نفسیاتی عوارض اور مابعد النفسیات
ایک عام ذہن حیرت زدہ ہے کہ کیونکر نفسیات اور مابعدالنفسیات کے ان واقعات میں فرق کیا جاسکتا ہے۔
چند ماہ کی غیر حاضری کے بعد ایک بار پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ ادارہ جاتی اور نجی مصروفیات کے علاوہ مابعد النفسیات سے متعلق مشقیں بھی اس خلل کا باعث ہیں، چونکہ مابعد النفسیات کی مخصوص ورزشوں کے سبب حتی الامکان کمپیوٹر اور موبائل سے دانستہ دوری اختیار کی ہوئی تھی اس لیے آپ کی ای میلز اور پیغامات کا جواب دینا ممکن نہ تھا لیکن وہ تمام قارئین جنھوں نے اس دورانیے میں رابطہ کیا ان کی ای میلز کا جواب لازمی دیا جائے گا۔
ان تین ماہ میں چند بہت ہی خاص مشقیں زیر مطالعہ اور عمل میں رہیں جن کے دوران تحقیقات کے کچھ نئے در وا ہوئے۔ انشاء اﷲ آپ کو ان حیرت انگیز تجربات سے بھی آگاہ کروں گا۔ اس بات سے قارئین کو پہلے ہی آگاہ کرچکا ہوں کہ میرے کالموں میں پیش کردہ زیادہ تر ہدایات، مشقیں اور اقتباسات مرحوم رئیس امروہوی کی کتابوں سے اخذ کردہ ہوتے ہیں کیونکہ مرحوم میرے روحانی استاد ہیں اور بچپن سے ان کی کتابوں سے استفادہ کرتے ہوئے میں نے کافی کچھ حاصل کیا ہے۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جیسے دیگر علوم مختلف جہات میں تقسیم ہوجاتے ہیں اور آنے والے لوگ وقت کے حساب سے ان میں ترمیم و تبدل کرتے ہیں اسی طرح میں نے بھی ذاتی حیثیت اور اس میدان کے دیگر طالب علموں کے تجربات کے بعد پرانی مشقوں میں ترامیم کی ہیں اور کچھ نئی مشقوں کی ابتدا کی ہے، جن کے اثرات و نتائج پہلے سے زیادہ موثر اور دیرپا ہیں، ان کالموں کے مستقل قارئین کے لیے وہ تمام مشقیں بھی پیش کی جائیں گی، چاہنے والوں کی فرمائش پر میں ان کالموں پر مشتمل اور نئی جہات سے متعلق ایک کتاب بھی مرتب کررہا ہوں، اگر اﷲ نے چاہا تو قارئین کے ذوق مطالعہ کی تسکین اور خلق کی بھلائی کے لیے بہت جلد یہ کام مکمل کرپاؤں گا۔ فی الحال آج کا موضوع نفسیاتی عوارض اور مابعد النفسیات سے متعلق ہے۔
ان ہی صفحات پر پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ نفسیات اور مابعد النفسیات کے درمیان ایک باریک سا فرق ہے، ضروری نہیں کہ جو محیرالعقل اور بظاہر ماورائی مشاہدات آپ کو پیش آرہے ہوں ان کا تعلق حقیقتاً مابعد النفسیات سے ہو بلکہ یہ التباس حقیقت، واہمہ و فریب نظر سراسر نفسیاتی عوارض کا شاخسانہ بھی ہوسکتا ہے۔ بعض ایسے مریض بھی زیر مطالعہ رہے ہیں جنھیں دعویٰ تھا کہ انھیں ماورائی مخلوق دکھائی دیتی ہے اور وہ پیش آمدہ واقعات سے بھی آگاہی حاصل کرسکتے ہیں لیکن تجزیہ کے بعد علم ہوا کہ یہ محض نفسیاتی عارضہ تھا، دعویٰ کرنے والے جھوٹے نہیں تھے لیکن نفسیات کے اس چیستان میں پھنسے ہوئے تھے جس سے باہر نکل پانا بعض ماہرین نفسیات کے لیے بھی ناممکن ہوجاتا ہے۔
ایک عام ذہن حیرت زدہ ہے کہ کیونکر نفسیات اور مابعدالنفسیات کے ان واقعات میں فرق کیا جاسکتا ہے، ایسا کون سا پیمانہ ہے جس سے حقیقت حال کا پتا لگایا جاسکے۔ یقیناً عام قاری کے لیے یہ ممکن نہیں، بلکہ بسا اوقات ماہرین نفسیات بھی چکرا جاتے ہیں کیونکہ شعور اور لاشعور کی بھول بھلیوں میں تواتر سے پیدا ہونے والے خیالات اس قدر راسخ ہوجاتے ہیں کہ حقیقت کا گماں ہوتا ہے۔ ہیپناٹزم سے اس سلسلے میں مدد لی جاسکتی ہے، سیلف ہپناسز کا عمل بھی کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔
مذکورہ بحث کو قطع کرتے ہوئے ایک اور سنجیدہ موضوع پر بات کرنا چاہوں گا، میرے کالموں کے بعض قارئین ایسا سمجھ بیٹھے ہیں کہ احقر کا تعلق تصوف یا عملیات کی کسی شاخ سے ہے، اور میں انھیں وہ نسخے فراہم کرسکتا ہوں جو زندگی میں شارٹ کٹ سے کامیابی حاصل کرنا سکھا سکیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے، میں محض ایک طفل مکتب ہوں اور نفسیات ومابعد نفسیات سے متعلق مختلف نظریات اور ان علوم کی جہات پر معلومات قارئین کو پیش کررہا ہوں، بلاشبہ یہ مشقیں کردار سازی و تعمیر و تنظیم شخصیت کے لیے اکسیر ہیں لیکن ان کا ایک فیصد حصہ بھی عملیات، جادو ٹونہ یا دیگر چیزوں سے نہیں ہے، نہ ہی میں کسی مذہب یا فرقے کا نمائندہ ہوں۔
یہ بات بار بار دہرانے کا مقصد یہی ہے کہ وہ قارئین جو جادو ٹونہ اور عملیات کے لیے مجھ سے رابطہ کررہے ہیں وہ حقیقت سمجھ سکیں۔ نیز میں قارئین سے ایک اور گزارش بھی کرنا چاہوں گا۔ کالم لکھنے کے دوران ہی ایک خبر ملی کہ ہالا کے ایک گاؤں میں شقی القلب باپ نے کالے علم کی خاطر اپنے پانچ بچوں کو گلا گھونٹ کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس سے پہلے بھی میں جعلی عاملوں اور کالا جادو کے خلاف لکھ چکا ہوں، اس سلسلے میں عوام میں آگاہی اور شعور کو اجاگر کرنا ازحد ضروری ہے اور بحیثیت کالم نگار یہ میرا فرض ہے کہ میں آپ کو ان جعلی عاملوں کاملوں کے کرتوت اور کالے جادو کی سیاہ کاریوں سے بچنے کی ترغیب دوں۔
خدارا! ان شعبدہ بازوں اور اپنے ذاتی مفاد کے لیے معصوم سادہ لوح اذہان کو بے وقوف بنانے والوں سے بچیں، ان کی باتوں میں آکر اپنی عاقبت اور دنیا خراب نہ کریں، کالا جادو بے شک حرام ہے اور ہمارا مذہب اس سے باز رہنے کی تلقین کرتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کے دور میں انسان شارٹ کٹ راستوں کی تلاش میں سرگرداں ہے، معاشرے میں پھیلی ناآسودگی و ناانصافی، ایک مخصوص طبقے میں دولت کی ریل پیل اور اکثریت کی غربت غیر معتدل معاشرہ کو جنم دے رہی ہے، اور نفسیاتی عوارض کے پھیلنے کا سبب بھی یہی ہے۔
آج معاشرے میں آپ کو ہر جانب ایسے کردار نظر آئیں گے جو کسی نہ کسی حوالے سے نفسیاتی کجی کا شکار ہیں۔ غصہ، ڈپریشن، ناامیدی، مایوسی، جھنجھلاہٹ نیز ایسے ہی منفی رویے لوگوں کے مزاج میں سرائیت کرتے جارہے ہیں، یہ سب نفسیاتی عوارض ہیں اور ان سے نجات کے لیے کردار سازی و تعمیر و تنظیم شخصیت کے حوالے سے پیش کردہ مشقیں تیربہدف نسخے کا درجہ رکھتی ہیں۔ موضوع کی طوالت ایک کالم میں سمیٹی نہیں جاسکتی، نئے قارئین مذکورہ مشقوں کے مطالعے کے لیے گزشتہ کالم دیکھ سکتے ہیں جو ایکسپریس کی ویب سائٹ اور ہمارے فیس بک پیج www.facebook.com/shayan.tamseel پر موجود ہیں، انشاء اﷲ اب ہر اتوار آپ سے بذریعہ کالم ملاقات رہے گی۔ فی امان اﷲ۔