زندگی تو باقی ہے

ریٹائرمنٹ کے بعد بے کار نہ بیٹھیں، مصروفیت کی نئی راہیں تلاش کریں


Munira Adil October 03, 2012
اعلیٰ عہدوں پر فائز خواتین کو کئی ادارے ریٹائرمنٹ کے بعد بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل کرلیتے ہیں۔ فوٹو : فائل

وہ تمام خواتین ریٹائر ہوچکی ہیں یا ریٹائر ہونے والی ہیں، یہ تحریر ان کے لیے خاصی معاون ثابت ہوگی۔

معمولات زندگی کی اس اہم تبدیلی کی تیاری جتنا جلدی ممکن ہو کرلینا بہتر رہتا ہے۔ لیکن عموماً ملازمت پیشہ خواتین اپنے کیریر کو بنانے، گھر اور بچوں کی دیکھ بھال، شوہر کے ساتھ بڑھتی منہگائی اور بڑھتے اخراجات کے ساتھ نبرد آزما ہونے میں ہی مصروف رہتی ہیں، لہٰذا ریٹائرمنٹ کے بعد کیا ہوگا؟ برسوں صبح سے شام تک کی مصروف پیشہ ورانہ زندگی گزارنے کے بعد ایک دم اتنی فراغت ہوگی، تو اس کو کس طرح استعمال کیا جائے گا۔ کس طرح اس وقت کو مفید بنایا جائے گا۔ اس منصوبہ بندی کے لیے عموماً وقت ہی نہیں نکل پاتا۔ اگر آپ کا شمار بھی ایسی خواتین میں ہوتا ہے تو آپ کے لیے ہمارے پاس چند مفید مشورے ہیں۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ آپ اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں سے ریٹائر ہورہی ہیں، زندگی سے نہیں۔ زندگی کو بھرپور انداز سے لطف اندوز ہونے کا وقت یہی تو ہے، کیوں کہ جب آپ زندگی لطف اندوز ہونا ختم کردیتے ہیں تو آپ بوڑھی ہوجاتی ہیں۔ کیا آپ بوڑھی ہونا چاہتی ہیں؟ بڑھاپا آپ کی سوچ سے آپ پر زیادہ اثر انداز ہوتا ہے عمر کے بڑھتے ہندسوں سے نہیں۔ اگر آپ نے ساری زندگی خوش اخلاقی، ایمان داری ، رشتوں کو باہم جوڑے رکھتے ہوئے گزاری ہے، تو سمجھ لیجیے خوشیاں آپ کی منتظر ہیں۔ خوش اخلاقی اور رشتوں کی پاس داری کرنے والی خواتین کبھی تنہا نہیں ہوتیں۔

فراغت بھی ایک نعمت ہے اس کا مثبت استعمال کیجیے وہ سب جو آپ کرنا چاہتی تھیں، لیکن مصروفیت کی بنا رپ نہیں کرپائی تھیں، ان تمام خواہشات کو پورا کرنے اور ان کو عملی جامہ پہنانے کا وقت آچکا ہے۔ کسی بھی کام کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ جذبہ ہونا چاہیے آپ اب بھی جس کام میں چاہیں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتی ہیں۔ صرف مثبت سوچ کی ضرورت ہے۔ یہ سوچنا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد تو ہم ناکارہ ہوگئے۔ معاشرے اور سسٹم سے الگ ہوکر گھر میں مقید ہوجانا، کہاں کی دانش مندی ہے۔ خود کو مصروف عمل رکھنے سے صحت بھی بہتر رہتی ہے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اگر آپ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات برقرار رکھنا چاہتی ہیں تو ایسے اداروں میں رابطہ کرسکتی ہیں، جہاں آپ کے تجربے کی ضرورت ہو ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے آپ اپنے سے قبل ریٹائر ہونے والی سینئر خواتین سے پوچھ سکتی ہیں۔ کچھ ادارے اپنے ملازمین کو ماہر نفسیات کی خدمات بھی دیتے ہیں، تاکہ ملازمین اس تبدیلی کو بہتر طور پر استعمال کرسکیں۔

عموماً ریٹائرمنٹ کے بعد خواتین ہوں یا مرد حضرات کچھ چڑچڑے پن کا شکار ہوجاتے ہیں، کاہل ہوجاتے ہیں اور اکثریت ڈپریشن کا شکار ہوکر مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ اس صورت حال میں وہ گھر والوں کے لیے اور شریک حیات کے لیے بھی پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ لہٰذا زندگی میں آنے والی ہر تبدیلی کو ہمیشہ مثبت لیں خوش رہیں اور دوسروں کو بھی خوش رکھیں۔

بہت سے افراد ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی کو فلاح و بہبود کے کاموں کے لیے وقف کردیتے ہیں۔ غریبوں کی امداد، غریب بچوں کی تعلیم، کئی فلاحی اداروں میں بلامعاوضہ خدمات فراہم کرنا یہ اور ایسے بے شمار کام ہیں، جنہیں کرنے سے ذہنی و دلی سکون اور سچی خوشی کا وہ احساس ہوتا ہے جس کا لفظوں میں بیان ممکن نہیں۔ کچھ خواتین ریٹائرمنٹ کے بعد درس تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوجاتی ہیں اور اپنے تجربے اور اپنی ماہرانہ صلاحیتوں سے دوسروں کو بھی مستفید کرتی ہیں۔

اعلیٰ عہدوں پر فائز خواتین کو کئی ادارے ریٹائرمنٹ کے بعد بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل کرلیتے ہیں۔ آپ کوئی ہنر سیکھ سکتی ہیں۔ کوئی ایسا آرٹ جو آپ خواہش کے باوجود اپنی ملازمت کے دوران مصروفیت کی وجہ سے نہ سیکھ پائیں۔ خود نوشت لکھ سکتی ہیں۔ اپنے دل چسپی کے کسی موضوع پر کوئی کتاب لکھ سکتی ہیں۔ انٹرنیٹ کی دنیا سے لطف اندوز و مستفید ہوسکتی ہیں۔ اپنے پوتے پوتیوں نواسے نواسیوں کے کپڑے ڈیزائن کرسکتی ہیں۔ ان کی عمر کے لحاظ سے ان کے لیے کہانیاں تخلیق کرسکتی ہیں۔ غرض آپ اپنی پسند کا کوئی بھی کام کریں۔ مقصد بس زندگی کو مثبت اور خوش گوار بنانا ہے۔ باعمل اور بامقصد زندگی گزاریے۔ خوشیاں آپ کی منتظر ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔