ڈی آر ایس کی مخالفت اصل وجوہات کیا ہیں

انڈین کرکٹ بورڈ کا ’’خفیہ‘‘ میمو منظر عام پر آگیا


Hassaan Khalid January 10, 2015
انڈین کرکٹ بورڈ کا ’’خفیہ‘‘ میمو منظر عام پر آگیا۔ فوٹو: فائل

گزشتہ کچھ برس سے انٹرنیشنل کرکٹ میں فیلڈ ایمپائرز کے فیصلوں پر نظرثانی کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

ڈی آر ایس (Decision Review System) کو سب سے زیادہ مخالفت کا سامنا BCCI یا انڈین کرکٹ بورڈ کی طرف سے ہے، جس کی وجہ سے آئی سی سی (ICC) نے اس کے استعمال کو دونوں ٹیموں کی مرضی سے مشروط کیا ہواہے۔ حال ہی میں بھارت اور آسٹریلیا کے درمیان ہونے والی ٹیسٹ سیریز میں ایمپائرز نے انڈیا کے خلاف کچھ غلط فیصلے دئیے، جس کی نشاندہی سادہ ری پلے سے ہو جاتی ہے، لیکن DRS کی مخالفت کی وجہ سے انڈیا ریویو کی سہولت سے فائدہ اٹھا کر یہ فیصلے اپنے حق میں تبدیل نہیں کرا سکا۔

اس صورتحال میں BCCI پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ DRS کے بارے میں اپنے روایتی موقف میں تبدیلی لے آئے۔ کرکٹ تجزیہ نگار سدھارتھ مونگا نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ ''عملی زندگی ہو یا کھیل کا میدان، ہم کسی بھی چیز کے صحیح ہونے کی 100 فیصد گارنٹی نہیں دے سکتے۔ غلطی کے امکان کے علاوہ، DRS پر کچھ تحفظات ہیں، تو بھارت کو کھل کر بات کرنی چاہیے۔ بصورت دیگر اس پر ٹھنڈے دماغ سے سوچتے ہوئے بھارت کو اپنا موقف تبدیل کر لینا چاہیے۔''

ابھی یہ بحث جاری تھی کہ ایک اور مضمون نگار آر راجکمار، ایک خفیہ میمو ڈھونڈ کر نکال لائے ہیں، جس میں انڈین کرکٹ بورڈ کی طرف سے DRS کی مسلسل مخالفت کی اصل وجوہات درج ہیں۔ مضمون نگار نے ''انکشاف'' کیا ہے کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ بھارت کی مخالفت کی وجہ DRS کی روایتی خامیاں ہیں، لیکن BCCI کے خفیہ میمو سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس مخالفت کے پیچھے توقع سے کہیں بڑے مسائل اور سنجیدہ وجوہات ہیں۔ گویا سدھارتھ مونگا کی خواہش کے عین مطابق، اس میمو میں انڈین کرکٹ بورڈ نے DRS پر اپنے اصل تحفظات کھل کر بیان کیے ہیں، جنہیں آر راج کمار نے ''دریافت'' کیا ہے۔



بھارتی کرکٹ بورڈ لکھتا ہے:

(1) ہمیں اس بات کا دردناک تجربہ ہے کہ DRS کے استعمال کے باوجود ہمارے حق میں فیصلے کم ہی آتے ہیں، جیسا کہ اس کے بغیر بھی زیادہ تر فیصلے ہمارے خلاف آ رہے ہیں۔ اس صورتحال میں یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس سسٹم کے استعمال کا جواز کیا ہے۔

(2) ہمارے خیال میں ہاٹ اسپاٹ سے صرف یہ ہی پتا نہیں چلتا کہ گیند نے بیٹسمین کے بلے کو چھوا ہے یا نہیں، بلکہ یہ ٹیکنالوجی، سلیکٹرز کی غلطیوں کو بھی سب کے سامنے عیاں کرتی ہے، اور سادہ سی بات ہے کہ ہم ایسی مہان شخصیات کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔ علاوہ ازیں، یہ ٹیکنالوجی ہمارے کچھ بلے بازوں میں دماغ نامی کسی چیز کا کھوج لگانے میں بھی ناکام رہی ہے۔ اس لیے جب تک یہ بنیادی معاملات حل نہیں کر لیے جاتے، ہمیں ایسی کسی بھی ''ٹیکنالوجی'' کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیے۔

(3) DRS میں سنکومیٹر نامی آلے کی مدد سے گیند کے بلے سے ٹکرانے کی آواز کو ریکارڈ کیا جاتا ہے، حالانکہ اس طرح کی آواز کی نقالی کر کے سسٹم کو دھوکہ دیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر جب گیند، بیٹسمین کے بلے کے قریب سے گزرنے لگے تو کوئی فیلڈر اپنے منہ سے ایسی آواز نکال سکتا ہے، جیسا کہ گیند کے بلے کے کنارے سے ٹکرانے سے پیدا ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں کیا ہو گا؟ کبھی کسی نے سوچا؟

(4) ویرات کوہلی نے رنگ گورا کرنے کی کریم بنانے والی ایک کمپنی سے معاہدہ کیا ہوا ہے۔ معاہدے میں یہ بات خاص طور پر شامل ہے کہ ٹیلی ویژن اسکرین پر اس کا چہرہ، جسم کے باقی حصوں کی نسبت زیادہ روشن نظر آنا چاہیے۔ جب تک ہم کوئی ایسا طریقہ دریافت نہیں کر لیتے کہ ہاٹ اسپاٹ میں اس کا چہرہ، باقی جسم کی نسبت روشن نظر آئے، وہ اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے سہولت محسوس نہیں کرے گا۔

(5) ہو سکتا ہے کسی کا خیال ہو کہ دھونی ایک ایسے کھلاڑی ہیں، جو DRS کی حمایت کریں گے۔ چونکہ انفراریڈ شعاعوں میں ان کے سفید بال چھپ جاتے ہیں، اس لیے وہ تو کھیل سے ہٹ کر، عام زندگی میں بھی اس طرح نظر آنا پسند کریں گے۔ لیکن دھونی اتنے ایماندار ہیں کہ وہ صرف ذاتی مفاد کے لیے اس طرح کی سہولت کو ناپسند کرتے ہیں۔



(6) ہمارے کچھ سادہ لوح اور توہم پسند کھلاڑیوں کو یہ خوف لاحق ہے کہ ٹی وی ری پلے میں بار بار ان کی تصویریں دکھانے سے، ان کی روح چوری ہو جائے گی۔

(7) قابل اعتماد ذرائع سے ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے کہ بنکاک کے کچھ بری شہرت رکھنے والے مقامات کو بھی ''ہاٹ اسپاٹ'' کہا جاتا ہے (ظاہر ہے ایسا ہم نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا۔) اس طرح کے نام سے ہم اپنے بچوں کے لیے کس طرح کی مثال قائم کر رہے ہیں؟

(8) ہمارا پہلے بھی یہ موقف رہا ہے اور ہم دوبارہ کہتے ہیں کہ ٹیکنالوجی پر 100فیصد بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ ایک بورڈ کی حیثیت سے ہمیں اپنی اس مستحکم روایت پر فخر ہے کہ ہم صرف وہ کام کرتے ہیں، جس میں کامیابی کا امکان 100فیصد ہو۔ جیسا کہ ہمارے ہاں منعقد ہونے والے IPL مقابلے، یا ہمارا اپنا کرکٹ بورڈ، کرپشن اور اسکینڈلز کی لعنت سے 100فیصد پاک ہے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں، کیا آپ یہ بات DRS کے بارے میں کہہ سکتے ہیں؟

(9) انفرا ریڈ شعاعوں میں ہمارے تیز طرار، نوجوان فیشن ایبل کھلاڑی، جو جوش و جذبے سے بھرپور ہیں، بے جان بت بنے نظرآتے ہیں۔ حتیٰ کہ یہ بھی دکھائی نہیں دیتا کہ ان کے دل دھڑک رہے ہیں۔ یہ زیادتی ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، ان میں سے کچھ فیشن ایبل نوجوان کرکٹ سے ہٹ کر، خیراتی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔

(10) کسی اورکا نہیں تو ہمیں ان بے چارے کھلاڑیوں کا ہی لحاظ کر لینا چاہیے، جو آؤٹ کرنے کی خوشی میں جشن مناتے ہیں، لیکن جب DRS کے نتیجے میں فیصلہ واپس لے لیا جائے، تو اپنے چہروں کے تاثرات سے بے وقوف دکھائی دیتے ہیں۔

(11) ہاں جناب، کرکٹ کی اس روایت کا کیا ہوا، جس کے مطابق بیٹسمین کو شک کا فائدہ دیا جاتا ہے۔ جب تک DRS کوئی ایسا طریقہ وضع نہیں کر لیتاکہ شک کا فائدہ ان بالرز کے بجائے، جنہوں نے اپنے بازؤں پہ ٹیٹو بنوا رکھے ہیں، (بھارتی) بلے بازوں کو واپس مل جائے، ہم کسی ایسی چیز کو برداشت نہیں کر سکتے، جو کھیل کے اصل چہرے کو مسخ کر رہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔