ ہونا چاہیے۔


Aftab Ahmed Khanzada January 09, 2015

آج ہم ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں کہ ایک راستہ مکمل طور تباہی و بربادی کی طرف اور دوسرا راستہ امن وآشتی وخوشحالی کی طرف جاتا ہے۔ ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کس راستے کا انتخاب کرتے ہیں ہم آج شدید فکری ونظریاتی انتشار کا شکار ہیں، ساتھ ساتھ ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس شدید ذہنی خلفشار اورکنفیوژن میں عام آدمی بھی اسلامی انتہاپسندی کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے یعنی ذہنی طالبانائزیشن کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔

عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تھا۔ اس لیے یہاں اسلامی نظام نافذ ہونا چاہیے اور پھر یہ دلیل جاکر ختم ہوتی ہے، انتہا پسندی پر خواہ وہ ذہنی ہو یا عملی ۔ اس فکری اور سیاسی بحران کی بنیاد میں چند اہم تاریخی مغالطے ہیں جن کا گہرا تعلق ہماری تاریخ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ان کے بارے میں پڑھے لکھے افراد کی اکثریت بھی کنفیوژن کا شکار ہے ۔ تحریک پاکستان کے دوران مسلم لیگی قیادت نے سنجیدگی سے کبھی یہ سوچنے کی ضرورت محسوس نہ کی کہ پاکستان بن جانے کے بعد نئی ریاست کی نوعیت کیا ہوگی اس کا سیاسی ڈھانچہ کن اصولوں کے مطابق بنے گا اور ریاست کا اقتصادی یا سماجی ڈھانچہ کیا ہوگا۔ دراصل مسلم لیگی قیادت کا طبقاتی کردار اس کی دیرینہ روایت اور اس کی سوچ کا انداز ریاست کی نوعیت پر غوروفکر کی اجازت نہ دیتا تھا۔

مسلم لیگ نوابوں،راجاؤں ، خان بہادروں، سرداروں،جاگیرداروں کے بوجھ تلے اتنی دبی ہوئی تھی کہ خود قائد اعظم بھی نئی ریاست کے نقوش کی وضاحت کرتے ہوئے ہچکچاتے تھے کہ کہیں مسلم لیگ میں موجود اشرافیہ ناراض نہ ہوجائے اور لیگ میں پھوٹ پڑ جائے ۔ لیگی قیادت نے مسلمانوں کی سیاسی تعلیم کی طرف ذرا برابر توجہ نہ دی بلکہ ان کو سارا وقت جذباتی نعروں کا نشہ پلاتی رہی نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم عوام ریاست کی تشکیل نو کے بارے میں اندھیرے میں رہے بلکہ دانستہ طور پر اندھیرے میں رکھے گئے ۔

حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگی لیڈروں نے پاکستان کی تحریک مسلمانوں کی معاشرتی اصلاح و ترقی کی غرض سے نہیں شروع کی تھی بلکہ نئی ریاست میں حکومت کرنے کی خواہش ان کو قائداعظم کے قریب لے گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ لیگی قیادت نے سماجی اور اقتصادی ترقی کا کوئی پروگرام جان بوجھ کر وضع نہیں کیا اور مسلم عوام کو فقط طفل تسلیوں سے بہلاتی رہی ۔ اس لیے تصور پاکستان اور ایک نئی ریاست کے تقاضوں کے مابین مصالحت نہ ہوسکی اور یہ ہی عدم مصالحت ایک فعال آئین کی تشکیل اور عام انتخابات کے باقاعدہ انعقاد میں ناکامی پر منتج ہوئی ۔

ساتھ ساتھ معاشی عدم مساوات کا بھی آغاز ہوگیا اور طبقاتی کشمکش تیز سے تیز تر ہوگئی، نو تشکیل شدہ پاکستان میں کئی طبقات ایسے تھے جن کی جمہوریت کے ساتھ وابستگی برائے نام تھی اور وہ قدامت پسند اور عام طور پر غیر سیاسی لوگ تھے اس ساری صورتحال میں مذہبی جماعتیں جو آزادی کی جدوجہد کے دوران پاکستان کی تخلیق کے خلاف تھیں انھوں نے پاکستان بننے کے بعد قلابازی کھائی اور اپنے آپ کو تحریک پاکستان کا سب سے بڑا چیمپئن پیش کرنا شروع کر دیا اور نئی ریاست کی نظریاتی بنیادوں میں بارودی سر نگیں نصب کر دینا شروع کردیں ۔ قرارداد مقاصد اسی سلسلے کی کڑی تھی جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے ۔

آج پاکستان میں مذہبی دہشت گردوں نے قتل و غارت گری کا جو باز ارگرم کر رکھا ہے اس کی جڑ میں جن نعروں اور نظریوں کا بیج بویا گیا اور جن کی آبیاری گزشتہ 67 سال کے دوران کی گئی وہ کچھ یوں ہیں۔

نظریہ پاکستان ، نظریاتی سرحدیں ، نظریاتی ریاست ، اسلامی ریاست، اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ، اسلامی نظام ، نفاذ شریعت یا نفاذ اسلام ، حکومت الہیہ کا قیام ، احیائے اسلام ، اسلامی امہ وغیرہ ۔ ہم اگر تاریخ پر نظرڈالیں تو ان اصطلاحوں کا استعمال قیام پاکستان سے پہلے کہیں نظرنہیں آتا بلکہ قیام پاکستان کے بعد شروع کیا گیا۔ ہم پاکستانی بطور ایک قوم اپنا تجزیہ آپ کرنے سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں اور اپنے پر الزام دینے کے بجائے دوسروں پر الزام منطق اور دلائل کی بجائے جذبات ، تعصب، نفرت کی بنیاد پر لگانے کے عادی مجرم بن چکے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ملک کی اشرافیہ اپنے انجام دیے گئے اعمال اور غلطیوں کی خود ذمے داری نہیں اٹھاتی بلکہ اس کے بجائے پاکستان کو غیر ملکیوں کے ہاتھوں بدنام اور نقصان دہ ملک کے طور پر پیش کرتی ہے۔ چار وجوہات نے پاکستان کو ایک مستحکم اور اندرون خانہ مضبوط ریاست بننے نہیں دیا پہلے نمبر پر اس کے سیاست دان ہیں جو عوام کو ایک لڑی میں پرو دینے والی قومی شناختی پالیسی دینے میں ناکام رہے یہ مو ضوع ایک عرصے سے بدستور باعث تکرار ہے جیسا کہ ایک سوال اکثر کیا جاتا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے یا یہ مسلمانوں کی ایک ایسی ریاست ہے جس میں دیگر مذاہب کے پیرو کاروں اوراقلیتوں کے لیے کوئی جگہ ہے ؟ کیا یہ اس طرح کی جمہوری ریاست ہے جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا کیا اس کے باشندے پہلے مسلمان بعد میں سندھی ،پٹھان ،بلوچی، پنجابی اور آخر میں پاکستانی ہیں یا وہ سب سے پہلے پاکستانی ہیں۔

دوسر ی وجہ غیر سیاسی قوتوں اور سویلین حکومتوں کے مابین تعلقات میں دراڑ کی ایک طویل تاریخ ہے جو پاکستان میں غیر سیاسی حکومت کی وجہ بنی تیسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان ایک ایسی ریاست بن گیا ہے جو اسلامی انتہاپسندوں کے لیے جنت ثابت ہو رہا ہے ۔ پاکستان کی کمزوری کی چوتھی وجہ اس کی نسلی گروہوں کی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی کو فروغ دینے میں ناکامی ہے۔ پاکستان کے سیاسی نظام اور سیاسی جماعتوں کی ناکامی یہ ہے کہ وہ انہیں ہم آہنگی لانے میں مدد دینے میں ناکام ہو گئے ہیں اور انھوں نے کبھی بھی جدید روشن خیالی پر مبنی پالیسیاں متعارف نہیں کرائیں جو ملکی سطح پر معیشت اور معاشرے میں اصلاحات لاسکتیں اس کے ساتھ سیاست دانوں کی کرپشن نے بھی اسلامی انتہا پسندوں کو موقع فراہم کیا کہ وہ خود کو عوام کے سامنے ایماندار اور بے داغ متبادل قیادت کے طور پر پیش کر سکیں ۔ یہ ایک تکلیف دہ بات ہے کہ پاکستانی میڈیا میں اسلامی دہشت گردوں کی وکالت جاری ہے اور ٹی وی مذاکروں سے لے کر اخبارات کے ادارتی صفحات تک دہشت گردوں کے ہاتھوں سیکیورٹی اہل کاروں افواج اور معصوم شہریوں کے قتل کی مذمت نہ ہونے کے برابر ہے۔

دائیں بازو کے مذہبی سیاست دان اور انتہا پسندوں کے حامیوں کا مشترکہ موقف یہ ہے کہ یہ سب کچھ امریکی پالیسیوں پر عمل پیراہونے کے نتیجے میں ہورہا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری اپنی جنگ نہیں ہے وہ کھلے عام کہتے ہیں کہ وہ انتہاپسندوں کو پسند کرتے ہیں وہ یہ بات صرف مغرب دشمنی کی بنا پر نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ ان کی اس بات کے پیچھے سیاسی برتری کی خواہش پوشیدہ ہے جو انہیں انتہاپسندوں کی مدد سے خیبر پختون خوا اور کراچی میں دوبارہ حاصل ہوسکتی ہے ۔چاہے اس کے حصول کے لیے انہیں کوئی بھی قیمت ادا کر نا پڑے۔ بنیادی طور پر ریاست کی بقاء کے لیے لڑی جانے والی جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے جو ریاست کے آئندہ خدوخال اور مستقبل کا تعین کریگی ۔

یہ بات طے ہے کہ جب تک ملک کی سیاسی جماعتیں اپنے ایجنڈے میں تبدیلی اور اصلاحات شامل نہیں کرتیں پاکستان کو سیاسی تحمل داری پر کمزوری کا سامنا رہے گا اور صوبوں میں ابتری و بدانتظامی اور تشدد بڑھتا رہے گا۔ کروڑوں لوگوں کو اقتصادی تباہی کا سامنا رہے گا قدرتی آفات، حکومت کی کم عقلی و نااہلی،آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ، بدترین نتائج کا باعث بنتے رہیں گے، عسکریت کاخطرہ بدستور قائم رہے گا جو کسی بھی وقت سلامتی کے متعلقہ اداروں کو بھی اپنی زد میں لے سکتا ہے اور سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ایک طویل عرصے سے سیاسی جماعتیں اپنے ذمے سب سے ضروری کام بھلائے بیٹھی ہیں اور وہ کام اور کچھ نہیں صرف عوام کی زندگی کو بہتر اور خوشحال بنانا ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں